کیا برطانوی راج سے قبل ہندوستان کے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ تھے؟ آر ایس ایس سربراہ کے بیان پر دلچسپ بحث چھڑ گئی

ویب ڈیسک

انتہا پسندانہ نظریات کی حامل ہندو تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے حال ہی میں اہنے ایک بیان میں کہا ہے کہ برطانوی راج سے پہلے ہندوستان کے ستر فی صد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے برطانوی راج کے دوران انگریزوں پر تعلیمی نظام کو برباد کرنے کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے یہ بات دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں ایک ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی

بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا ”برطانوی راج سے پہلے ہمارے ملک کی ستر فیصد آبادی تعلیم یافتہ تھی اور بے روزگاری نہیں تھی، جبکہ انگلینڈ میں صرف سترہ فی صد لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے اپنے تعلیمی ماڈل کو یہاں نافذ کیا اور ہمارے ماڈل کو اپنے ملک میں نافذ کیا۔ اس لیے انگلستان میں ستر فی صد لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے، جبکہ ہندوستان میں اس کی آبادی کا صرف سترہ فیصد تعلیم یافتہ رہ گیا“

موہن بھاگوت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ برطانوی راج سے قبل ہندوستان میں ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تعصب نہیں تھا، کیونکہ ہندوستان کا تعلیمی نظام لوگوں کو خود پر انحصار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا

موہن بھاگوت کے اس بیان کے بعد بھارت کے سوشل میڈیا پر ’مغل، آر ایس ایس اور بھاگوت‘ کے تین ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے

بھارت میں کچھ لوگ موہن بھاگوت کے اس بیان کو مغلوں اور مسلمانوں کی تعلیمی خدمات کا اعتراف قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ہندوستان میں برطانوی راج سے پہلے صدیوں تک مغلوں کی حکمرانی تھی اور اس سے قبل مختلف مسلم سلطنتیں تھیں

دلچسپ بات یہ ہے کہ موہن بھاگوت جس انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ ہیں، وہ ہندوستان کے مغل حکمرانوں پر ہمیشہ ہی کیچڑ اچھالنے میں مصروف رہتی ہے

واضح رہے کہ اگرچہ موہن بھاگوت نے واضح انداز میں مغل حکومت کا نام نہیں لیا لیکن ان کے بیان کا عام مفہوم یہی لیا جا رہا ہے

تاہم دوسری جانب کچھ لوگ ان کے اس بیان کو صریحاً غلط بیانی قرار دیتے ہوئے ان پر لوگوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں

اس حوالے سے بھارت کے ماہر تعلیم اور مصنف پروفیسر پروشوتم اگروال کہتے ہیں ”موہن بھاگوت کی اس بات میں قدرے صداقت ہے اور سب سے اہم بات ہے کہ انہوں نے بالآخر یہ تسلیم کیا کہ برطانوی راج سے پہلے مغل حکومت کا نظام اچھا تھا اور جیسا عام طور پر بیانیہ دیا جاتا رہا ہے کہ مغل حکمراں ظالم و جابر تھے تو یہ بیان اس کی نفی کرتا ہے“

پروفیسر پروشوتم اگروال نے کہا ”یہ بات سچ ہے کہ ہندوستان میں بنیادی تعلیمی نظام کا مضبوط ڈھانچہ موجود تھا اور مکتب اور مدارس تھے، جن میں صرف مذہبی تعلیم نہیں بلکہ سیکولر تعلیم بھی دی جاتی تھی“

انھوں نے مزید کہا ”تاریخدانوں اور ماہرین معاشیات نے یہ ثابت کر دیا کہ انگریزوں سے قبل مغل بادشاہ اورنگزیب کی موت کے وقت ہندوستان کا جی ڈی پی دنیا کے جی ڈی پی کا چوبیس فی صد تھا، جو کہ برطانوی راج کے اختتام پر کم ہو کر صرف چار فیصد رہ گیا۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ نظام اچھا تھا اور خوشحالی تھی“

انہوں نے کہا ”اس (مغل) دور میں دنیا بھر کی پچیس فی صد پیداوار ہندوستان میں ہوتی تھی اور لوگ بے روزگار بھی نہیں تھے“

ویسے دیکھا جائے تو بھارت میں جدید تعلیم کی بحث اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کہ یہاں برطانوی راج کی آمد۔ ہندوستان میں جدید تعلیم کے ’معمار‘ کہلانے والے انگریز ماہر تعلیم لارڈ میکالے کا خیال تھا کہ ایک اچھی یورپی لائبریری کا ایک شیلف بھی ہندوستان اور عرب کے تمام مقامی ادب سے زیادہ تھا

اس کے علاوہ میکالے چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت پیسہ صرف مغربی تعلیم دینے پر خرچ کرے نہ کہ مشرقی تعلیم پر۔ انکوں نے ان تمام کالجوں کو بند کرنے کی وکالت کی تھی، جہاں صرف مشرقی فلسفہ اور مضامین پڑھائے جاتے تھے

دلی یونیورسٹی کے شعبِ تاریخ کے ریٹائرڈ استاد پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری نے عہد وسطی میں تعلیم پر کئی مضامین لکھے ہیں۔ ان کا اس حوالے سے کہنا ہے ”موہن بھاگوت نے کیا کہا یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن مغل عہد میں تعلیم کا نظام عام اور یکساں تھا۔

پروفیسر جعفری نے کہا کہ انہوں نے ’بنگال میں تعلیم‘ کے عنوان پر اپنے مضمون میں ہنٹر کمیشن (1882) کے سربراہ ولیم ولسن ہنٹر کا حوالہ دیا ہے، جنھوں نے کہا تھا کہ ’کس طرح بنگال میں مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو ختم کیا گیا۔ چار چار سو پانچ پانچ سال پرانے تعلیمی اداروں کو ختم کیا گیا‘

انھوں نے کہا ”یہ بھی عجیب بات ہے کہ انگریزوں کے آنے کے بعد تعلیم یافتہ ہونے کی تعریف بدل گئی اور آج بھی مردم شماری میں انہی کو تعلیم یافتہ مانا جاتا ہے، جنہوں نے اسکول کالج کی ڈگریاں حاصل کی ہوں“

انھوں نے کہا ”انگریزوں کے تعلیمی نظام میں غیر روایتی طور پر تعلیم یافتہ کو تعلیم یافتہ نہیں کہا گیا چنانچہ عربی فارسی کے اسکالر بھی غیر تعلیم یافتہ ٹھہرے۔ یہاں تک کہ مشہور کہاوت سامنے آئی جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح تعلیم یافتہ طبقہ بے روزگار ہو گیا تھا اور کہاوت یہ ہے کہ ’پڑھے فارسی بیچے تیل۔۔۔ دیکھو بھائی قدرت کا کھیل۔‘

انہوں نے ’تیل بیچنے‘ کی اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کچھ نہ کرنے یعنی بے روزگار ہونے کے مترادف ہے

انہوں نے مزید کہا کہ تعلیم کا نظام مکتب مدرسے کے علاوہ خانقاہوں میں بھی تھا، جہاں لوگ پڑھنے جایا کرتے تھے

اس سوال پر کہ کیا اس دور میں خواتین میں بھی تعلیم کا رواج عام تھا؟ پروفیسر جعفری نے کہا ”اس کے متعلق کوئی دستاویز تو موجود نہیں لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اشرافیہ میں تعلیم تھی اور ہماری ماں اور دادی دونوں حافظِ قرآن تھیں۔ رسم و رواج اوپر سے نیچے کی جانب آتے ہیں اور اشرافیہ کی نقل کی جاتی ہے۔ اس لیے اگر اشرافیہ کی خواتین میں تعلیم تھی تو اس کے اثرات عوام پر بھی تھے“

پروفیسر جعفری نے کہا کہ برطانوی حکومت کے آنے کے بعد تعلیمی نظام سب کے لیے یکساں نہیں رہا اور محدود ہوتا گیا

دہلی یونیورسٹی کے شبعہِ تعلیم بالغاں میں ریسرچ سکالر رادھیکا کپور نے ’عہد وسطٰی میں تعلیم‘ کے عنوان پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’قرونِ وسطٰی کے ہندوستان میں نظام تعلیم بنیادی طور پر اسلامی اور مغل نظام پر مرکوز تھا۔ نئی سماجی حقیقتیں، خاص طور پر تعلیم کی جمہوریت، علمی معاشرے کے ظہور اور عالمگیریت کے درمیان میل ملاپ نے تمام معاشروں کے تعلیمی عمل پر بڑا اثر ڈالا“

وہ مزید لکھتی ہیں ”قرون وسطٰی کے ہندوستان میں تعلیم کا بنیادی مقصد طلبا کی تربیت کرنا تھا تاکہ ان میں تمام اہم شعبوں کے حوالے سے بیداری پیدا ہو سکے اور اخلاقی اور اخلاقیات کے خصائل کو ابھارا جا سکے۔ تعلیم کا آغاز ’بسم اللہ‘ نامی تقریب سے ہوتا تھا“

”ابتدائی سطح کے طلبا کو ریاضی، حساب، وزن، پیمائش، اشکال وغیرہ کے حوالے سے تربیت دی جاتی تھی۔ اس کے لیے ریاضی کو ضروری سمجھا جاتا تھا۔ ادب ایک اور موضوع تھا جس پر توجہ دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر مضامین جو تعلیمی اداروں میں پڑھائے جاتے تھے، ان میں سائنس، سماجی سائنس، فلکیات، حساب، پبلک ایڈمنسٹریشن اور مذہبی تعلیم شامل تھی“

دوسری جانب موہن بھاگوت کا یہ بیان سوشل میڈیا پر بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ’انڈین مسلم ہسٹری‘ کے نام سے صارف سید عبید الرحمان نے ٹوئٹر پر اس حوالے سے ایک تھریڈ شیئر کیا، جس میں وہ لکھتے ہیں ”آخرکار، آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ تسلیم کر لیا کہ مغل، ٹیپو سلطان، نظام حیدرآباد اور دوسرے مسلم حکمرانوں نے ملک گیر سطح پر ہندوستانی عوام کی تعلیم کے لیے بے نظیر تعلیمی انفراسٹرکچر قائم کیا تھا۔ انہوں نے اس بات کو درست ٹھہرایا، جسے میں نے اپنی کتاب میں لکھا“

اس کے برعکس سابق رکن پارلیمان ادت راج نے لکھا ہے ”آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے سفید جھوٹ بولا اور کہا کہ انگریزوں سے پہلے ستر فی صد ہندوستانی تعلیم یافتہ تھے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ انگریزوں نے ہی دلت پسماندہ اور خواتین کو پڑھنے کے مواقع دیے“

کارٹونسٹ منجُل نے موہن بھاگوت کے بیان والے وڈیو کو شیئر کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا ان کا مطلب یہ ہے کہ مغل ملک کو موجود حکومت کے مقابلے زیادہ بہتر انداز سے چلا رہے تھے؟

تاریخ کے پروفیسر اور کتاب ’اسلام اینڈ گڈ گورننس‘ کے مصنف ڈاکٹر مقتدر خان نے ٹویٹ کی ”یقیناً مسٹر موہن بھاگوت۔ برطانیہ سے قبل ہندوستان پر مغل حکومت کر رہے تھے اور جیسا کہ آپ نے کہا وہ حیرت انگیز تھے“

بہرحال بھارت کی موجودہ سیاسی صورت حال میں یہ بیان ایک تبدیلی کا اشارہ ہے۔ بہت سے لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا اب بی جے پی حکومت کے حامی، موہن بھاگوت کے اس بیان پر احتجاج کریں گے کہ انہوں نے مغل دور کی تعریف کیوں کی؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close