باجوہ کے ’غیر جانبداری‘ کے وعدے کا اعتبار نہیں، سابق جنرل

ویب ڈیسک

ایک ریٹائرڈ جنرل نے سابق آرمی چیف کے فوج کے سیاست سے باہر رہنے کے عہد کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ سبکدوش ہونے والے سربراہ کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے

جنرل ریٹائرڈ ہارون اسلم نے کہا کہ (عمران خان) نے جنرل (ر) باجوہ کو توسیع کیوں دی؟ آصف علی زرداری نے جنرل (ر) کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں کی؟ میں سمجھتا ہوں کہ فوج کو غیر جانبدار رہنا چاہیے اور سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، لیکن یاد رکھیں کہ آپ اسے بٹن دبا کر بند نہیں کر سکتے

لندن اسکول آف اکنامکس کی طلبہ یونین کی جانب سے منعقد کئی گئی فیوچر آف پاکستان کانفرنس 2023 میں سیشن ’سول ملٹری تعلقات: بقائے باہمی یا محاذ آرائی ’ سے خطاب کرتے ہوئے سابق جنرل نے فوج کو سیاست میں مداخلت کرنے کی اجازت دینے کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ جب فوج فعال طور پر مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کر رہی تھی لیکن یہ ’سویلین عناصر‘ تھے، جنہوں نے فوج کو اہمیت دی

جب ان سے جنرل ریٹائرڈ باجوہ کے الوداعی خطاب میں فوج کی غیرجانبداری کے عہد کے طویل المدتی عمل درآمد ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو جنرل (ر) ہارون اسلم نے بڑے واضح انداز میں کہا ”مجھے اس پر کوئی یقین نہیں ہے، انہوں نے اپنی اننگز کھیل لی اور آخر میں یہ کہا، سبکدوش ہونے والے سربراہ نے جو کہا اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے“

جنرل (ر) اسلم سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے وقت سینئر ترین تھے، اس سے قبل وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اور بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہے

سیشن میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو ووٹ دیا تھا، اور دوبارہ بھی دیں گے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے عمران خان و دیگر سویلین قیادت کو سول۔ملٹری عدم توازن میں کردار ادا کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ان کا کہنا تھا ”اگر آپ اچھی سویلین قیادت کی حوصلہ افزائی کریں گے تو فوج پیچھے ہٹ جائے گی، ہمیں عوام کی خواہشات کے مطابق جانا پڑتا ہے“

ان کا کہنا تھا ”سویلین عنصر فوج کو اہمیت دیتا ہے اور دونوں کے درمیان تعلق محبت، نفرت اور مصلحت کا مثلث ہے، اگر ہم بھارت کے خلاف اسکور کرتے ہیں تو ہر کوئی فوج سے پیار کرتا ہے، لیکن جب ہم مداخلت کرتے ہیں تو ہر کوئی فوج سے نفرت کرتا ہے، یہ فوج نہیں ہے جو (مداخلت کرنے) کی کوشش میں سرگرم ہے، یہ ایک اجتماعی چیز ہے“

سیاست میں فوج کی عدم مداخلت کا دعویٰ؛ پاکستان میں اب یہ ‘خلا’ کون پر کر رہا ہے؟

پاکستان کی فوج کی جانب سے آئندہ سیاست میں مداخلت نہ کرنے کے معاملے پر یوں تو مختلف آرا سامنے آتی رہی ہیں۔ پاکستان میں خواص سے لے کر عوام تک عام طور پر اس تاثر کی نفی پر مبنی رائے پائی جاتی ہے، تاہم یہ معاملہ بھی موضوعِ بحث ہے کہ اگر واقعی اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دُور ہو گئی ہے تو پھر یہ خلا کون پر کر رہا ہے؟

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے کردار پر بھی بات ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اب بظاہر عدلیہ مخالف بیانیہ اپنا رکھا ہے جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف بظاہر اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر چل رہی ہے

گو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز سماعتوں کے دوران سیاسی معاملات کو پارلیمان میں ہی حل کرنے کی ہدایت کرتے ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کے باعث یہ اہم نوعیت کے قومی معاملات عدالتوں میں ہی جا رہے ہیں۔ بعض حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید اب عدلیہ اس خلا کو پر کر رہی ہے

ساتھ ہی پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ کیا سیاسی جماعتوں میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ اپنے معاملات خود طے کر سکیں؟ کیا سیاسی انتشار اور تلخیوں کے اس ماحول میں کسی تیسری قوت کی مداخلت کے بغیر سیاستدان ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں؟

سینئر تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ فوج کی جانب سے دعویٰ تو کیا جا رہا ہے کہ وہ سیاسی معاملات سے دُور ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس دعوے میں کتنی صداقت ہے۔ اُن کے بقول فی الحال سیاسی معاملات میں فوج کی کھلی مداخلت دکھائی نہیں دے رہی

مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات ایسے ہیں، جس سے شبہ جنم لے رہا کہ شاید اب بھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار مکمل طور پر ختم نہیں ہوا

تجزیہ کار ایاز امیر یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ واقعی فوج کی سیاست میں مداخلت ختم ہو گئی ہے؟

ایاز امیر کا کہنا ہے ”مجھے نہیں لگتا کہ موجودہ حکومت میں اتنا دم خم ہے کہ وہ بغیر کسی مدد کے چل سکے۔ اگر ‘وہ’ پیچھٹے ہٹ جائیں تو موجودہ حکومت ایک دِن نہیں چل سکتی“

لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کہتی ہیں کہ بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ اب مداخلت نہیں ہو رہی۔ تاثر بھی درست نہیں کہ عدلیہ اس خلا کو پر کر رہی ہے کیوں کہ عدلیہ بھی ریاست کا ستون ہے اور جب ریاست میں کوئی ڈیڈ لاک آجائے تو پھر عدلیہ کو بھی اپنا کردار نبھانا پڑتا ہے

پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمانی اُمور پر نظر رکھنے والے ادارے ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب، مجیب الرحمٰن شامی اور جسٹس ناصرہ اقبال سے اتفاق کرتے ہیں۔ اُن کے بقول ایسے کوئی حالات نظر نہیں آتے، جس سے لگ رہا ہو کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ لیکن اُنہوں نے کہا ”پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ کی قومی معاملات میں چھاپ کے باعث اتنا آسان نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاسی معاملات سے بالکل ہی الگ تھلگ ہو جائے“

احمد بلال محبوب کے مطابق جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے برعکس جنرل عاصم منیر عوامی سطح پر اتنے متحرک نہیں ہیں جس طرح جنرل (ر) باجوہ مختلف فورمز پر جا کر اظہارِ خیال کرتے تھے۔ فی الحال ایسی کوئی صورتِ حال نہیں ہے

جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کہتی ہیں کہ اگر سیاست دان اپنے فیصلے خود کر لیں تو پھر عدلیہ کو مداخلت کا موقع نہیں ملے گا۔

اُن کے بقول اگر عدلیہ کو لگتا ہے کہ کوئی معاملہ پارلیمان میں حل ہو سکتا ہے تو پھر کئی ایسے مواقع آئے ہیں جب عدلیہ کہتی رہی ہے کہ یہ معاملہ سیاست دانوں کو خود حل کرنا چاہیے

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اس وقت حکمراں اتحاد بھی ایک طرح سے داخلی خلفشار کا شکار ہے۔ نواز شریف کا مستقبل بھی غیر یقینی ہے۔ دوسری جانب عمران خان مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں

اُن کے بقول ان حالات میں جب سیاستدان خود فیصلے نہیں کریں گے تو پھر تیسری قوت کو مداخلت کا موقع ملے گا وہ چاہے عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ایسا بار بار ہوتا رہا ہے، جب تیسری قوت ہی سیاسی معاملات کو آگے بڑھاتی ہے

کیا کوئی یہ خلا پر کر رہا ہے؟ اس سوال پر احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ اِس خلا کو طاقتور ادارے ہی پُر کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے نظام میں طاقت ور ادارہ عدلیہ ہے جس کے فیصلے کی بنیاد پر وزیراعظم آتے جاتے رہے ہیں

اُن کے بقول حکومت کے پاس بھی بے پناہ طاقت ہوتی ہے اور انتظامی کنٹرول اس کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن جس ادارے پارلیمنٹ کو زیادہ متحرک اور فعال ہونا چاہیے، بدقسمتی سے وہ اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہی

جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کہتی ہیں کہ جس معاشرے میں اختلاف رائے بہت زیادہ ہو اور سیاسی معاملات بار بار رُک جاتے ہوں تو پھر عدلیہ کو ہی مجبوراً آگے آنا پڑتا ہے

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ عدلیہ اپنے فیصلوں کی حد تک ہی اثرانداز ہوتی ہے،براہِ راست انتظامی معاملات نہیں سنبھال سکتی جب کہ فوج کو جب لگتا ہے کہ ملک نہیں چل رہا تو وہ خود بھی اقتدار سنبھال لیتی ہے جس کی پاکستان میں طویل تاریخ ہے

اُن کے بقول عدلیہ کو بھی چاہیے کہ اُس کے فیصلوں میں کسی جانب کوئی جھکاؤ نظر نہ آئے اور فریقین کو اس پر اعتماد ہو۔ لیکن جب بار بار عدلیہ کے دروازے پر دستک دی جائے گی تو پھر ایک فریق خوش اور دوسرا ناراض تو ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close