برطانیہ میں کمپنیوں کی جانب سے ملازمین کو ہفتے میں چار دن کام پر بلانے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق درجنوں برطانوی کمپنیوں نے آزمائشی بنیادوں پر ہفتے میں چار دن کام کا معمول شروع کیا تھا، جن میں سے زیادہ تر نے اس کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے
ہفتے میں چار دن کام کی مہم چلانے والوں کا مقصد دفتر یا کام اور زندگی کے دیگر معمولات میں توازن لانا ہے
برطانیہ میں گزشتہ برس جون تا دسمبر اکسٹھ کمپنیوں نے آزمائشی طور پر اپنے ملازمین سے ہفتے میں چونتیس گھنٹے کام کرایا جن کی تنخواہ پہلے کی طرح برقرار رکھی گئی
ان میں سے چھپن کمپنیوں نے ہفتے میں چار دن کام کو تاحال برقرار رکھا ہے جبکہ اٹھارہ کمپنیوں نے اس کو مستقل شکل دے دی ہے
برطانیہ میں قائم ایک ریسرچ آرگنائزیشن کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق یہ دنیا میں ہفتے میں چار دن کام کا سب سے بڑا آزمائشی پراجیکٹ تھا
اس آزمائشی پراجیکٹ کے نتائج ایسی بہت سی کمپنیوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوں گے جو نئے ٹیلنٹ یا ملازمین کی تلاش میں ہیں تاہم سروے کے مطابق بہت کم ایسی کمپنیاں ہیں جو مستقبل قریب میں ہفتے میں چار دن کام کرانے کا منصوبہ رکھتی ہیں
اس آمائشی پراجیکٹ یا ٹرائل میں برطانیہ کے مختلف علاقوں میں قائم کمپنیوں کے دو ہزار نو سو ملازمین کو شامل کیا گیا
ان میں سٹیلر اسیٹ مینیجمنٹ کمپنی اور ڈیجیٹل مینوفیکچرر ریولین روبوٹکس بھی شامل ہیں
اکثریت نے رائے دی کہ ہفتے میں چار دن کام کر کے بھی پیداوار یا کام کا معیار و مقدار برقرار رکھا گیا
سروے میں ملازمین نے بتایا کہ ان کی ذاتی زندگی اور کام کے دورانیے میں توازن بہتر ہوا ہے جس سے اُن پر مثبت اثر پڑا جبکہ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ چار دن کام کی پالیسی کی وجہ سے بہت سے ملازمین نے اپنی ملازمین کو نہ چھوڑنے کا کہا
ہفتے میں چار دن کام کی مہم چلانے والی تحریک کے ڈائریکٹر جو رائل نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس آمائشی پراجیکٹ کی کامیابی اور سروے کے نتائج ہفتے میں چار دن کام کی طرف ایک اہم بریک تھرو ہے۔‘
سٹیزن ایڈوائس گیٹ ہیڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر پال اولیور نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ملازمت پر رہنے اور ملازمت حاصل کرنے میں بہتری آئی ہے اور ٹرائل کے دوران ملازمین کی بیماری کی سطح بہت کم ہو گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ملازمین کم وقت میں زیادہ کام کر لیتے ہیں
سروے میں بہت سے ملازمین نے بتایا کہ اُن کے لیے ایک دن زیادہ چھٹی تنخواہ کے مقابلے میں اہم ہے۔