ہنری کیسنجر کی کتاب ’ڈپلومیسی‘ سے اقتباس

ترجمہ: سیّد سعید نقوی

چرچل کے سر پر سرد جنگ کے آغاز کا سہرا بندھتا ہے، جس کا اس نے فلٹن، میسوری میں اپنی آہنی پردے والی تقریر میں اعلان کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں ہر مرحلے پر، چرچل نےسوویت توسیع پسندی کی مزاحمت کی کوشش کی تھی تاکہ جمہوریتوں کی بعد از جنگ سودے بازی کی حیثیت مضبوط ہو سکے۔ چرچل محدودیت کا حامی تھا لیکن اس کے لئے یہ حرف آخر نہیں تھا۔ کمیونزم کے انہدام کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار کرنے کے بجائے، وہ تاریخ کی ہئیت تراشنا چاہتا تھا، بجائے اس کے کہ تاریخ اس کے لئے اس کا کام انجام دے۔ وہ مذاکرات کے ذریعے سمجھوتہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔

فلٹن میں چرچل کی تقریر میں مذاکرات کی جانب ہلکا سا اشارہ ہی تھا۔ 9 اکتوبر 1948 کو لینڈڈنو، ویلز میں چرچل نے اپنے اس استدلال کو دہرایا کہ مغرب کی سودے بازی کی حیثیت موجودہ حال سے بہتر کبھی نہیں ہوگی

ایک خاصی نظر انداز کی گئی تقریر میں اس نے کہا تھا: ”یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اس وقت کیا ہو گا جب وہ خود بھی جوہری بم بنا لیں گے اور ان کی ایک بڑی تعداد ذخیرہ کر لیں گے۔ اس وقت جو ہو رہا ہے، اس سے آپ خود ہی اس وقت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اگر اس وقت یہ حال ہے جب کہ زمین ابھی نرم ہے تو اس وقت کیا ہوگا جب سخت ہو جائے گی؟ کوئی بھی اپنے ہوش و حواس میں یہ امید نہیں کر سکتا کہ ہمارے پاس لامتناہی وقت ہے۔ ہمیں معاملات کو انجام تک پہنچا کر ایک آخری سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ ہم ایسے ہی ناعاقبت اندیشی اور نااہلی سے دوڑتے نہیں رہ سکتے۔ اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ ہم منتظر ہیں کہ ہم پر کوئی آفت ٹوٹے۔ اگر وہ اپنے منصفانہ مطالبات وضع کر لیں تومغربی اقوام کو ایک دیرپا سمجھوتہ حاصل کرنے کا، خون بہائے بغیر، اس وقت زیادہ امکان ہے، جب کہ ان کے پاس جوہری طاقت ہے اور اس سے پہلے کہ روسی کماونسٹ بھی اسے حاصل کرلیں۔“ (41)

دو سال بعد، چرچل ن ےیہی درخواست دارالعوام میں بھی دہرائی۔ جمہوریتیں مذاکرات کے لیے بہت اچھی حیثیت میںہیں اور انتظار کر کے خود اپنا ہی نقصان کریں گی۔ 30 نومبر 1950 کو نیٹو کے دوبارہ مسلح ہونے کا دفاع کرتے ہوئے، اس نے خبردار کیا کہ مغرب کو مسلح کرنے سے از خود اس کی سودے بازی کی حیثیت مضبوط نہیں ہو جائے گی، جو بالآخر امریکی جوہری اجارہ داری پر منحصر تھی

اگرچہ یہ درست ہے کہ ہم اپنی قوتیں جتنی جلد ممکن ہو بڑھالیں، جس مدت کا میں ذکر کر رہا ہوں، اس میں روس کو روایتی اسلحے میں برتری سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس سے ہمیں صرف یہی ملے گا کہ یورپ میں ہمارا اتحاد بڑھ جائے اور جارحیت کی روک تھام بہتر ہو جائے گی۔ لہذا میں سوویت روس سے ایک سمجھوتے کے جتنی جلدی ممکن ہے حق میں ہوں، اور یہ کوشش کے ساتھ جاری رہیں جبکہ امریکی جوہری بم کی موجودگی، دوسرے تمام معاملات میں سوویت برتری کی نفی کر دیتی ہے۔ (42)

چرچل کے خیال میں مضبوط حیثیت پہلے ہی موجود تھی،امریکی رہنماؤں کے خیال میں ابھی اسے تراشنا باقی تھا۔ چرچل مذاکرات کو ایسا عمل سمجھتا تھا جس میں طاقت کو سفارتکاری سے منسوب کیا جا سکے۔ اور اگر چہ اس نے کبھی وضاحت نہیں کی، لیکن اس کے عوامی بیانات سے یہ اشارے ملتے تھے کہ وہ مغربی جمہوریتوں سے کوئی سفارتی الٹی میٹم بھجوانے کا خواہشمند تھا۔ امریکی رہ نما اپنی جوہری اجارہ داری کو دھمکی دینے کے لئے بھی استعمال کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔ چرچل سوویت اثر کے علاقے کو کم کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ محدود شدہ سوویت طاقت کے ساتھ رہنے کو تیار تھا۔ امریکی نما حلقہ ہائے اثر کے نظریے کو دل سے نا پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے مخالف کے حلقہ اثر کو محدود کرنے کے بجائے ختم کردینا چاہتے تھے۔ وہ مکمل فتح کے لئے انتظار کو ترجیح دیتے، کمیونزم کا انہدام چاہے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، تاکہ دنیا کے مسائل کو ولسن کے نظریات سے حل کیا جا سکے

یہ اختلاف رائے برطانیہ اور امریکہ کے تاریخی تجربات پر مبنی تھا۔ چرچل کا معاشرہ ناقص نتائج کا عادی تھا، ٹرومین اور اس کے مشیر ایسی روایت سے آئے تھے جس میں ایک بار مسئلہ شناخت ہوجانے کے بعد اسے بے پناہ وسائل استعمال کرکے حل کیا جاتا ہے۔ آخری حل کے لئے امریکی اصرار اور کسی قسم کی مصالحت جو برطانیہ کی خاصیت تھی، اس سے اجتناب کی یہ وجہ تھی۔ نظریاتی طور پر چرچل کو اس میں کوئی دشواری نہیں تھی کہ ایک مضبوط حیثیت کو سفارتکاری سے ملا کر سمجھوتے کے لئے دباؤ ڈالا جائے۔ امریکی رہنماؤں کے خیال میں یہ مرحلہ وار اقدامات تھے، جیسا کہ انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں کیا اور پھر کوریا اور ویتنام میں دہرایا۔ امریکی نظریہ غالب رہا، کیونکہ امریکہ برطانیہ سے زیادہ طاقتور تھا اور چرچل، برطانیہ کےحزب اختلاف کے رہنما کے طور پر اپنی حکمت عملی کے لئے زور ڈالنے کی حیثیت میں نہیں تھا

بہرحال، امریکی پالیسی کو سب سے پر شور مستقل مخالفت نہ لپ مین کی حقیقت پسندانہ مرکز سے ملی اور نہ چرچل کی طاقت کے توازن کی فکر سے، بلکہ ایسی روایت سے جو امریکی انتہا پسند سوچ میں گہری پیوست ہے۔جب کہ لپ مین اور چرچل نے ٹرومین کی انتظامیہ کے اس خیال کو تسلیم کیا کہ سوویت توسیع پسندی ایک مہیب خطرہ تھی اور ان میں صرف اس کے سدباب کے طریقے میں اختلاف تھا۔ انتہا پسند نقادوں نے محدودیت کے پورے معاملے کو مسترد کردیا۔ ہنری والیس جو روزویلٹ کے تیسرے دور حکومت میں نائب صدر تھا، سابق وزیر زراعت اور ٹرومین کی کابینہ میں وزیر تجارت وہ اس کا عملی ترجمان تھا۔
مقبول امریکی روایت کی پیداوار، والیس ، برطانیہ پر بھروسہ نہ کرنے کی امریکی خو کاحامل تھا۔ جیفرسن کے بعد سے بیشتر امریکی آزاد خیالوں کی مانند، اس کا اصرار تھا کہ ”جو اخلاقی اصول نجی زندگی پر حاوی ہوتے ہیں ان ہی کو بین الاقوامی معاملات پر بھی حاکم ہونا چاہیے۔‘‘ (43)

والیس کے خیال میں امریکہ اپنا اخلاق محور کھو بیٹھا تھا اور اب اس کی خارجہ پالیسی ”میکاولی کی دھوکہ بازی، طاقت اور بے اعتمادی کے اصولوں پر قائم تھی، جیسا کہ اس نے 12 ستمبر 1946 کو میڈیسن اسکوائر گارڈن میں ایک اجتماع کو بتایا۔(44) کیونکہ تعصب، نفرت، اور خوف بین الاقوامی اختلافات کی بنیادی وجوہات تھیں، تو جب تک امریکہ ان مصیبتوں کو خود اپنے معاشرے سے ختم نہ کرلے، اسے ملک سے باہر مداخلت کا کوئی اخلاقی حق حاصل نہیں تھا۔

اس نئی انتہا پسندی نے امریکہ کے مشعل راہ ہونے کے تاریخی نظریے کی توثیق کی، لیکن اس عمل سےاسے خود اپنے ہی خلاف کرلیا۔ امریکہ اور سوویت اقدامات کو اخلاقی طور پر متوازن قرار دینا سرد جنگ کے دوران ایک مسلسل انتہاپسندانہ تنقید قرار پائی۔ یہ خیال ہی کہ امریکہ کی کوئی عالمی ذمہ داریاں ہیں والیس کی نگاہ میں طاقت کا تکبر تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ برطانیہ بے وقوف امریکیوں سے اپنا کام کروا رہے تھے ’’برطانیہ کی واضح پالیسی یہی ہے کہ امریکہ اور روس میں عدم اعتماد کو فروغ دے اور پھر تیسری عالمی جنگ کے لئے میدان تیار کرے۔‘‘(45)

والیس کے لئے جمہوریت اور مطلق العنانی کے درمیان ٹرومین کی تفریق محض خیالی تھی۔ 1945 کے زمانے میں جب کہ بعد از جنگ سوویت جبر واضح طور پر بڑھ رہا تھا اور اجتماعیت کے مظالم بڑے پیمانے پر تسلیم کیے جارہے تھے، والیس نے اعلان کیا کہ ”آج روسیوں کو پہلے کسی بھی وقت سے زیادہ آزادی حاصل ہے۔‘‘ اسے روس میںبڑھتی ہوئی مذہبی آزادی بھی نظر آئی اور اس نے دعوی کیا کہ ’’روس اور امریکہ میں کوئی بنیادی تصادم موجود نہیں۔‘‘(46)

والیس کا خیال تھا کہ سوویت پالیسی کا محرک توسیع پسندی نہیں بلکہ خوف تھا۔ مارچ 1946 میں جب کہ وہ وزیر تجارت تھا، والیس نے ٹرومین کو لکھا
گزشتہ چند ماہ کے واقعات نے سوویت کو واپس 1939سے پہلے کے”سرمایہ دارانہ حصار ” کے خوف میں دھکیل دیا ہے، اور ان کے اس غلط یقین کی جانب کہ مغربی دنیا، بشمول امریکہ، ہمیشہ اور اتفاق رائے سے اس کے دشمن ہیں۔ (47)

چھ ماہ بعد میڈیسن اسکوائر گارڈن کی اپنی تقریر میں والیس نے ٹرومین کو براہ راست للکارا، جس پر صدر نے اس کا استعفیٰ طلب کرلیا۔
’’ممکن ہے ہمیں وہ پسند نہ آئے جو روس مشرقی یورپ میں کرتا ہے۔ اس کی طرح کی زرعی اصلاحات، کارخانوں پر قبضہ اور بنیادی حقوق کو سلب کرنا، امریکی عوام کی بڑی اکثریت کو گراں گزرتا ہے۔ لیکن چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہیں، روس اپنے حلقہ اثر میں سوشلزم متعارف کرانے کی کوشش کرے گا، بالکل جیسے ہم اپنے حلقہ اثر میں جمہوریت کو۔ سماجی اقتصادی انصاف کا روسی تصور تقریبا ایک تہائی دنیا پر حاکم ہوگا۔ ہماری آزاد کاروباری جمہوریت باقی دنیا پر حاکم ہو گی۔ یہ دونوں نظریات ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ اپنے حلقہ اثر میں کون عام آدمی کو زیادہ اطمینان بخش سکتا ہے۔‘‘(48)

کرداروں کے ایک انوکھے تضاد نے، خارجہ پالیسی میں اخلاقیات کے خودساختہ داعیان مشرقی یورپ میں سوویت حلقہ اثر کو عملی بنیادوں پر قبول کر رہے تھے، جب کہ جس انتظامیہ پر وہ مذموم طاقت کی سیاست کا الزام لگا رہے تھے وہ سوویت حلقہ اثر کو اخلاقی بنیادوں پر مسترد کر رہے تھے۔

والیس کے مطابق، امریکہ کو یکطرفہ دنیا بھر میں مداخلت کا حق نہیں تھا۔ دفاع صرف اسی وقت جائز تھا جب اسے اقوام متحدہ کی تائید حاصل ہو (اگرچہ وہاں سوویت یونین کو ویٹو کی طاقت حاصل تھی)، اور اقتصادی امداد بین الاقوامی اداروں کے ذریعے تقسیم ہونی چاہیے کیونکہ مارشل پلان اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تھا تو والیس نے پیش گوئی کی کہ اسے نوع انسانی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (49)

والیس کا یہ بیانیہ چیکوسلواکیہ میں کمیونسٹ بغاوت، برلن محاصرے اور جنوبی کوریا پر حملے سے منہدم ہوگیا۔ 1948 میں صدارتی امیدوار کے طور پر اسے صرف دس لاکھ ووٹ ملے، اور وہ بھی زیادہ تر نیویارک میں، اس کے مقابلے میں ٹرومین کو دو کروڑ چالیس لاکھ، وہ جنوبی ڈیموکریٹ نمائندے اسٹروم تھرمنڈ سے بھی پیچھے چوتھے نمبر پر آیا۔

پھر بھی، والیس ایسے نظریات پیدا کرنے میں کامیاب رہا جو پوری سرد جنگ کے دوران امریکی انتہا پسند نقادوں کی بنیادی سوچ رہی، اور ویتنام کی جنگ میں وسطی حیثیت حاصل کر گئی۔ اس میں امریکہ اور جن دوستوں کی وہ حمایت کر رہا تھا ان کے اخلاقی نقائص کا ذکر کیا گیا،امریکہ اور اس کے مخالفین کے مابین ایک بنیادی اخلاقی برابری،یہ تجویز کہ امریکہ کو دنیا کے کسی بھی علاقے میں ایک تصوراتی خطرے کے خلاف دفاع کا کوئی حق نہیں، اور یہ خیال کہ کسی اراضی سیاسیات کے مقابلے میں عالمی رائے عامہ خارجہ پالیسی کے لیے بہتر رہنمائی کرتی۔ جب ترکی اور یونان کے لئے پہلی بار امداد تجویز کی جارہی تھی، والیس نے ٹرومین انتظامیہ پر زور دیا کہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کے سامنے رکھے۔ اگر ”روسیوں نے اپنا ویٹو استعمال کیا تو اخلاقی بوجھ ان کے شانوں پر ہوگا، اگر ہم یکطرف قدم اٹھاتے ہیں تو اخلاقی بوجھ ہم پر ہے۔‘‘(50) اعلٰی اخلاقی اقدار اپنانے کا مطلب امریکی اراضی سیاست کے مفادات کے دفاع سے زیادہ اہم ہوتا۔

اگرچہ بعد از جنگ امریکی خارجہ پالیسی پر والیس کی انتہا پسند تنقید کو 1940 کی دہائی میںشکست ہوگئی، لیکن اس کے بنیادی نقاط امریکی تصور کے ایک گہرے رنگ کا عکس تھے جو اب بھی قوم کی روح کو جھنجوڑتے ہیں۔ وہی اخلاقی اقدار جنہوں نے امریکہ کی داخلی ذمہ داریوں کو اتنی توانائی بخشی، ان میں یہ استعداد موجود تھی کہ وہ خارجی دنیا سے مایوس ہو کر اندر سکڑ جائیں، یا خود امریکہ کے اپنے نقائص سے۔ 1920 کی دہائی میں امریکی نے اس خیال سے تنہائی اختیار کرلی تھی کہ وہ اس دنیا کے لئے بہت زیادہ اچھا تھا، والیس کی تحریک نے اس امریکی تجویز کو زندگی دی کہ امریکہ کو دنیا سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے کیونکہ وہ دنیا کے لئے مناسب حد تک اچھا نہیں تھا۔
پھر بھی جب امریکہ نے زمانہ امن کی اپنی پہلی مستقل ذمہ داری سنبھالی، تب بھی سلسلہ وار بے یقینی مستقبل میں دور تک باقی رہی۔ وہ نسل جس نے دوسری جنگ عظیم میں فتح پائی، اور نیا نظام وضع کیا، اسے خود پر اور امریکی نظام پر بے پناہ اعتماد تھا۔ قومی تصورات دو طاقتی دنیا کے نظام کے لئے بہت مناسب تھے، جس کے لئے روایتی طاقت کے توازن کے مبہم سفارتی طریقے بہت مناسب نہیں تھے۔ صرف ایک ایسا معاشرہ ہی جسے اپنی کامیابیوں اور مستقبل پر بہت یقین ہو، وہی ایک ایسے عالمی نظام کے لئے وسائل وقف کر سکتا ہے، جس میں شکست خوردہ دشمنوں کو منایا جائے، شکستہ حلیفوں کو بحال کیا جائے اور دشمنوں کی ماہیئت قلب کی جائے۔ اہم معرکوں کو اکثر سادگی سے ہی تحریک ملتی ہے

محدودیت کی پالیسی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ امریکہ نے اپنی عظیم ترین طاقت کے زمانے میں خود کو تقریبا بے عمل سفارتکاری تک محدود کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ محدودیت کو ایک اور جانب سے بڑھتی مخالفت کا سامنا تھا، جس کا سب سے پرجوش ترجمان جان فوسٹر ڈولیس تھا۔ وہ قدامت پسند تھے جو محدودیت کے امکان کو تو قبول کرتے لیکن اس عجلت کے غائب ہونے پر سوال کر رہے تھے جس سے اسے نافذ کیا جا رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر محدودیت بالآخر سوویت معاشرے کو کمزور کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے، تب بھی اس میں بہت وقت لگے گا اور بہت قیمت صرف ہوگی۔ محدودیت جو بھی حاصل کرے، آزادی کی حکمت عملی یقینا تیز رفتار ہو جائے گی۔ ٹرومین کی صدارت کے اختتام تک، محدودیت کی پالیسی دو متحارب گروہوں کے درمیان پھنس گئی تھی، ایک طرف وہ تھے جو اسے بہت جنگجو (والیس کے طرف دار) محسوس کرتے، اور دوسری طرف وہ جو اسے بہت بے عمل سمجھتے (قدامت پسند ریپبلکن)۔

یہ تنازعہ بڑھتا گیا، کیونکہ لپ مین کی پیشگوئی کے مطابق بین الاقوامی بحران اب دنیا کے نشیبی علاقوں میں منتقل ہوگئے، جہاں اخلاقی اقدار مبہم تھیں اور امریکی تحفظ کو براہ راست خطرہ ثابت کرنا دشوار تھا۔ امریکہ نے خود کو ان علاقوں کی جنگوں میں ملوث ہوتے دیکھا جہاں کوئی اتحادی تحفظ میسر نہیں تھا، اور مبہم مقاصد کے لئے اور غیر حتمی نتائج کے ساتھ۔ کوریا سے ویت نام تک، ان کارروائیوں نے انتہا پسندانہ تنقید کو زندہ رکھا، جو محدودیت کی اخلاقی بنیادوں پر سوال اٹھاتے رہے۔یوں امریکی استثنائیت کا ایک نیا رخ پیدا ہوا، اپنے تمام عیوب کے باوجود، انیسویں صدی کا امریکہ خود کو مشعل راہ سمجھتا تھا۔1960 اور 1970 کی دہائیوں میں کہا جانے لگا کہ اس مشعل کا شعلہ اب ٹمٹما رہا ہے اور اس سے پہلے کہ امریکہ دوبارہ آزادی کا علمبردار بن سکے اس مشعل کو دوبارہ روشن کرنا ہوگا۔ محدودیت پر بحث خود امریکہ کی روح کے بارے میں ہی جدوجہد میں بدل گئی۔

1957 میں ہی، جارج کینان نے محدودیت کو اسی روشنی میں دیکھ کر یہ لکھا
”میرے ہم وطنوں کے لئے، جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ سوویت خطرے کے سدباب کے لئے سب سے بہتر کہاں کام کیا جائے، اسی مناسبت سے مجھے یہ جواب دینا پڑ رہا ہے، خود اپنی امریکی ناکامیوں کے بارے میں، ان چیزوں پر جن سے ہم خود اپنی نگاہوں میں شرمندہ ہوتے ہیں، یا جو ہمیں مضطرب رکھتی ہیں، انتہا پسندی کے مسئلے پر، ہمارے بڑے شہروں کے مسائل پر، اپنے نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت پر، ماہرانہ علم اور عام سمجھداری کے درمیان خلیج پر۔“ (51)

ایک دہائی پہلے، جب وہ یہ سمجھ کر مایوس ہوگیا تھا کہ اس کی تجویز نے عسکری روپ دھار لیا ہے، جارج کینان جان لیتا کہ ایسا کوئی امکان موجود نہیں تھا۔ کوئی ملک جو اپنی خارجہ پالیسی کے لئے خود اپنی اخلاقی درستی کا مطالبہ کرے، اسے نہ درستی نصیب ہوگی اور نہ تحفظ۔ یہ کینان کی کامیابی تھی کہ 1957 تک دنیا بھر کی منڈیروں پر افراد بہت مؤثر طریقے سے تعینات ہو چکے تھے ، خود اس کے نظریات نے اس کام میں ایک فیصلہ کن کردار کیا تھا۔بلکہ ان منڈیروں کی اتنی موثر طریقے سے حفاظت کی جارہی تھی کہ امریکہ نے خود تنقیدی کی ایک بڑی خوراک پھانک لی

محدودیت ایک غیرمعمولی نظریہ تھا، ایک ہی وقت میں سخت ضدی بھی اور بہت خیال پرست بھی، سوویت ارادوں کے تخمینے میں بہت پرجوش لیکن اس کا علاج تجویز کرنے میں حیرت انگیز طور پر تجریدی۔ اپنی یوٹوپیا سوچ میں مکمل امریکی، اس کا خیال تھا کہ ایک مطلق العنان دشمن کا خاتمہ ایک بنیادی طور پر پرامن طریقے سے ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ نظریہ امریکی طاقت کے عروج کے زمانے میں وضع کیا گیا، لیکن یہ امریکہ کی نسبتا ًکمزوری اجاگر کرتا رہا۔ بالکل اپنے اختتام پر ایک عظیم سفارتی تصادم فرض کرتے ہوئے، محدودیت میں اس آخری انتہائی منظر سے پہلے سفارتکاری کی کوئی گنجائش نہیں تھی، جس منظر میں سفید ٹوپیاں اوڑھے افراد سیاہ ٹوپیوں والے افراد میں تبدیلی کو قبول کر لیتے۔
ان تمام حد بندیوں کے ساتھ، محدودیت کے نظریے نے آئندہ چالیس سالوں تک امریکہ کو تعمیر، جدوجہد اور بالاخر فتح سے ہمکنار کیا۔ اس کے ابہام کے شکار وہ لوگ نہیں ہوئے جنہیں امریکہ تقریباً کامیابی سے بچانا چاہتا تھا، بلکہ امریکی ضمیر ہوا۔ اخلاقی درستی کی اپنی روایتی تلاش میں، امریکہ تقریبا ایک نسل کی جدوجہد کے بعد، اپنے تنازعات اور سرگرمی سے زخمی، اس نے تقریباً وہ سب ہی حاصل کرلیا جس کی اسے تلاش تھی۔

حوالہ جات:
[41] Winston S. Churchill, His Complete Speeches, 1897–1963, ed. by Robert Rhodes James, vol. VII, 1943–1949 (New York/London: Chelsea House in association with R. R. Bowker, 1974), p. 7710.
[42] Ibid., vol. VIII (1950–1963), p. 8132.
[43] . Henry A. Wallace, Toward World Peace (New York: Reynal & Hitchcock, 1948), p. 11
[44] Henry A. Wallace, Address at Madison Square Garden, September 12, 1946, in Walter LaFeber, ed., The Dynamics of World Power: A Documentary History of United States Foreign Policy, 1945–1973, vol. II, Eastern Europe and the Soviet Union (New York: Chelsea House Publishers, 1973), p. 260.
[45] Quoted in J. Samuel Walker, Henry A Wallace and American Foreign Policy (West-port, Conn.: Greenwood Press, 1976), p. 129.
[46] Quoted in ibid., p. 121.
[47] Wallace, memorandum for Truman, March 14, 1946, in Harry S Truman, Year of Decisions, Memoirs, vol. one (New York: Doubleday, 1955), p. 555.
[48] Wallace Address at Madison Square Garden, September 12, 1946, in LaFeber, ed., Dynamics of World Power, pp. 258–59.
[49] Wallace speech announcing his candidacy for President, December 29, 1947, in Thomas G. Paterson, ed., Cold War Critics: Alternatives to American Foreign Policy in the Truman Years (Chicago: Quadrangle Books, 1971), pp. 98–103.
[50] Wallace, quoted in Alonzo Hanby, “Henry A. Wallace, the Liberals, and Soviet-American Relations,” Review of Politics, vol. XXX (April 1968), p. 164.
[51] George F. Kennan, Russia, the Atom and the West (New York: Harper & Brothers, 1957), p. 13.

نوٹ: ہنری کسنجر کی کتاب ’ڈپلومیسی’‘ کا اردو ترجمہ سیّد سعید نقوی نے کیا ہے۔ یہاں مصنف کے شکریے کے ساتھ اس میں سے ایک اقتباس پیش کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close