ترکیہ اور شام میں تباہ کن زلزلے کے ایک ماہ بعد صورتحال کیسی ہے؟

ویب ڈیسک

6 فروری کو جنوبی ترکیہ اور شمالی شام کو کئی زلزلوں نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ان دونوں ممالک میں ہونے والی انسانی، سیاسی اور سماجی تباہی بہت حد تک ناقابل بیان ہے

ہولناک زلزلے کی وجہ سے اس خطے میں کم از کم پچاس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں۔ تخمینوں کے مطابق دو لاکھ چودہ ہزار سے زائد عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں یا انہیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔ لاکھوں لوگوں کو فوری امداد کی اب بھی اشد ضرورت ہے

ہزاروں انسانی جانوں اور املاک کے نقصانات ترکیہ کے گیارہ صوبوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ زلزلے کے ایک ماہ بعد وہاں مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، کیونکہ متعدد متاثرین کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے۔ بہت سے لوگوں کو ابھی تک سرکاری طور پر بطور مردہ رجسٹر نہیں کیا گیا کیونکہ زندہ بچ جانے والے اپنے رشتہ داروں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں

زلزلے کے فوری بعد زندہ بچ جانے والوں کا غم غصے سے جڑا ہوا تھا۔ لوگوں نے سوال کرنا شروع کر دیا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی عمارتیں، جو کہ زلزلہ پروف سمجھی جاتی تھیں، بڑی حد تک منہدم ہو گئیں

متعدد کیسز میں سامنے آیا کہ دراصل تعمیراتی کمپنیوں نے بلڈنگ سیفٹی کوڈز پر عمل ہی نہیں کیا۔ ابھی تک تقریباً ایک ہزار لوگوں پر باضابطہ طور پر شک ہے کہ انہوں نے تعمیراتی ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے کم از کم 235 افراد کو گرفتار کیا ہے، 330 کی عدالتی حکم کے مطابق نگرانی کی جا رہی ہے اور چار ٹھیکیدار مقدمے سے پہلے حراست میں ہیں

یونیسیف کے مطابق زلزلے سے تقریباً پچاس لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ یکم مارچ کو ترکیہ کی خاندانی و سماجی خدمات کی وزارت نے کہا تھا کہ کھنڈرات سے بچائے گئے انیس سو سے زائد بچوں میں سے پندرہ سو سے زائد کو ان کے اہل خانہ تک پہنچا دیا گیا ہے۔ تقریباً ایک سو بچے خود وزارت کی دیکھ بھال میں ہیں اور اکیاسی کی شناخت ہونا ابھی باقی ہے

چند ماہ بعد ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بھی ہونے والے ہیں، لیکن تاحال یہ بھی واضح نہیں ہے کہ زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہروں میں ووٹنگ کیسے ہوگی

ایک تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ زلزلہ زدہ علاقوں کے ووٹر صدارتی ووٹ کے لیے دوسرے شہروں میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے لیکن پارلیمانی انتخابات کے لیے ایسا نہیں ہو سکے گا

دوسری جانب ترکیہ پہلے ہی معاشی مشکلات سے دوچار تھا اور اب اسے تعمیرِ نو کا مشکل مرحلہ بھی درپیش ہے۔ ورلڈ بینک نے حساب لگایا ہے کہ زلزلے سے کم از کم 34.2 بلین ڈالر کا مادی نقصان ہوا ہے۔ ترکیہ کے شماریاتی دفتر کے مطابق زلزلہ زدہ علاقوں کے گیارہ اہم شہروں میں تقریباً چودہ ملین افراد رہائش پذیر ہیں۔ ان علاقوں کی معیشت زراعت اور مویشی پالنے کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل، اسٹیل اور توانائی پر مبنی ہے اور یہ ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 9.8 فیصد بنتی ہے

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ تباہی بہت سی مصنوعات اور خدمات کی مانگ میں اضافے کا باعث بنے گی، جس کے نتیجے میں افراطِ زر بھی بڑھے گا، جو پہلے ہی زیادہ ہے۔ ماہر معاشیات مورات کوبیلے کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ 2023ء کے آخر تک افراط زر کم از کم بھی پچاس فی صد تک پہنچ جائے گی

دوسری جانب شمالی شام میں 6 فروری کو آنے والا زلزلہ ایک ایسے علاقے کے لیے تازہ ترین دھچکا تھا، جو پہلے ہی بارہ سال سے جاری خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا تھا۔ تباہی کے ہفتوں بعد بھی شامی علاقوں سے بہت کم معلومات سامنے آئی ہیں، جبکہ وہاں بہت سے لوگ برسوں کی لڑائی کے بعد غیر محفوظ ماحول میں رہ رہے ہیں

اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ وہاں بھی زلزلے سے تقریباً 8.8 ملین افراد متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے بہت سے لوگ اب بے گھر ہیں۔ سرکاری طور پر شام میں تقریباً چھ ہزار اموات کی اطلاع ہے لیکن اصل تعداد شاید اس سے کہیں زیادہ ہے

بین الاقوامی سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے بہت سے شامیوں کو زلزلے کے بعد ابتدائی چند دنوں میں تو کوئی مدد ہی نہیں مل سکی۔ اگرچہ اب شام میں امداد بھیجی جا رہی ہے لیکن شامی حکومت کی نااہلی کی بنا پر وہ متاثرہ لوگوں تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ زلزلہ زدہ علاقے کے بڑے حصے حکومت کے مکمل کنٹرول میں نہیں ہیں

ادلب شہر مؤثر طور پر باغیوں کا آخری گڑھ ہے اور وہاں بیس لاکھ سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ بنیادی طور پر یہ شہر اسلامی ملیشیا کے کنٹرول میں ہے۔ مبصرین نے کہا ہے کہ شامی حکومت کی جانب سے سرکاری امداد وہاں تک نہیں بھیجی جا رہی۔ زلزلے سے پہلے ہی شمال مغربی شام میں 1.8 ملین کے قریب بے گھر افراد عارضی خیموں اور پناہ گاہوں میں رہ رہے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close