کیا آپ اپنے سچ سے اپنے پیاروں کا دل دکھاتے ہیں؟

ڈاکٹر خالد سہیل

میری نگاہ میں دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔۔
کسی کا سچ میٹھا ہوتا ہے کسی کا سچ نمکین
کسی کا سچ کھٹا ہوتا ہے کسی کا سچ کڑوا
کسی کا سچ ہمیں سکھی اور کسی کا سچ ہمیں دکھی کر دیتا ہے
کسی کا سچ سن کر ہمارے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے
اور
کسی کا سچ سن کر ہماری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔

میں نے اپنے کلینک میں ایک جوڑے کی تھراپی کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ آپ کا ازدواجی مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایک دوسرے سے حد سے زیادہ سچ بولتے ہیں تو وہ بہت حیران ہوئے، کہنے لگے، ”کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے سے جھوٹ بولا کریں؟“

میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں جھوٹ بولنے کی ترغیب نہیں دے رہا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دانا انسان جانتا ہے کہ
اسے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا
کہاں بات کرنی ہے اور کہاں چپ رہنا ہے
کس بات پر توجہ مرکوز کرنی ہے اور کس بات کو نظر انداز کرنا ہے

بدھا کا مشورہ تھا
WITNESS IN SILENCE

بہت سے میاں بیوی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے دل کی ہر بات کرنی چاہیے اور پورا سچ بولنا چاہیے۔ میں ایسے جوڑوں سے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے دو واقعات سناتا ہوں اور دو مثالیں دیتا ہوں آپ بھی سن لیجیے

پہلی مثال:
میرے ایک مریض نے مجھے بتایا کہ جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مجھے اپنی شریکِ حیات کی تین خصوصیات بتائے تو وہ خاموش ہو گیا۔ اگلے ہفتے اس نے مجھے بتایا کہ جب وہ گھر گیا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا، ”جب ڈاکٹر سہیل نے مجھ سے تمہاری تین خصوصیات پوچھیں تو مجھے ایک خصوصیت بھی یاد نہ آئی۔“ اس کی بیوی یہ سچ سن کر ناراض ہو گئی اور کئی دن تک ناراض رہی۔

میرے مریض نے اعتراف کیا کہ اس نے وہ سچ اپنی بیوی کو بتا کر غلطی کی۔ اس دن کے بعد اس نے اپنی بیوی سے معذرت بھی کی معافی بھی مانگی اور اسے تین خصوصیات بھی بتائیں لیکن وہ راضی نہ ہوئی اور کئی مہینوں تک اسے طعنے دیتی رہی۔

دوسری مثال:
میری ایک مریضہ نے دوسری شادی کی تھی۔ ایک صبح ناشتے پر اس کے نئے شوہر نے پوچھا ”بیگم کل رات آپ نے کیا خواب دیکھا؟“
بیوی کہنے لگی ”میں کل رات خواب میں اپنے پہلے شوہر کے ساتھ ہمبستری کر رہی تھی۔“

دوسرا شوہر اتنا ناراض ہوا کہ کئی ہفتے ناراض رہا۔

جب میں نے بیوی سے کہا آپ کو وہ خواب اپنے شوہر کو نہیں بتانا چاہیے تھا تو کہنے لگیں، ”کیا میں جھوٹ بولتی؟“
میں نے کہا خاموش رہتیں۔

میں شادی شدہ مریضوں سے کہتا ہوں کہ ان کے محبوب بہت حساس ہوتے ہیں اور ان کے سچ سے ان کا دل دکھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے عزیزوں دوستوں اور پیاروں کے بارے میں کچھ محتاط رہنا چاہیے۔

میرے ایک ہندوستان کے دوست بہت حسن پرست اور عاشق مزاج تھے۔ کئی عشق لڑانے کے بعد وہ ہندوستان گئے اور ایک دخترِ خوش گل کو بیوی بنا کر لے آئے۔

میں نے انہیں دعوت دی کہ ہم سب مل کر نیاگرا فالز دیکھیں کیونکہ بھابھی جان نے فالز نہیں دیکھی تھی۔ وہ خوشی خوشی آئیں۔ سیر کرنے کے بعد ہم نے مل کر ڈنر کیا۔ میں نے بھابی جان سے ہنی مون کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں ”ہم نے پیرس جا کر ہنی مون منایا بہت مزا آیا۔ لیکن ایک بات۔۔۔“ پھر وہ شرما کر خاموش ہو گئیں

میرے دوست نے اپنی بیگم سے کہا، ”ڈاکٹر سہیل ماہر نفسیات ہیں۔ دل میں جو بات ہے وہ کہہ دو“

کہنے لگیں سہاگ رات آپ کے دوست نے مجھے پرانے عشق کے قصے سنائے تو میں بہت اداس ہو گئی۔

میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو کہنے لگا ”میں اپنی دلہن کو سارا سچ بتانا چاہتا تھا تا کہ ہماری شادی کا آغاز پورے سچ سے ہو۔“

بھابی نے میرے دوست سے کہا ایسا سچ نہ ہی بتاتے تو اچھا ہوتا۔

میری نگاہ میں میاں یا بیوی کے شادی سے پہلے کے رومانس یا دوسری شادی کے بعد پہلی شادی کے قصے صیغہ راز میں ہی رہیں تو اچھا ہے۔ ورنہ ماضی کے سچ حال میں زہر گھول سکتے ہیں۔

میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ
ہماری ذہانت ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں کیا کہنا چاہیے، کیا لکھنا چاہیے
اور
ہماری دانائی ہمیں سکھاتی ہے کہ کیا نہیں کہنا چاہیے کیا نہیں لکھنا چاہیے۔

زندگی میں یہ جاننا کہ کیا نہیں کہنا اور کیا نہیں لکھنا اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ یہ جاننا کہ ہمیں کیا کہنا اور کیا لکھنا چاہیے۔

حق پرستی ہے بڑی بات مگر
روز کس کس سے لڑا کیجیے گا

کیا آپ بھی اپنا سچ بول کر اپنے عزیزوں دوستوں اور پیاروں کا دل دکھاتے ہیں اور فخر کرتے ہیں کہ آپ پورا سچ بولتے ہیں؟
اگر ایسا ہے تو آپ کو اپنے فلسفہ حیات پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close