برطانیہ جتنے بڑے گلیشیئر کے نیچے برفانی روبوٹ نے کیا دیکھا

جوناتھن ایمس

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برِ اعظم انٹارکٹکا کے گلیشیئرز سمندری درجہ حرارت میں تبدیلی سے ہماری گذشتہ فہم کے مقابلے میں کہیں زیادہ جلد متاثر ہو جاتے ہیں

برطانوی انٹارکٹک سروے اور امریکی انٹارکٹک پروگرام نے گلیشیئرز پگھلنے کا جائزہ لینے کے لیے تھوائٹس نامی گلیشیئر کے نیچے سینسرز اور ایک زیرِ آب روبوٹ بھیجا

برطانیہ کے سائز کا یہ گلیشیئر دنیا میں سب سے تیزی سے بدل رہا ہے

موسمیاتی تبدیلیوں سے اس کا متاثر ہونا سائنسدانوں کے لیے ایک بڑی تشویش کی وجہ ہے, کیونکہ اگر یہ مکمل طور پر پگھل گیا تو اس سے سمندروں کی عالمی سطح نصف میٹر تک بلند ہو جائے گی

نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تھوڑا سا بھی پگھلاؤ ممکنہ طور پر گلیشیئر کو مکمل معدومیت کے راستے پر آگے دھکیل سکتا ہے

تھوائٹس کا یہ مشترکہ سروے اس سفید برِ اعظم پر کی گئی سب سے بڑی سائنسی تحقیقات میں سے ایک ہے

نوّے کی دہائی کے اواخر سے یہ گلیشیئر اپنی ’گراؤنڈنگ لائن‘ سے 14 کلومیٹر پیچھے ہٹ چکا ہے۔ گراؤنڈنگ لائن وہ نقطہ ہوتا ہے جہاں تک گلیشیئر مضبوطی سے زمین میں ایستادہ ہوتا ہے اور جہاں سے آگے یہ سمندر کے سطح پر آ جاتا ہے اور ایک بڑا سا پلیٹ فارم بنا لیتا ہے۔ کچھ جگہوں پر گراؤنڈنگ لائن سال میں ایک کلومیٹر سے زیادہ پیچھے جا رہی ہے اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ مرحلہ تیز تر ہی ہوتا جائے گا

نئی ریسرچ کے دوران برٹش انٹارکٹک سروے (بی اے ایس) کے سائنسدانوں نے برف میں بورنگ کر کے نیچے پانی تک سینسرز پہنچائے

جہاں گرم پانی برف کی اس تہہ کے نیچے گردش کرتا ہے، وہاں اُنھوں نے پایا کہ بلند درجہ حرارت کے باوجود پگھلاؤ اتنا زیادہ نہیں تھا بلکہ تازہ پانی کی ایک تہہ مزید نقصانات کے خلاف مزاحم تھی مگر سائنسدانوں نے تشویشناک طور پر یہ بھی پایا کہ گلیشیئر کے پگھلنے کے عمل میں صرف پگھلاؤ کا حجم ہی اہم بات نہیں

سروے سے تعلق رکھنے والے اوشنوگرافر ڈاکٹر پیٹ ڈیوس نے کہا کہ ’یہ اچھی بات ہے کہ پگھلنے کی شرح کم ہے مگر جو چیز اہم ہے وہ یہ کہ پگھلنے کی شرح کیسے تبدیل ہوتی ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’برف کی ایک چادر کا توازن بگاڑنے کے لیے پگھلنے کی شرح اہم کردار ادا کرتی ہے، چنانچہ اگر پگھلنے کی شرح میں تھوڑا سا بھی اضافہ ہو تو اس سے گلیشیئر پگھلنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔‘

توقع سے کم پگھلاؤ دکھانے والے یہ مشاہدات گلیشیئر کی نچلی اور ہموار و سپاٹ سطح پر کیے گئے تھے مگر امریکی انٹارکٹک پروگرام کے لیے آئس فن نامی اس روبوٹ نے اسی مشترکہ سروے کے لیے تصاویر لیتے ہوئے یہ دکھایا ہے کہ اکثر معاملات میں چیزیں سوچ سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھیں۔

کورنیل یونیورسٹی کی محقق برٹنی شمٹ جنھوں نے تھوائٹس کے نیچے آئس فن روبوٹ کو ایک مانیٹر اور جوائے سٹک کے ذریعے کنٹرول کیا، کہتی ہیں کہ ’ہم نے دیکھا کہ سپاٹ برف کے بجائے برف میں کئی جگہ سیڑھیاں اور دراڑیں بنی ہوئی تھیں جن کی ہم نے توقع نہیں کی تھی

تارپیڈو کی صورت کے اس روبوٹ کو تھوائٹس کے نیچے پہنچانے کے لیے برٹش انٹارکٹک سروے نے گرم پانی ایک ڈرل مشین کے ذریعے 600 میٹر برف میں ایک تنگ سوراخ کیا۔ اس کے بعد ایک رسی کی مدد سے روبوٹ کو اس سے نیچے اتار دیا گیا

ڈاکٹر شمٹ کی ٹیم نے روبوٹ کو پانچ الگ الگ غوطے لگوائے اور اسے گلیشیئر کی گراؤنڈنگ لائن تک پہنچا دیا

آئس فن پر موجود سینسرز سے یہ معلوم ہوا کہ ان جگہوں پر تھوائٹس کا نچلا حصہ سمندر سے آنے والے گرم پانی کے باعث کٹاؤ کا شکار ہو رہا ہے

ڈاکٹر شمٹ نے کہا کہ ’بنیادی طور پر گرم پانی کمزور جگہوں پر جا کر اُنھیں مزید کمزور بنا رہا ہے۔ ہم ان معلومات کو اپنے ماڈلز میں شامل کر کے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ برف کی چادر کب اور کیسے ٹوٹے گی۔‘

ڈاکٹر پیٹ ڈیوس نے کہا کہ تھوائٹس سے سیکھے گئے سبق یقینی طور پر اس خطے میں موجود دیگر گلیشیئرز کو بھی سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

رواں ہفتے سائنسی جریدے نیچر میں اس تحقیقی مطالعے سے متعلق دو مقالے شائع ہوئے، جن میں ایک آئس فن پر جبکہ دوسرا بور ہولز سے متعلق ہے

آئس فن کے متعلق لکھے گئے پیپر کے سرکردہ مصنفین میں سے ایک پروفیسر ڈیوڈ وان ہیں جو برٹش انٹارکٹک سروے کے سابق ڈائریکٹر تھے جن کی موت کا اعلان گذشتہ ہفتے کیا گیا

گذشتہ 35 سے زائد برسوں میں پروفیسر وان نے دنیا کے صفِ اول گلیشیئلوجسٹ یعنی ماہرِ گلیشیئرز کے طور پر اپنی ساکھ قائم کی تھی

وہ امریکہ اور برطانیہ کے مشترکہ تھوائٹس پراجیکٹ کے سرکردہ شخص رہے مگر بعد میں بیماری کی وجہ سے اُنھوں نے اس کے شریک رہنما کا عہدہ چھوڑ دیا تھا

بدھ کو شائع ہونے والے دو پیپرز جس تحقیق پر مبنی ہیں، اسے دیکھنے کے لیے جب وہ انٹارکٹکا گئے تھے تو وہ ان کا آخری سفر تھا

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سین ڈیاگو کے سکرپس انسٹیٹیوٹ آف اوشینوگرافی کی پروفیسر ہیلن فریکر اس وقت انٹارکٹکا میں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ’ڈیوڈ ایک زبردست، پرمغز اور گہری دلچسپی کے حامل سائنسدان تھے جو کئی لوگوں کے لیے رول ماڈل تھے۔ وہ اس فیلڈ میں رہنما تھے اور اُنھوں نے انٹارکٹکا میں برف کی چادر کے متعلق کئی اہم جیوفزیکل معلومات پیش کیں کہ یہ کیسے تبدیل ہو رہی ہے

اُنھوں نے کہا: ’ڈیوڈ نے وقار، مزاح اور رحمدلی سے قیادت کی، وہ نوجوان سائنسدانوں بالخصوص اقلیتوں کے حامی تھے۔ انٹارکٹک سائنس نے ایک حقیقی ہیرو کو کھو دیا ہے اور ہمیں ان کی بہت یاد آئے گی۔‘

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close