ایک تازہ پیش رفت کے مطابق کراچی میں پولیس چیف کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کی شناخت کر لی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق مبینہ حملہ آوروں کا تعلق وزیرستان اور لکی مروت سے تھا
کراچی پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ 17 فروری جمعے کی شام تین مسلح افراد کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ آور ہوئے۔ ’گیٹ پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں کے روکنے پر انہوں نے دستی بموں سے حملہ کیا اور کے پی او کی عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔‘
پولیس افسر کے مطابق مسلح ملزمان نے عمارت میں موجود افراد کو یرغمال بنانے کی کوشش کی لیکن ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنایا
بعد ازاں پولیس اور رینجرز سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے آپریشن کیا اور تینوں مسلح حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا
انہوں نے بتایا کہ دو حملہ آور پولیس سے مقابلے میں ہلاک ہوئے اور ایک نے خود کو دھماکہ خیر مواد سے اڑا لیا
پولیس افسر نے مزید بتایا کہ کے پی او میں حملہ کرنے والے تین مسلح ملزمان کی شناخت کر لی گئی ہے۔ مبینہ حملہ آوروں کی شناخت کفایت اللہ، مجید اور زالا نور کے نام سے ہوئی ہے
’خودکش دھماکہ کرنے والا زالا نور، شمالی وزیر ستان سے تعلق رکھتا تھا، سکیورٹی فورسز سے مقابلے میں مارے گئے حملہ آور کفایت اللہ کا تعلق لکی مروت اور مجید کا تعلق شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل سے تھا۔‘
پولیس افسر کا کہنا ہے کے پی او دفتر کے باہر سے ایک مشکوک گاڑی بھی ملی ہے، جس کی نمبر پلیٹس جعلی ہیں۔ خدشہ ہے کہ حملہ آور اسی گاڑی میں آئے تھے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جا رہی ہیں
واضح رہے کہ جمعے کی شام کو کراچی شارع فیصل سے متصل پولیس چیف کے آفس میں تین مسلح ملزمان نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک رینجرز اہلکار تیمور، دو پولیس اہلکار سعید اور عباس سمیت ایک خاکروب اجمل مسیح ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں سمیت 19 افراد کراچی پولیس آفس حملے میں زخمی بھی ہوئے تھے جنہیں طبی امداد کے لیے جناح ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی
کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد سیکیورٹی پر سوالات
سندھ کی صوبائی حکومت اور انتظامیہ نے صوبائی دارالحکومتی شہر میں کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد سرکاری عمارتوں اور تنصیبات پر سیکیورٹی انتظامات کی موجودہ صورتحال کا ’سیکیورٹی آڈٹ‘ کرنے کا فیصلہ کیا ہے
قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہیڈ کوارٹر پر حالیہ حملے کو سیکیورٹی کی سنگین خامی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے
حکام نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ہے اور ان کے جوابات کے لیے ایک ’مناسب مشق‘ کی ضرورت ہوگی، جس میں ’سیکیورٹی آڈٹ‘ اور دہشت گردانہ حملوں کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ’کارروائی کا منصوبہ‘ شامل ہے
جب صوبائی انتظامیہ کے سینئر رکن سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس بات سے متفق ہیں کہ کراچی پولیس آفس پر حملہ سیکیورٹی کی سنگین خامی ہے؟ تو جواب میں ان کا کہنا تھا ”یہ سیکیورٹی کی سنگین خامی لگتی ہے“
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ”اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری پولیس لڑ رہی ہے اور زیادہ نقصان برداشت کررہی ہے لیکن ہمیں نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ سیکیورٹی دفاتر اور عمارتوں کو کیسے محفوظ کریں“
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ پشاور حملہ ملک بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ’ویک اپ کال‘ تھی اور اس بات پر گہری تشویش ہے کہ عسکریت پسند کس طرح پولیس ہیڈ کوارٹروں میں گھسنے میں کامیاب ہوئے، یہ خطرناک ہے
رپورٹ کے مطابق جو لوگ سیکیورٹی ایجنسیز اور صوبائی انتظامیہ کے ساتھ کام کرتے ہیں، وہ کراچی پولیس آفس پر حملے کو ایک علامت اور دہشت گردوں کی جانب سے حکام کو ایک پیغام کے طور پر دیکھتے ہیں کہ ان کی تیاری کیسی ہے اور ان کے اگلے اہداف کیا ہوں گے
سندھ پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے سابق سربراہ اور محکمہ داخلہ سندھ کے مشیر شرف الدین میمن کہتے ہیں ”کراچی پولیس آفس آسان نشانہ نہیں تھا. یہ دہشت گردوں کی طرف سے ایک قسم کا پیغام ہے کہ ’ہم اتنے قریب ہیں‘ ، یہ سیکیورٹی کی سنگین خامی ہے، یہ معمول کی دہشت گردی کارروائی نہیں ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا میرا خیال ہے کہ اس کو دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہے، ہماری سہولیات کی سیکیورٹی سے لے کر قانون نافذ کرنے اداروں کی انسدادِ دہشت گردی کی تربیت سمیت ہر چیز کو دوبارہ چیک کرنے کی ضرورت ہے“
انہوں نے یاد کیا کہ ملک بھر میں دہشت گردی کی گزشتہ لہر میں عسکریت پسندوں نے اکثر آسان جگہوں پر حملہ کیا جس میں عوامی مقامات، مارکیٹیں، مساجد، مزارات اور امام بارگاہیں تھیں لیکن حالیہ حملوں میں اب تک ان کی کارروائی میں نمایاں تبدیلی نظر آ رہی ہے
شرف الدین میمن نے کہا کہ عسکریت پسند ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ کتنے تیار اور تربیت یافتہ ہیں، اگر وہ ان سہولیات کو نشانہ بنا سکتے ہیں تو پھر عوامی مقامات جیسی جگہیں کتنی غیر محفوظ ہوسکتی ہیں؟ لہٰذا یہ وقت ہے کہ مناسب سیکیورٹی پلان مرتب کریں اور مکمل اعتماد کے ساتھ اس چیلنج کو لیں۔