تان سین، جن کی قبر پر لگے درخت کے پتے کھانے سے لوگ ’سریلے‘ ہو جاتے ہیں

عقیل عباس جعفری

روایت مشہور ہے کہ ہندوستان میں ایک موسیقار ایسے بھی گزرے ہیں جن کے مرنے کے بعد اُن کی قبر پر بیری کا ایک پودا پھوٹا جو تناور درخت بن گیا اور آج بھی موسیقی سیکھنے والے افراد اِس قبر پر جاتے ہیں اور اس درخت کے پتے کھاتے ہیں جس سے ان کی آواز سریلی ہو جاتی ہے

یہ قبر موسیقار اُستاد تان سین کی ہے…

کلاسیکی موسیقی میں ’گوالیار گھرانہ‘ ایک عجیب شان و شکوہ کا حامل ہے۔ ابتدا میں اس گھرانے نے ’دھرپد گائیکی‘ میں اپنے گہرے نقوش چھوڑے اور بعدازاں جب اسی ریاست کے وابستگان ’خیال گائیکی‘ کی طرف مائل ہوئے تو انھوں نے خیال گائیکی کے بھی ایک الگ اسلوب کی بنیاد رکھی جو اس ریاست کی نسبت سے ’گوالیار گھرانہ‘ بھی کہلایا

مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے عہد میں گوالیار فن موسیقی کا بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ وہاں راجہ مان سنگھ تومر (عہد 1486۔1516) نے ایک اکیڈمی قائم کی تھی، جس میں نائک بخشو جیسے عدیم المثال ماہر فن موسیقی کی تعلیم دینے پر مامور تھے

نائک بخشو ’دھرپد‘ کے بڑے ماہر تصور کیے جاتے تھے اور شمالی ہندوستان کے موسیقاروں پر اس کا اثر شاہ جہان کے عہد تک غالب رہا۔ مان سنگھ تومر، نائک بخشو، سلطان عادل شاہ سوری اور حضرت محمد غوث گوالیاری کی توجہ سے گوالیار کا شمار موسیقی کے اہم مراکز میں ہونے لگا تھا

یہ بات قابل توجہ ہے کہ اکبر کے دربار کے اٹھارہ میں سے گیارہ گوئیوں کا تعلق گوالیار ہی سے تھا۔ اکبر اعظم کے دربار سے گوالیار کے جو گوئیے وابستہ تھے ان میں سب سے بڑا نام استاد تان سین کا تھا

پروفیسر محمد اسلم نے اپنی کتاب ’سلاطین دہلی و شاہان مغلیہ کا ذوق موسیقی‘ میں استاد تان سین کے بارے میں کچھ لکھا ہے: ’تان سین جس کا نام سن کر گوئیے کان پکڑتے ہیں گوالیار کے ایک نواحی گاﺅں کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد مکرنڈ پانڈے گوڑ برہمن تھے اور انھیں حضرت محمد غوث گوالیاری سے بڑی عقیدت تھی۔ مکرنڈ پانڈے اولاد جیسی نعمت سے محروم تھے اس لیے ایک بار انھوں نے حضرت محمد غوث سے درخواست کی کہ وہ خدا سے دعا کریں کہ انھیں اولاد عطا فرمائے‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’حضرت محمد غوث کی دعا سے تان سین پیدا ہوئے۔ جب تان سین پانچ سال کی عمر کو پہنچے تو سکرنڈ پانڈے انھیں لے کر حضرت محمد غوث کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے درخواست کی کہ وہ دعا کریں کہ تان سین سنگیت میں نام پیدا کرے۔ حضرت محمد غوث اس وقت پان چبا رہے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنا لعاب دہن تان سین کے منھ میں ڈال دیا۔ اس پر مکرنڈ پانڈے نے کہا کہ حضرت یہ ہمارے دھرم سے نکل گیا ہے اس لیے اب یہ آپ ہی کے چرنوں میں رہا کرے گا۔‘

’حضرت محمد غوث نے اپنے بیٹوں کی طرح تان سین کی پرورش شروع کی اور گوالیار کے نامی گرامی موسیقاروں کی نگرانی میں انھیں موسیقی کی تعلیم دلوائی۔ تان سین نے کچھ عرصہ سلطان عادل شاہ کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا اور بعدازاں دکن جا کر نائک بخشو کی بیٹی سے راگ کی تعلیم پائی۔‘

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ تان سین نے بابا ہری داس سے بھی راگ ودیا کی تعلیم حاصل کی تھی

’تان سین کو تازندگی حضرت محمد غوث سے ایک گونا عقیدت رہی، وہ انہی کی توجہ سے مسلمان ہوئے تھے اور بعدازاں ان کے حلقہ مریدین میں بھی داخل ہوگئے تھے۔ پیر و مرید کا یہ رشتہ ابدی ہے اور تان سین آج بھی حضرت محمد غوث کی خانقاہ کے احاطے میں مدفون ہیں۔‘

تکمیل تعلیم کے بعد تان سین نے راجہ رام چندر کی ملازمت اختیار کر لی۔ راجہ مذکور تان سین کے بڑے قدر دان تھے۔کہا جاتا ہے کہ ایک بار انھوں نے تان سین کا گانا سُن کر انھیں ایک کروڑ دام بطور انعام عطا کیے تھے

جب تان سین کے فن کا شہرہ اکبر کے دربار تک پہنچا تو انھوں نے راجہ رام چندر سے کہہ کر انھیں آگرہ طلب کر لیا۔ اکبر کے دربار میں تان سین کو ایک خاص مقام حاصل تھا اور وہ ہمیشہ اکبر کے منظور نظر رہے

تان سین نے اکبر کے ذوق کے پیش نظر درباری کانہرہ، دربار کلیان، درباری اساوری اور شہانہ جیسے راگ مرتب کیے

ڈاکٹر عبدالحلیم کی تحقیق کے مطابق ’میاں کی ملہار‘، ’میاں کی ٹوڈی‘ اور ’میاں کی سارنگ‘ بھی تان سین ہی کے ایجاد کردہ راگ ہیں، خوش قسمتی سے تان سین کے ایجاد کردہ راگوں کے مسودات رضا لائبریری، رام پور میں محفوظ ہیں اور ایتھل روز نتھال نے اپنی تصنیف میں ان سے پوری طرح فائدہ اٹھایا ہے

تان سین نے فن موسیقی کی جو خدمت انجام دی ہے اس کے متعلق سید عابد علی عابد تحریر فرماتے ہیں کہ ’انھوں نے کلاسیکی سنگیت کو نیا رس، نئی حلاوت اور نیا بانکپن بخشا۔ انھوں نے راگوں میں نہایت دلکش تصرفات کیے اور یہ راگ ان تصرفات کے ساتھ اب ان کے نام سے منسوب ہیں، مثلاً میاں کی ٹوڈی، میاں کی ملہار، لیکن جس راگ کی بدولت تان سین کا نام کلاسیکی سنگیت میں ہمیشہ زندہ رہے گا وہ درباری ہے، جسے سن کر بقول اکبر دل کی سوئی ہوئی تمنائیں جاگ اٹھتی تھیں اور بڑے بڑے کام کرنے کے ولولے بیدار ہوتے تھے‘

درباری کے متعلق پروفیسر خادم محی الدین لکھتے ہیں کہ وہ اوّل شب گزر جانے اور آدھی رات شروع ہونے سے کچھ عرصہ پیشتر گایا جاتا ہے، جونہی اس کے دھیمے ابتدائی سُر ’نی سارے سادھانی پا‘ گانے شروع کیے جائیں تو سُن کر طبیعت میں سکون پیدا ہوتا ہے

اس راگ کے سروں کے بیشتر حصے کا زور نیچے کے سپتک پر رہتا ہے۔ شہنشاہ اکبر کا یہ مرغوب راگ تھا۔ امور سلطنت کے خرخشوں اور جھمیلوں میں دن بھر مصروف رہنے کے بعد شاہ کو امن اور سکون مطلوب تھا اس لیے تان سین یہ راگ پیش کرتے تھے

ابوالفضل جو ہمیشہ ’ہمچوما دیگرے نیست‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھے تان سین کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’گذشتہ ہزار سال میں اُن جیسا گویا اس سرزمین میں پیدا نہیں ہوا۔‘

پروفیسر محمد اسلم لکھتے ہیں کہ تان سین نے دکن جا کر نائک بخشو کی بیٹی سے راگ کی تعلیم حاصل کی۔ اس واقعے کی تفصیل قاضی معراج دھول پوری نے اپنے مضمون ‘تان سین مشمولہ، ماہنامہ آج کل دہلی’ کے موسیقی نمبر (اگست 1956ئ) میں یوں رقم کی ہے: ’اُن (حضرت محمد غوث) کے پان کی تاثیر سے (تان سین کے) گلے میں رس اور مزا پیدا ہوگیا۔ جس سے تان سین کا انہماک گانے میں اور بڑھ گیا۔ جابجا خوش گلوئی اور جذب کی شہرت ہونے لگی، لیکن اصولِ موسیقی سے وہ ابھی تک نابلد تھے۔‘

’پس حضرت نے 1532 میں راجہ مان کے قائم کیے ہوئے گان ودیالیہ گوالیار میں داخل کروا دیا۔ جہاں اس وقت مچھو اور بھنور نامی دو ‘نادرہ کاران روز گار’ کا عمل دخل تھا۔ ان کے استاد بخشو اس وقت انتقال کر چکے تھے۔ یہ وقت کا بڑا استاد، مسلمہ شخصیت کا حامل اور راجہ مان کا شریک کار تھا۔‘

راجہ نے یہ ودیالیہ اپنی رانی ’مرگ نینی‘ کے نام پر جاری کیا تھا جو زبردست کلاکار تھیں اور گانے میں اُن کو بڑا درک حاصل تھا

’تان سین چار پانچ سال میں اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہوگئے، لیکن بخشوسے فیض حاصل نہ کرنے کا ان کو قلق تھا۔ بخشو کی لڑکی اپنے شوہر کے ہمراہ دکن میں تھیں۔ بخشو نے اپنے سینے کی ساری دولت ان کو ودیعت کی تھی۔ چنانچہ تان سین نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر بخشو کے سینہ بہ سینہ نکاتِ موسیقی کے حصول کا تہیہ کر لیا اور اپنے پیر سے اجازت لے کر دکن پہنچے۔ اپنا گانا سُنایا لیکن لڑکی نے کوئی التفات نہ کیا اور کہہ دیا کہ بیٹا ابھی کچھ اور سیکھو۔ تان سین بے نیل مرام گوالیار لوٹ آئے۔ اپنے پیر سے سارا حال کہا۔ انھوں نے تان سین کی ڈھارس بندھائی اور کہا گھبراﺅ نہیں۔ وہ ایک دن تمھارے کمال کا اعتراف کرے گ۔‘

’رات کو اسی ادھیڑ بن اور مایوسی میں سو گئے۔ خواب دیکھا کہ ایک عمر رسیدہ انسان ان کو گا گا کر کچھ بتا رہا ہے۔ کئی دھرپدیں بھی اسی سلسلے میں معرکہ آرا یاد کروا دیں۔ اٹھے تو یہ دھرپدیں ان کے گلے میں بیٹھی ہوئی تھیں اور بتائے ہوئے سارے نکتے ان کے ذہن میں محفوظ تھے، اب ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ پیر سے خواب کا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کو نہ بھولنا۔ بخشو نے تمھیں ماہر فن کر دیا‘

’اُدھر بخشو کے مایہ ناز شاگردوں سے مشق و مزاولت ہو رہی تھی۔ دن دونی رات چوگنی ترقی محسوس کی جانے لگی۔ جب تان سین کو پورا بھروسا اور اطمینان ہوگیا تو پھر عازمِ دکن ہوئے۔ لڑکی کو اپنا گانا سنایا۔ وہ دنگ رہ گئی کہ اب اس کے خاندان کے سارے اصول کا تان سین کو علم تھا۔ اظہارِ مسرت کیا اور باقی ماندہ خاندانی نکات بھی تان سین کو سمجھا دیے۔‘

تان سین کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ انھوں نے اکبر اعظم کے ایما پر سولہ ہزار راگوں اور تین سو ساٹھ تالوں کا دقیق مطالعہ کیا اور کافی غور و خوص کے بعد محض دو سو بنیادی راگ اور بانوے بنیادی راگ قائم رکھے باقی سب سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا

رسالہ تان سین نے، جو اسی عہد زریں کی تصنیف ہے، ان راگوں اور تالوں کی علیحدہ علیحدہ خصوصیات اور گانے کے طریقے درج کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ پروفیسر محمد اسلم نے بیان کیا ہے کہ ’تان سین نے پرانے راگوں کو منضبط نہیں کیا بلکہ خود بھی بہت سی راگنیاں ایجاد کیں جو ان کے نام کی نسبت سے مشہور ہیں اور میاں کی ٹوڈی، میاں کا سا رنگ اور میاں کا ملہار وغیرہ کہلاتی ہیں۔ ان کے علاوہ درباری اور شام کلیان ایسے راگ ہیں جو اکبر کو خاص طور پر بہت پسند تھے اور اکثر انھیں کی فرمائش رہا کرتی تھی۔‘

دھرپد گایکی میں تان سین کو گوالیار گھرانے کا نہ صرف سب سے بڑا نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ بیشتر مؤرخین انھی کو گوالیار گھرانے کا بانی تسلیم کرتے ہیں۔ تان سین کے زمانے میں دھرپد کو ہندوستانی موسیقی میں گایکی کے ایک کلاسیکی طرز کے طور پر قبولیت ملی جسے بعد میں چار بانیوں یا قسموں میں تقسیم کیا گیا، گورہر، کھنڈر، نوہر اور ڈاگر۔ ان میں سے دو ایک بانیوں کا چلن آج بھی ہے

تان سین سے دھرپد گایکی کے ایک نہیں بلکہ دو گھرانوں کا سلسلہ آگے چلا۔ ایک تان سین کے بڑے بیٹے تان ترنگ (1536۔ 1602) سے جو سینیا گایکی کہلائی۔ دھرپد کا یہ انداز صرف گایکی تک محدود رہا۔ دوسرا انداز تان سین کے چھوٹے بیٹے بلاس خان سے آگے بڑھا، دھرپد کے اس انداز میں ساز بھی شامل ہوئے۔ اس سلسلہ کے موسیقاروں نے رباب، بین (ردرا وینا) اور ستار بجانے میں کمال پیدا کیا تاہم ان کی توجہ گایکی پر بھی مرکوز رہی اور انھوں نے ساز اور آواز کو ہم آہنگ کر کے ایک منفرد اسلوب وضع کیا۔ آج بھی ساز کاروں کے رام پور گھرانے، شاہجہاں پور گھرانے اور اٹاوہ گھرانے میں اس کے اثرات تلاش کیے جا سکتے ہیں

تان سین کی زندگی کے موضوع پر برصغیر میں کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ اس موضوع پر بننے والی پہلی فلم 1943 میں منظر عام پر آئی تھی جس میں کے ایل سہگل نے تان سین کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کے ہدایت کار جینت ڈیسائی تھے

سنہ 1990 میں پاکستان ٹیلی ویژن نے اس موضوع پر ایک ٹی وی سیریل بنائی جس کے پروڈیوسر خواجہ نجم الحسن اور مصنفہ حسینہ معین تھیں۔ اس ٹی وی سیریل میں آصف رضا میر اور زیبا بختیار نے مرکزی کردار ادا کیے تھے.

بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close