اقوامِ متحدہ کی رکن ریاستوں کے مابین گہرے سمندروں میں حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) کے تحفظ کے اپنی نوعیت کے پہلے بین الاقوامی معاہدے کی دستاویز پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ اس بارے میں عالمی سطح پر سیاسی کوششیں پندرہ سال سے جاری تھیں
نیویارک سے اتوار 5 مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بین الاقوامی برادری کی سطح پر اپنی طرز کے اس اولین عالمی معاہدے کی دستاویز پر اتفاق رائے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک ایسے اجلاس میں ممکن ہوا، جو چالیس گھنٹے تک جاری رہا
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے مطابق یہ بین الاقوامی اتفاق رائے گہرے سمندروں کی صحت کے لیے اور ان کی سلامتی کو لاحق خطرات کے مقابلے کے لیے ایک بڑی عالمگیر کامیابی ہے
انتونیو گوٹیرش کے ترجمان نے کہا ”عالمی سمندروں کی صحت اور سلامتی کو بہت تباہ کن ماحولیاتی رجحانات کے باعث ایسے خطرات کا سامنا ہے، جو ناقابل تصور نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس معاہدے پر اتفاق رائے نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کی تمام انسانی نسلوں کے لیے انتہائی فائدہ مند ہوگا‘‘
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی نوعیت کے جس پہلے عالمی معاہدے کی دستاویز پر اتفاق ہوا ہے، اس کے لیے سمندری حیاتیاتی تنوع سے متعلق بین الحکومتی کانفرنس طویل عرصے سے کوشاں تھی۔ اس کانفرنس کا مقصد یہ تھا کہ مستقبل میں عالمی سمندروں کے کم از کم 30 فیصد علاقے کو ایسے محفوظ خطے قرار دے دیا جائے، جہاں حیاتیاتی تنوع کی مکمل حفاظت کی جا سکے
اس کے علاوہ ایسے طریقہِ کار کی تلاش بھی ایک اہم مقصد تھا، جن کی مدد سے یہ نگرانی بھی کی جا سکے کہ کسی بھی قسم کے اقتصادی منصوبے یا دیگر سرگرمیاں ایسی نہ ہوں، جو ان محفوظ سمندری علاقوں میں ماحولیاتی تحفظ کے تقاضوں سے متصادم ہوں
اس معاہدے کی دستاویز پر اتفاق رائے کے بعد نیو یارک میں اس عمل میں شامل مذاکراتی گروپوں کی طرف سے جو اعلان کیا گیا، اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب گہرے بین الاقوامی سمندروں میں حیاتیاتی تنوع کو اعلیٰ حفاظتی معیارات کے تحت تحفظ حاصل ہو سکے گا
اس نئے عالمی معاہدے کو عرف عام میں ’دا ہائی سیز ایگریمنٹ‘ (The High Seas Agreement) کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تحفظ فطرت کے عالمی فنڈ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ماہر کیرولین شاخت نے کہا، ”یہ معاہدہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس سے وہ خطرناک نقائص دور کیے جا سکیں گے، جو اب تک موجود بین الاقوامی معاہدوں میں پائے جاتے تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس نئے عالمی معاہدے کے کئی فوائد میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ اس کی مدد سے عالمی سطح پر انواع کے ختم ہوتے جانے کی رفتار کم کی جا سکے گی۔
کیرولین شاخت نے کہا ”اب وقت آ گیا ہے کہ قول کے بعد اس عزم کو فعل سے ثابت بھی کیا جائے۔‘‘