ہماری آنکھوں پر بندھی غزہ کی ’پٹی‘ اور اسرائیل کے لیے بددعاؤں کے کنٹینرز۔۔

وسعت اللہ خان

’’آپ اپنا دفاع بھلے مضبوطی سے کرنے کے قابل ہیں، مگر جب تک امریکا قائم ہے، آپ کو ہرگز فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ہمیشہ آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں (امریکی وزیرِ خارجہ انتنی بلنکن۔ تل ابیب۔ بارہ اکتوبر دو ہزار تئیس)

حالانکہ دانتوں تک مسلح اسرائیل کے آگے حماس کی فوجی قوت کچھ بھی نہیں۔پھر بھی بائیڈن انتظامیہ نے یہ ضروری جانا کہ جنوبی اسرائیل میں حماس کی کارروائی کے محض چوبیس گھنٹے کے اندر اندر پوری تفصیلات سامنے آنے سے پہلے ہی اپنے بحری بیڑے کو مشرقی بحیرہ روم میں اسرائیل، لبنان اور شام کے ساحل کے قریب لنگر انداز ہونے کا حکم دے دیا، تاکہ اگر غزہ کی نسل کشی کے دوران جنوبی لبنان سے ایرانی حمائیت یافتہ حزب اللہ یا شام اسرائیل کی توجہ بٹانے کے لیے کوئی اوندھی سیدھی حرکت کریں تو ان کے کان رہیں۔

اس کے علاوہ خلیجی ریاستوں اور جنوبی یورپ کے فضائی مراکز میں موجود امریکی فضائیہ کے اسکواڈرنز کو ریڈ الرٹ کر دیا گیا ہے، تاکہ اسرائیل بے فکری سے غزہ میں حماس کو قلع قمع کرنے کے بہانے زمین کو تئیس لاکھ رہائشیوں سے صاف کر سکے۔۔ یا تو وہ خود ناکہ بندی اور مسلسل بمباری سے گھبرا کے مصر کی جانب کھلے واحد سرحدی راستے سے نکل جائیں یا پھر اپنی مکمل نسل کشی کے لیے تیار ہو جائیں۔یوں جس طرح انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل سے ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینی خانوادوں کو خوف و دھشت اور بندوق کے زور پر گھروں کو چھوڑ کے سرحد پار دھکیلا گیا۔ بعینہہ ان فلسطینیوں کی غزہ میں آباد چوتھی نسل کو بھی باہر دھکیل دیا جائے۔

اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں غزہ شہر کے دس لاکھ مکینوں کو چوبیس گھنٹے میں شہر چھوڑ کے جنوبی غزہ میں جانے کا فوجی حکم ملا ہے تاکہ اسرائیلی دستے شہر پر باآسانی قبضہ کر سکیں۔

فی الحال کہا جا رہا ہے کہ یہ انخلا عارضی ہوگا اور کچھ عرصے بعد شہری واپس اپنے گھروں کو لوٹ سکیں گے، مگر جس طرح انیس سو اڑتالیس میں مکینوں کے نکلتے ہی مکان ڈھا دیے گئے اور قصبوں اور دیہاتوں کے نام تک بدل دیے گئے، اسی طرح جب موجودہ بے خانماں فلسطینی واپس غزہ شہر لوٹیں گے تو وہاں کوئی گھر ہی نہ ہوگا۔

امریکا کی سرتوڑ کوشش ہے کہ غزہ سے انسانی انخلا کے لیے مصر کو اپنی زمین پر عارضی کمیپ بنانے پر آمادہ کیا جائے۔ کچھ عرصے بعد یہی کیمپ مستقل شکل اختیار کر جائیں گے اور اپنی زمین چھوڑنے والے فلسطینیوں میں مزید تئیس لاکھ نفوس کا اضافہ ہو جائے گا (میں معذرت چاہتا ہوں۔تئیس لاکھ میں سے جو زندہ بچیں گے، وہی خوش قسمت ممکنہ پناہ گزین ہوں گے۔۔)

اب یہ حماس کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح غزہ کے شہریوں کو انسانی کھال جلانے والے فاسفورس بموں کی بارش اور خوراک، پانی، دوا اور بجلی کے نہ ہوتے ہوئے اپنے گھروں کے اندر روک پاتی ہے۔

ہم میں سے اکثر کی توپوں کا رخ صیہونی نسل پرست نظریے کی جانب رہتا ہے، مگر اس دور کے ایک سب سے بڑے مفکر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ ہم سب غلط نشانے پر چاند ماری کر رہے ہیں۔

چومسکی کے بقول مسیحی صیہونیت (کرسچن زائیون ازم ) ایک طاقت ور نظریہ ہے اور تھیوڈور ہرزل کے نظریہِ یہودی صیہونیت سے بھی پہلے سے موجود ہے۔ کرسچن زائیون ازم کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ جب یہودی یروشلم میں ہیکل سلیمانی کی تیسری بار تعمیر میں کامیاب ہو جائیں گے اس کے بعد ہی نجات دھندہ مسیحا کا ظہور ہوگا۔

تاریخی اعتبار سے اپنے دور کی سب سے بڑی نوآبادیاتی طاقت برطانیہ کی اشرافیہ اس نطریے سے ہمیشہ خاصی متاثر رہی ہے۔ اسی کے زور پر انیس سو سترہ میں برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈ بالفور نے فلسطین کی برطانوی نوآبادی میں یہودیوں کی ایک قومی ریاست کے قیام کی تحریری یقین دہانی بالفور ڈکلریشن کی صورت میں کروائی تھی۔

یہی عقیدہ امریکا میں ایوانجلیکل چرچ کے پیروکاروں کا بھی ہے۔ حالانکہ بائبل کی تعلیمات کے مطابق حضرت عیسی علیہہ سلام نے عدم تشدد کی جو عملی زندگی گذاری، اس کی روشنی میں مسیحا کے دوبارہ آنے کے نظریے کی اصل روح یہ ہے کہ وہ تشدد کو ختم کر کے امن قائم کرے گا، مگر نوآبادیاتی سوچ نے اس آنے والے مسیحا کو ظہور سے پہلے ہی تلوار تھما دی ہے۔ اسی سے ملتا جلتا نظریہ مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

بقول چومسکی انیس سو سترہ میں جب بالفور ڈیکلریشن جاری ہوا تو وڈرو ولسن امریکا کا صدر تھا اور ایوانجلیکل چرچ کے دیگر پیروکاروں میں وڈرو ولسن بھی شامل تھا۔ جب انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل قائم ہوا تو اس وقت بھی ایک راسخ العقیدہ ہیری ٹرومین امریکا کا صدر تھا۔ اس کا بھی عقیدہ تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کی واپسی تاریخ کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے اور ہمیں پوری طرح اس آسمانی موقع کا ساتھ دینا چاہیے۔

آپ دیکھیں کہ آج اسرائیل کے سب سے بڑے مددگار وہی ممالک ہیں، جو بذاتِ خود نوآبادیاتی نظریے اور اس کی تکمیل کے لیے مقامی باشندوں کو پوری طرح کچلنے کے عمل پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ چنانچہ اگر آپ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور آسٹریلیا کی نوآبادیاتی سوچ کی عینک سے دیکھیں تو اسرائیل مغربی تہذیب سے پیدا ہونے والے نوآبادیاتی نظریے کی آخری نشانی ہے اور اس کا تحفظ ایک مذہبی و تہذیبی فریضہ ہے۔

اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہونے کا ایک اسٹرٹیجک پس منظر بھی ہے۔ انیس سو اڑتالیس میں امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون میں اس بات پر اختلاف تھا کہ اسرائیل کی حمایت میں کتنا آگے تک جایا جا سکتا ہے۔محکمہ خارجہ کو تشویش تھی کہ اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے لاکھوں فلسطینیوں کو کھدیڑ کے جو زمین حاصل کی گئی ہے، اس کے نتیجے میں اسرائیل ہمیشہ ایک خارجی بحران میں مبتلا رہے گا، لہٰذا پناہ گزینوں کے مسئلے کا تسلی بخش حل اسرائیلی سلامتی کے لیے ضروری ہے، مگر پینٹاگون عربوں کی متحدہ افواج کو شکست دینے والے اسرائیل کی فوجی کامیابیوں سے خاصا متاثر تھا اور خطے میں اس نئے ملک کو امریکا کی ایک فوجی چوکی کی نظر سے دیکھتا تھا۔

جون انیس سو سڑسٹھ کی پانچ روزہ جنگ میں اسرائیل نے جس سرعت کے ساتھ عربوں کو عسکری اعتبار سے مفلوج کیا، اس کے بعد پینٹاگون کا نظریہ جیت گیا اور اس نے اسرائیل پر اندھا اسٹرٹیجک اعتماد کرنے کا فیصلہ کیا، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ انیس سو سڑسٹھ کی فوجی شکست کے ذریعے اسرائیل نے سیکولر عرب قوم پرستی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ امریکا اس کام کے لیے اسرائیل کا احسان مند رہا۔

اسرائیل کو نہ صرف سالانہ تین اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی فوجی امداد ملتی ہے بلکہ جو اسلحہ امریکی افواج استعمال کرتی ہیں، وہی اسرائیل کو بھی رعائیتی نرخوں یا مفت کے بھاؤ ملتا ہے۔ اسرائیل میں امریکی استعمال کے لیے اسلحے کا ہنگامی ذخیرہ بھی رکھا جاتا ہے۔ جسے بوقتِ ضرورت اسرائیل کو استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔ اسرائیل علاقے میں امریکا کے کان اور ناک کا کام کرتا ہے۔

کئی امریکی صدور نے اس اندھی پالیسی کو معتدل بنانے کے لیے اپنی سی کوشش بھی کی مگر کانگریس کے دونوں ایوان اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ سے بھی زیادہ اسرائیل کے وفادار ہیں۔

چنانچہ آج جب امریکا کا چھٹا بحری بیڑہ اسرائیلی پانیوں میں موجود ہے۔برطانیہ نے اپنے دو جنگی جہاز ’اظہارِ یکجہتی‘ کے طور پر بحیرہ روم میں کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمنی اور فرانس میں نقصِ امنِ عامہ کے خدشے کے پیشِ نظر فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ اور فلسطینی جھنڈا لہرانا ایک قابلِ تعزیر جرم قرار دے دیا گیا ہے تو اس سے اسرائیل کے لیے سابق نوآبادیاتی طاقتوں کے اخلاص کا اظہار ہوتا ہے۔

دوسری جانب مسلمان ممالک بھی اپنی ذمے داریوں سے نہیں چوک رہے۔ وہ کنٹینر بھر بھر کے اسرائیل کو بددعائیں بھیج رہے ہیں۔۔ اور یہ بدعائیہ امداد تب تک جاری رہے گی، جب تک آخری فلسطینی زندہ ہے۔

ہم مظلوموں کے لیے دعاؤں کے کنٹینرز بھر بھر کے بھیج تو رہے ہیں، آنکھوں سے لگے رومال بھگو تو رہے ہیں، سینہ کوبی کر تو رہے ہیں، جھولیاں پھیلا پھیلا کے کوس تو رہے ہیں، باآوازِ بلند کہہ تو رہے ہیں کہ رب کرے دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں۔ ہم سڑکوں سڑک یکجہتی کیمپ لگا کے جہادی ترانے بجا تو رہے ہیں۔ گویا اپنی اخلاقی ذمہ داریاں نبھا تو رہے ہیں۔

ہم انہیں دھمکا تو رہے ہیں کہ اگر بمباری و ناکہ بندی جاری رہی تو اپنے سفارت کار یروشلم سے واپس بلا لیں گے، تعلقات کی بحالی کا عمل روک دیں گے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تمھیں دنیا بھر میں رسوا کریں گے، بے مثال ٹرولنگ کریں گے، ڈجیٹل میمز کے ذریعے تمہاری ہنسی اُڑاتے رہیں گے، جَگتوں کے بھالوں، کٹیلے فقروں کے خنجروں اور طنز کے تیروں سے تمھارا سینہ چھلنی کرتے رہیں گے۔

تمھارا اصل چہرہ دنیا کو دکھاتے رہیں گے، اپنی اپنی مسجدوں کے منبر پر بیٹھ کے ہوا میں مُکے چلاتے ہوئے شعلہ بیانی کا فرض نبھاتے رہیں گے، اپنے اپنے حکمرانوں کی بے حسی کوستے رہیں گے۔ قریہ قریہ مذمتی جلوسیاں نکالتے رہیں گے۔

ٹی وی اسکرینز پر تمہاری اور تمہارے مغربی پشت پناہوں کے اصل عزائم بے نقاب کرتے رہیں گے۔ اخبارات میں تمہارے کارٹون چھاپیں گے، تمہاری یا تم سے کاروبار کرنے والی تجارتی کمپنیوں اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل بھی جاری رکھیں گے۔

کیل کانٹے سے لیس ہونے کے باوجود تمہاری سراغ رسانی کی صلاحیت اور عسکری کمزوریوں کا پول کھولنے کا ہمارے دفاعی مبصرین کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ ہم تجویز دیتے رہیں گے کہ ماشااللہ اگر ستاون ممالک کے ڈیڑھ ارب مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھر کے بھی تم پر پھینکیں تو تم اسی میں ڈوب جاؤ گے۔

ہمارے ڈجیٹل دانشور تمہیں بتاتے رہیں گے کہ شرافت کو کمزوری نہ سمجھو۔ تمہارے پشت پناہوں نے تمہاری اندھا دھند حمایت جاری رکھی اور ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہم ان کے لیے نصف صدی پہلے کی طرح تیل اور گیس کی رسد روک دیں گے۔

ڈرو اس دن سے جس روز چالیس مسلمان ممالک کی متحدہ افواج نے راحیل شریف کی کمان میں اپنی یونیفارمز اڑس لیں، بوٹوں کے تسمے باندھ لیے، پھلترو سے بندوقوں کی نالیں صاف کر کے کھٹ کھٹ میگزین بھر لیے، بمبار طیاروں کی ٹنکی فل کر لی، توپوں کو ٹاکی مار کے لشکا کے ان کا رُخ تمھاری جانب کر دیا، میزائل بیٹریوں اور ڈرونز کے ریموٹس میں تازہ سیل ڈلوا لیے، ازقسمِ غوری، حتف، غزنوی سیدھے کر لیے، جنگی بحری جہاز ریپیئرنگ ڈاکیارڈز سے نکلوا کے بحیرۂ احمر اور بحیرۂ روم کی جانب ہنکال دیے، نہر سوئز کی ناکہ بندی کر دی، تمھارے ہوائی جہازوں کے لیے اپنی اپنی فضائی حدود بند کر دیں

مگر تمہیں تو یہ سب مذاق لگ رہا ہو گا نا! یقین نہیں آ رہا نا؟ تم اسے کھوکھلی بڑک بازی سمجھ رہے ہو گے؟ تمہارے دماغ میں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور، ’جو گرجتے ہیں وہ کم ہی برستے ہیں‘ جیسے پھٹیچر محاورے کلبلا رہے ہوں گے؟

چلو ہم بندوبست کرتے ہیں کلامِ اقبال اور نسیم حجازی اور عنایت اللہ کے دلوں کو گرمانے والے ناول تمہیں انگریزی و عبرانی میں بھجوانے کا۔ تاکہ انہیں پڑھ کے تمہارے ہاتھ پاؤں پھول جائیں اور تمہاری انگلیوں سے بندوقیں چھوٹ جائیں۔

تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہم روئی کے گالے ہیں جو ایک پھونک سے ہوا میں اڑ جائیں گے۔ تم سمجھتے ہو کہ ہمارے بازو شل ہو گئے ہیں؟ اگر ہم یمن برباد کر سکتے ہیں، شام کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں، لیبیا کو توڑ سکتے ہیں، افغانستان کو کھکھل کر سکتے ہیں، بم باندھ کے اپنوں کے درمیان پھٹ سکتے ہیں، شیعہ سنی کو لٹال سکتے ہیں، برسہا برس قبائلی جنگیں لڑنے کے صلاحیتوں سے مالامال ہیں، اندرونی دشمنوں کے منھ پر ٹیپ لگا سکتے ہیں، تو تم بھلا کس کھیت کی مولی ہو؟

بس ایک بار ہمیں اپنے آپ سے فرصت مل جائے تو پھر خیریت مناؤ۔۔ ہماری قوتِ برداشت کا مزید امتحان مت لو۔ ورنہ تم سے ہی خریدے اربوں ڈالر کے ٹینک، طیارے، توپیں، ڈرونز، بھانت بھانت کے میزائل، سمارٹ بم، بارودی سرنگیں اور جاسوسی آلات کہیں تم پر ہی استعمال نہ کر بیٹھیں اور بعد میں تم اقوامِ متحدہ جیسی تنظیموں کے آگے دہائی دیتے پھرو۔

اس وقت ہم نے اپنے لوگوں کو بڑی مشکل سے روک رکھا ہے اور انہیں مصروف رکھنے کے لیے مذمتی قرار دادوں کی منظوری، دستخطی مہمات، چندے کے ڈبے کھڑکانے اور ’آج پھر ایک صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے‘ ٹائپ بیانات پر لگا رکھا ہے اور انہیں صبر کے فوائد سے بھی کماحقہہ آگاہ کر رہے ہیں۔

شاید ہم انہیں زیادہ دیر نہیں روک پائیں گے۔ کچھ جوشیلی تنظیموں نے تو تمہارے دانت بجانے کے لیے رضاکاروں کی بھرتی کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔

ہمارا خون کس قدر ابل رہا ہے، اس کا اندازہ تمہیں ایک مقامی اخبار کی آٹھ کالمی سرخی سے ہی ہو جانا چاہیے۔

’سمہ سٹہ کے عوام اسرائیل کی نابودی تک چَین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘

غزہ کی پٹی دراصل ضمیر کی آنکھوں پر بندھی پٹی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پٹی اتر جائے اور ہم گڑگڑاتے ہوئے قیامت کے دن تمہارا گریبان پکڑنے کی سوگند کھا لیں۔ باز آ جاؤ۔ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز و بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close