فرنشڈ اپارٹمنٹس کے ایک بڑے بلاک کے سب سے سستے کمرے میں میڈیکل کے تیسرے سال کا طالب علم یعنی کہ اسٹیفین کلچکوف ٹہل ٹہل کر جانفشانی سے ایناٹومی کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ اس جانفشانی کے مارے اس کا حلق خشک ہو رہا تھا اور پسینہ اس کی پیشانی پر چمک رہا تھا
برف میں لپٹی کھڑکی کے قریب اسٹول پر وہ لڑکی، انیتا بیٹھی تھی، جس نے اس کے ساتھ اپنا کمرہ شیئر کیا تھا۔ وہ دبلی پتلی اور زرد رو پچیس سالہ لڑکی تھی، جس کے بال بھورے تھے ، قد مختصر اور آنکھیں سہمی ہوئی۔۔ اپنی جھکی ہوئی کمر کے ساتھ وہ سرخ دھاگے سے ایک مردانہ شرٹ کا کالر مرمت کر رہی تھی، جیسے یہ کام فوراً فوراً مکمل کرنا ہو۔
راہداری میں گھڑیال دو بجا رہا تھا، مگر کمرہ ابھی تک صاف نہیں کیا گیا تھا۔ سارا سامان فرش پر بکھرا ہو ا تھا – تڑا مڑا کمبل، بکھرے ہوئے تکیے، کتابیں، کپڑے، ایک گندا سا بیسن، جس میں صابن ملے پانی کی سطح پر سگریٹ کے ٹکڑے تیر رہے تھے- گویا سامان جان بوجھ کر ایک ڈھیری کی صورت میں اکٹھا کر دیا گیا ہو
”دایاں پھیپھڑا تین حصوں پر مشتمل ہے“ کلچکوف نے دہرایا، ”اس کی حدیں کہاں کہاں ہیں، اوپری حصہ سینے کی باہر والی دیوار پر چوتھی یا پانچویں پسلی تک جا پہنچتا ہے، اور ایک طرف چوتھی پسلی تک، پیچھے سپائنا سکیپیولا تک۔۔“
کلوچکوف نے اپنی نظریں چھت کی طرف اٹھائیں، جو کچھ اس نے ابھی پڑھا تھا، اسے ذہن میں دیرانے کی کوشش کی۔ اس کی واضح تصویر بنانے سے قاصر اپنی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد اس نے اپنے کوٹ سے اپنی اوپری پسلیوں کو محسوس کرنے کی کوشش کی
”پسلیاں تو پیانو کی چابیوں کی طرح ہیں“ اس نے کہا، ”انہیں گننے میں غلطی نہ ہو جائے، اس کے لیے ان سے اچھی طرح شناسائی ضروری ہے۔ مجھے ایک زندہ انسان اور ڈھانچے کے ساتھ یہ سمجھنا ہوگا—ارے انیتا، ادھر آؤ اور مجھے سمجھنے میں مدد دو۔“
انیتا نے اپنی کڑھائی روکی، بلاوز اتارا اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ کلچکوف سامنے بیٹھ گیا اور اس کی پسلیاں گننے لگا
”پہلی پسلی کو ڈھونڈنا مشکل ہے، وہ ہنسلی کی ہڈی کے پیچھے ہے۔ یہاں دوسری ہے، یہ تیسری، لو یہ چوتھی ہوئی، تم ہل کیوں رہی ہوں؟“
”انگلیاں اتنی ٹھنڈی ہیں تمہاری“
”ہلو مت، مر تو نہیں جاؤ گی تم۔۔ تو یہ تیسری ہے، اور یہ چوتھی۔ دیکھنے میں تم اتنی دبلی ہو، مگر تمہاری پسلیاں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ یہ دوسری، یہ تیسری۔۔۔ نہیں اس طرح میں گڑبڑا جاؤں گا اور میرے ذہن میں واضح تصویر نہیں بنے گی۔ مجھے نشان لگانے پڑیں گے، میرا کوئلہ کدھر ہے؟“
کلچکوف نے ایک کوئلے کا ٹکڑا ڈھونڈا اور اس کی مدد سے انیتا کے سینے پر کئی متوازی لکیریں کھینچ دیں، پسلیوں کی نشاندہی کے لیے
”زبردست، بالکل ہاتھ کی لکیروں کی طرح۔۔ اب انہیں بجا کر دیکھتے ہیں، چلو کھڑی ہو جاؤ“
انیتا نے کھڑے ہو کر اپنا سر سیدھا کیا اور ٹھوڑی اوپر۔۔ کلچکوف نے اس کی پسلیاں بجا بجا کر دیکھنی شروع کر دیں اور وہ اس کام میں اتنا محو ہو گیا کہ اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ سردی کے مارے انیتا کے ہونٹ، ناک، انگلیاں، سب نیلی ہو رہی ہیں۔ انیتا ٹھنڈ کے مارے ٹھٹھر رہی تھی مگر اسے ڈر تھا کہ یہ طب کا طالب علم اس کے کانپنے کے باعث اپنی لکیریں کھینچنا اور بجانا بند نہ کر دے اور کہیں امتحان میں فیل نہ ہو جائے
”اب میری سمجھ میں آ گیا ہے“ کلچکوف نے کہا، اور اپنا بجانا بند کر دیا۔ ”تم اسی طرح بیٹھ جاؤ، اور کوئلے کے نشان صاف مت کرنا، میں ذرا اور دیکھ لوں“
اور اس طب کے طالب علم نے دوبارہ چہل قدمی شروع کر دی، اور ساتھ ساتھ اپنی دہرائی بھی۔۔
انیتا، سردی میں ٹھٹھرتی ہوئی، اپنی سیاہ لکیروں سمیت بیٹھ گئی اور سوچنے لگی۔ وہ عموماً بہت کم بولتی تھی، ہمیشہ خاموش رہتی تھی اور اندر ہی اندر سوچ میں گم۔۔
ان سستے کمروں میں اپنی چھ سات سال کی آوارہ گردی میں اس نے کلچکوف کی طرح کے کوئی پانچ آدمی دیکھے تھے۔ اب ان سب نے اپنی تعلیم مکمل کر لی تھی، دنیا میں اپنی جگہ بنا لی تھی اور شرافت کے بل بوتے پر اسے یکسر بھلا دیا تھا۔ ان میں سے ایک پیرس میں رہتا تھا، دو ڈاکٹر بن چکے تھے، ایک آرٹسٹ ہو گیا تھا اور ایک تو شاید پروفیسر۔۔ کلچکوف چھٹا تھا، مگر جلد ہی وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنی جگہ بنانے والا تھا۔ اس کا مستقبل روشن تھا اور وہ بلاشبہ ایک بڑا آدمی بننے جا رہا تھا، مگر حال کے حالات خراب تھے۔ کلچکوف کے پاس ابھی نہ تو تمباکو تھا، نہ چائے کی پتی، اور چینی بھی قریب قریب ختم ہونے والی تھی۔
’مجھے اپنی کڑھائی جلد از جلد ختم کر کے اس کے پچیس کوپک تو لینے چاہئیں گاہک سے، پھر چینی اور تمباکو خرید لاتی ہوں‘
اتنے میں باہر سے “کیا میں اندر آ سکتا ہوں“ کی آواز آئی۔
انیتا نے جلدی سے اپنی اونی چادر لپیٹ لی۔ اتنے میں فیٹی سوف، جو ایک مصور تھا، ٹپک پڑا
میں ایک درخواست کرنے آیا ہوں، اس نے کلچکوف کو اپنے ماتھے پر لٹکتی زلفوں کے عقب سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ذرا ایک دو گھنٹے کو اپنی حسینہ تو مجھے دے دو، میں ایک تصویر بنا رہا ہوں اور مجھے ایک ماڈل چاہیے
”اوہ، خوشی سے،” کلچکوف نے اتفاق کہا ”ان کے ساتھ جاؤ، انیتا۔“
”مگر میرا وہاں کیا کام ہے؟“ انیتا نے نرمی سے پوچھا
”اچھا۔ بھئی وہ آرٹ کی خاطر مدد مانگ رہا ہے، کوئی مذاق تھوڑا ہی ہے۔ اگر مدد کر سکتی ہو تو کیوں نہیں؟“
انیتا نے لباس پہننا شروع کر دیا
”تم کیا بنا رہے ہو؟“ کلچکوف نے پوچھا
”شعور۔۔ یہ موضوع تو کافی دلچسپ ہے، مگر میں اس سے انصاف نہیں کر پا رہا۔ مجھے بار بار اپنی ماڈلز تبدیل کرنی پڑتی ہیں۔ کل تو میرے پاس ایک نیلے پیروں والی آ گئی تھی۔ میں نے پوچھا، تمہارے پیر نیلے کیوں ہو رہے ہیں؟ بولی کہ میرے موزے گِھس گئے ہیں۔ ایسے ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ تم خوش قسمت آدمی ہو، لگے رہتے ہو کام میں۔۔“
”طب چیز ہی ایسی ہے، اس میں مستقل جان مارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔“
”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن برا نہ مانو تو ایک بات کہوں کلچکوف؟ تم کیا جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہو۔ خدا جانتا ہے کہ تم کیسے گزارہ کر رہے ہو۔۔“
”تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟ میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں۔ مجھے اپنے ابا سے بارہ روبل تو ملتے ہیں، اور اس میں زندگی گزارنا جان کا عذاب ہے۔“
”ہاں یہ تو ہے“ مصور نے حقارت سے کہا، ”لیکن پھر بھی، تم اس سے بہتر زندگی گزار سکتے ہو۔ ایک ترقی یافتہ آدمی کو باذوق ہونا چاہیے، ہے نا؟ اور تم تو خدا جانے کس طرح رہ رہے ہو۔۔ بستر کی حالت خراب ہے، کچرا ہر طرف پھیلا ہے، وہ ادھر پلیٹ میں کل کا کھانا پڑا ہوا ہے“
”ٹھیک کہتے ہو“ ، طالب علم شرمندہ ہو کر بولا، ”انیتا نے آج بالکل صفائی نہیں کی۔ ہر وقت ہی مصروفیات پھیلا کر رکھتی ہے“
جب مصور اور انیتا چلے گئے تو کلچکوف صوفے پر لیٹ گیا اور لیٹے لیٹے پڑھنے لگا۔ اسی دوران وہ ارادہ کیے بغیر سو گیا۔ ایک گھنٹے تک سو کر اٹھنے کے بعد وہ اٹھا اور ہتھیلیوں پر چہرہ جمائے اس پریشان کن حالت پر غور کرنے لگا۔ اسے آرٹسٹ کے الفاظ یاد آنے لگے، کہ ’ایک مہذب آدمی کو باذوق ہونا چاہیے‘ ، اور اب اسے اپنا کمرہ غلیظ لگنے لگا۔ اسے اپنا مستقبل نظر آ رہا تھا، جس میں وہ اپنے ہسپتال میں مریض دیکھ رہا تھا، اپنی شریف پاکباز بیوی کے ساتھ بڑے سے ڈائننگ روم میں چائے پی رہا تھا- اور پھر گندے پانی سے بھرا ہو بیسن، جس میں سگریٹ کے ٹکڑے تیر رہے تھے، اسے مکروہ لگنے لگا۔ اسے انیتا بھی سپاٹ، بے ڈھنگی اور قابلِ رحم لگنے لگی اور اس نے وہیں اسی وقت اسے ہر قیمت پر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا
جب انیتا فنکار کے ہاں سے واپس آئی اور اپنا کوٹ اتارنے لگی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور سنجیدگی سے بولا ”میری پیاری، بات یہ ہے کہ تم ذرا بیٹھو اور میری بات سنو۔ ہمیں الگ ہونا پڑے گا۔ میں اب تمہارے ساتھ مزید رہنا نہیں چاہتا۔“
انیتا بہت تھکی ہوئی واپس آئی تھی۔ اسے اتنی دیر تک کھڑا ہونا پڑا تھا کہ اس کا چہرہ اتر گیا تھا اور اس کی ٹھوڑی نکیلی معلوم ہوتی تھی۔ اس نے طالب علم کے جواب میں ایک لفظ نہیں کہا، مگر اس کے لب لرزنے لگے۔
”تم یہ تو مانو گی کہ ہمیں جلد یا بدیر الگ ہونا ہی ہے۔۔“ طالب علم نے کہا، ”تم کتنی اچھی اور مہربان ہو، اور سمجھدار بھی۔۔ تم تو سمجھتی ہو نا۔۔“
انیتا نے اپنا کوٹ واپس پہن لیا ، چپ چاپ اپنا کڑھائی کا سامان لفافے میں لپیٹا، اپنے سوئی دھاگے اٹھائے۔ اس دوران اسے تھوڑی سی چینی والا لفافہ کھڑکی کے پاس پڑا مل گیا، جو اس نے اٹھا کر میز پر کتابوں کے پاس رکھ دیا
”یہ تھوڑی سی چینی ہے تمہاری“ ، اس نے نرمی سے کہا اور اپنے آنسو چھپانے کے لیے مڑ گئی
“مگر تم رو کیوں رہی ہو۔۔“ کلچکوف نے پوچھا
شرمندگی کے مارے وہ اٹھ کر انیتا کے پاس جا کھڑا ہوا۔
”عجیب بات کرتی ہو تم۔۔ تمہیں پتہ ہے کہ ہمیں الگ تو ہونا پڑے گا۔ ہم ہمیشہ تو ساتھ نہیں رہ سکتے۔“
وہ اپنا سامان اٹھا چکی تھی اور الوداع کہنے کے لیے اس کی طرف مڑی، مگر کلچکوف کو اس پر ترس آ گیا
’اسے ایک ہفتہ رہنے دیتا ہوں‘ اس نے سوچا۔۔ ’ہاں، بس ایک ہفتہ، اور پھر اسے جانے کو کہہ دوں گا۔.’
اور پھر اپنے ہی ارادے کی کمزوری پر اسے غصہ آ گیا اور وہ چلّایا ”یہ تم کھڑی ہوئی کیا کر رہی ہو؟ اگر جانا ہے تو دفع ہو جاؤ ، نہیں جانا چاہتیں تو کوٹ اتارو اور رہ جاؤ یہیں۔“
انیتا نے چپ چاپ اپنا کوٹ اتارا، ناک صاف کی، چپکے سے ہی ٹھنڈی آہ بھری اور بغیر آواز کے اپنی جگہ پہنچ گئی، یعنی کھڑکی کے پاس والے اسٹول پر۔۔
طالبِ علم نے کتاب اٹھائی اور کمرے کا چکر لگانا شروع کر دیا۔
”دایاں پھیپھڑا تین حصوں پر مشتمل ہے۔۔۔“ وہ دہرانے لگا۔ ”اوپری حصہ سینے کی سامنے والی دیوار پر چوتھی یا پانچویں پسلی تک پہنچتا ہے۔۔“
راہداری میں کوئی اونچی آواز میں چلا رہا تھا
”گریگوری، چائے۔“