پاکستان کو پانچ ماہ میں ساڑھے چار ارب ڈالر قرض کیوں لینا پڑا؟ وائس آف امریکہ کی رپورٹ

نیوز ڈیسک

پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران ساڑھے چار ارب ڈالر کے بیرونی قرض حاصل کیے ہیں۔ اس عرصے کے دوران حاصل کردہ زیادہ تر قرض چین سے موصول ہوئے جو کہ تجارتی بنیادوں پر لیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان نے حاصل کردہ ان نئے قرضوں کو پرانے قرض کی ادائیگی اور زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لیے استعمال کیا۔

وزارت اقتصادی امور کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملکی بیرونی آمدنی کی مد میں 4.5 ارب ڈالرز موصول ہوئے۔ جس میں گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 45 فی صد اضافہ ہے۔

ترجمان کے مطابق کرونا کی دوسری لہر کے باوجود ملک کی معاشی صورتِ حال مثبت رہی اور ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دوسری جانب وزارتِ اقتصادی امور کے ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ پانچ ماہ میں لیے گئے قرضوں کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت (اگست 2018ع سے) مجموعی طور پر 23 ارب 60 کروڑ ڈالر کے غیر ملکی قرضے حاصل کر چکی ہے

غیر ملکی تجارتی قرض میں گزشتہ ایک ماہ میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جس میں سے 500 سو ملین ڈالر چین سے حاصل کیے گئے

جب کہ مالی سال کے ان پہلے پانچ ماہ میں پاکستان نے تین فی صد سود کے ساتھ سعودی عرب کو دو ارب ڈالرز کی ادائیگی بھی کی ہے

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان سعودی عرب سے حاصل کردہ قرض کی ادائیگی کے لیے متبادل تلاش نہ کر پاتا تو اس کے لیے آئی ایم ایف کے معطل پروگرام کو بحال کرانا دشوار ہو جاتا

اس حوالے سے غیر ملکی خابرو ادارے وائس آف امریکہ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے جہ ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کے مطابق 2008ع سے 2018ع کے عشرے میں بہت زیادہ قرضے لیے گئے جس کی وجہ سے ملکی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو قرضوں کی واپسی کے ساتھ ساتھ ادائیگیوں کے توازن کے لیے نئے قرض لینا پڑے۔

وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں معاشی اشاریوں کو دیکھا جائے تو کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے میں ڈالرز کی ضرورت صرف قرض کی ادائیگی کے لیے ہے

وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے حاصل کردہ قرض کو ادائیگیوں کے لیے استعمال کیا ہے تو بیرونی قرض میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس صورتِ حال کا آئی ایم ایف کے پروگرام سے براہ راست کوئی واسطہ نہیں لیکن عالمی ادارے کا پاکستان کے ساتھ رویہ مناسب نہیں جس کی وجہ سے مالیاتی پروگرام گزشتہ دس ماہ سے معطل ہے

اشفاق حسن کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت دباؤ میں ہیں۔ لہٰذا عالمی مالیاتی ادارے کو پاکستان پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے کے بجائے اپنا رویہ بدلنا چاہیے۔

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر شکیل رامے کا بھی یہی کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث پیدا شدہ صورتِ حال اور دوست ممالک کو قرض کی واپسی کے باعث پاکستان کو اس عرصے میں اضافی قرض لینا پڑا جو زیادہ تر چین سے حاصل کیا گیا

وائس آف امریکہ کے مطابق اپنی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا نے معیشت پر اضافی بوجھ ڈالا اور حکومت کو متاثرہ صنعتی سیکٹر کے لیے ریلیف پیکج دینا پڑا۔ جو اُن کے بقول ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک سے حاصل کردہ 1.2 بلین ڈالر پر مشتمل تھا

چین سے حاصل قرضوں پر بات کرتے ہوئے شکیل رامے کہتے ہیں کہ اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے جو کہ دراصل پاکستان کے مجموعی قرضوں کا صرف 5.6 فی صد ہے

انہوں نے بتایا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں مں قرض زیادہ نہیں ہیں بلکہ زیادہ تر منصوبے بیرونی سرمایہ کاری، ترقیاتی اور دیگر امداد پر مشتمل ہیں

دوسری جانب معاشی تجزیہ کار علی خضر کہتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافہ برقرار ہے جس کے باعث صورتِ حال تشویش ناک نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال میں اگر پاکستان کو بیرونی ادائیگیاں نہ کرنا ہوتیں تو نیا قرض لینے کی ضرورت نہیں تھی

البتہ علی خضر کا کہنا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں اضافے کے باوجود فنانشل اکاؤنٹ منفی ایک اعشاریہ 33 ہے جو کہ پاکستان کو مجبور کرے گا کہ آئندہ مہینوں میں آئی ایم ایف کے معطل پروگرام کی بحالی کی طرف جائے

پاکستان کو آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو تین ارب ڈالرز کی مزید ادائیگیاں کرنی ہیں اور مالی مشکلات کے شکار پاکستان کے لیے قرض کی واپسی آسان عمل نہیں ہے۔ پاکستان کو غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی کم سے کم حد برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جو کہ زیادہ تر غیر ملکی قرض سے حاصل کیے گئے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں سعودی عرب کو دو ارب ڈالر کی ادائیگی کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 13.3 ارب ڈالر تک محدود ہو گئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close