جب میں تیسری مرتبہ چالیس برس کا ہوا، تب مجھے کچھ شک پڑنے لگا کہ میرے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔۔
پہلی مرتبہ میں کچھ الجھا ہوا تھا اور اس اہم سنگ میل یعنی چالیسویں سالگرہ کے لیے ہر گز تیار نہیں تھا، خاص طور پر ایسے میں، جب میں خود کو اڑتیس برس کا سمجھ رہا تھا
لیکن چند ماہ بعد میں پھر چالیس برس کا ہو گیا۔ ویسے میں ریاضی میں کچھ بہت زیادہ اچھا نہیں رہا۔ لیکن پھر ایسا ہوا کہ میں چند مرتبہ پھر اکتالیس برس کا ہو گیا اور آخر میں ایک بار پھر چالیس برس کا۔ نہیں، یہ ہو نہیں سکتا، وقت کے ساتھ کچھ تو گڑ بڑ ہے
واضح یہ ہوا کہ کچھ تہذیبیں ایک ہی وقت میں متعدد برسوں یا متعدد عمروں کے تجربے کے ساتھ ٹھیک ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر جگہ 2023ع کا آغاز ہے۔ لیکن میانمار میں قدم رکھیں تو وہاں سنہ 1348 بھی ہے، جبکہ تھائی لینڈ آپ کو سنہ 2566 میں دھکیل دے گا، مراکش کے لوگ 1444 میں عبادت کر رہے لیکن زراعت 2972 میں کر رہے ہیں، جبکہ ایتھوپیائی سنہ 2015 سے گزر رہے ہیں، جن کے لیے تیرہ ماہ کا سال ہے
دریں اثنا جنوبی کوریا میں، جہاں میں رہتا ہوں، نیا سال ہر ایک کا یوم پیدائش ہے۔ یہی اس مخمصے کی وضاحت کرتا ہے کہ میں تین مرتبہ چالیس کا کیوں ہوا ہوں۔۔!
آپ کی جنوبی کوریائی عمر
میں اڑتیس برس کا تھا، جب مجھے پتہ چلا کہ میں اصل میں جنوبی کوریا میں چالیس برس کا ہوں۔ کوریائی عمر کا تعلق دو تاریخوں سے ہے: آپ کی تاریخ پیدائش اور گریگوریئن کیلنڈر کا نیا سال۔ آپ کی تاریخ پیدائش سے 31 دسمبر تک آپ برطانیہ یا امریکہ کے مقابلے میں کوریا میں ایک برس بڑے ہیں۔ یکم جنوری سے آپ کی اگلی سالگرہ تک آپ کے عمر میں دو برس کا اضافہ ہو جاتا ہے
جنوبی کوریائی پیدائش کے وقت ایک عمر کے ہوتے ہیں اور اس کے بعد کسی بھی وقت پر ان کی دو سے تین سرکاری عمریں ہوتی ہیں: گھریلو عمر، بین الاقوامی (جو کہ صفر سے شروع ہوتی ہے) اور ایک وہ اضافی برس جب پورا ملک یکم جنوری کو ایک برس بڑا ہو جاتا ہے۔ (علامتی طور پر ایسا قمری سال کے آغاز پر بھی ہو سکتا ہے۔)
دلچسپ یہ بھی ہے کہ کوریائی اس بات کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی سالگرہ گریگوریئن یا روایتی قمری کیلنڈر کے حساب سے منائیں۔ تیکنیکی اعتبار سے میں یہاں کے نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں چھ سالگرہ منا سکتا تھا، لیکن چالیس کا ہونے پر آخر کون اتنا خوش ہوتا ہے؟
یہ سب میرے جیسے پردیسی امریکی کے لیے نیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وقت ان چند چیزوں میں سے ایک ہے جس پر انسانی نسل متفق ہے۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں لوگ وقت کو مختلف انداز سے ماپتے رہے ہیں (سٹون ہینج ایک بڑا کیلنڈر تھا)، لیکن میں یہ نہیں سوچتا تھا کہ دیگر کیلنڈر بھی ابھی رائج ہیں۔ اور ساتھ ساتھ تو بالکل نہیں۔ تو یہ واضع تھا کہ میں نے اپنے تجربے پر کبھی سوالات نہیں اٹھائے
ماضی سے حال کی ایک سست رفتار سڑک
تاریخیں ہماری زندگی کا پس منظر ہیں، ایک ایسی چیز جو لگتا ہے کہ موجود رہتی ہے۔ لیکن بلاشبہ کوئی بھی تاریخ (مثال کے طور پر یکم جنوری 2023) وقت کا تعین کرنے کے ایک مخصوص نظام کی بنیاد ہے، یہ اس کیس میں گریگورین کیلنڈر ہوا
آئی ایس او سے منظور شدہ عالمی معیاری گریگوریئن کیلنڈر، جو کہ بین الاقوامی طور پر ہوابازی سے لیکر سیاست تک ہر شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے، بظاہر لگتا ہے کہ بہت درست اور موثر ہوگا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس کی دنیا میں اتنی اہمیت کی وجہ اس کا درست جگہ، درست وقت پر ہونا اور درست سامراجی ثقافت تھی
مذہبی نظریات اور نشاۃ ثانیہ کی سائنس کی پیداوار گریگوریئن کیلنڈر، کیتھولک مذہبی سال (جو کہ اس وقت جولین کیلنڈر پر بنیاد رکھتا تھا) اور حقیقی شمسی سال میں موجود فرق کو درست کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ جولین کیلنڈر صرف گیارہ منٹ اور 14 سیکنڈ غلط تھا
پینتالیس قبل مسیح کے دور میں ریاضی کی یہ اعلیٰ مثال تھی۔ لیکن وقت کا یہ فرق صدیوں میں جمع ہوکر بڑھتا جاتا ہے۔ جس وقت پوپ گریگری ہشتم نے سولہویں صدی کے اواخر میں کیلنڈر کو درست کرنے کے احکامات جاری کیے اس وقت کیلنڈر موسموں سے لگ بھگ دس دن الگ چل رہا تھا
گریگوری کیلنڈر کا فرق صرف چھبیس سیکنڈ باقی رہ گیا تھا۔ لیکن 1582 میں اس کے نفاذ پر فوری مزاحمت سامنے آئی۔ پروٹیسٹنٹ اور آرتھوڈوکس عیسائیوں کے لیے یہ قبول کرنا مشکل تھا کہ وہ وقت کا تصور پوپ کے حکمنامے سے کریں گے
تو یورپ کے کیتھولک حصوں نے ہی سولہویں صدی کے آغاز سے قبل نئے کیلنڈر کو اپنایا اور دیگر خطوں نے بعد کی آنے والی صدیوں میں دھیرے دھیرے اس کیلنڈر کو اپنایا۔ پروٹیسٹنٹ جرمنی اور نیدرلینڈز نے 1700 میں جبکہ انگلینڈ اور اس کی نو آبادیوں نے 1800 میں یہ کیلنڈر اپنایا۔ 1900 میں دور دراز کے غیر عیسائی ممالک جیسا کہ جاپان اور مصر نے اس کیلنڈر کو متعارف کرایا جبکہ رومانیہ، روس اور یونان جیسے آرتھوڈوکس ممالک نے 2000 میں جاکر اس کیلنڈر کو اپنایا۔ سنہ 2000 میں ہی یورپ نے متفقہ طور پر یکم جنوری کا نئے سال کے طور پر خیرمقدم کیا
تاہم بیشتر بڑی سامراجی قوتیں انیسویں صدی کے وسط تک گریگوریئن کیلنڈر کو اپنا چکی تھیں۔ اس وقت دنیا کے اسی فیصد سے زائد علاقے پر یورپ تسلط رکھتا تھا اور وہاں یورپ کی کالونیاں تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ اور امریکہ میں بھی سائنس اور تجارت سے وابستہ لوگوں میں یہ تحریک ابھر رہی تھی کہ ایک مشترکہ عالمی کیلنڈر تشکیل دیا جائے جو عالمی تجارت میں مدد کرے۔ اور اسی وجہ سے گریگوریئن کیلنڈر کا کردار اہم بن گیا
ان خطوں میں، جہاں یورپ نے فتح حاصل نہیں کی تھی، وہاں یہ کیلنڈر دیگر ذریعوں سے پھیلا۔ اپنی کتاب ’دی گلوبل ٹرانسفارمیشن آف ٹائم‘ میں تاریخ داں ونیسا اوگل کہتی ہیں کہ سرمایہ داری نظام، عیسائی تبلیغ اور یکسانیت کی حامی سائنسی خواہش نے وقت کو معیاری بنانے میں سامراجی پالیسی سے زیادہ کردار ادا کیا۔ نوآبادیاتی سوچ اس تبدیلی کا لازمی حصہ تک نہیں تھی۔ بیروت کی درسگاہوں میں جب اٹھارہویں صدی کے اواخر میں گریگوریئن تاریخیں نمودار ہوئیں تو اس وقت وہ سلطنت عثمانیہ کے کنٹرول میں تھا۔ جاپان کبھی کسی کی کالونی نہیں رہا لیکن اس کے باوجود 1872 میں اس نے گریگوریئن کیلنڈر کو اپنا لیا۔ اس طرح اپنایا جانا شاید اس لیے بھی آسان تھا کہ سب کو علم تھا کہ اس کے فوائد یکطرفہ نہیں ہوں گے
گریگوریئن کیلنڈر سے پہلے ایک ہزار برس تک متعدد کیلنڈروں کا ساتھ ساتھ استعمال رائج رہا تھا۔ قدیم مصری اور ماین لوگ دونوں ہی دو دو کیلینڈر استعمال کرتے تھے، ایک مذہبی اور دوسرا انتظامی۔ کوریا کے بادشاہ سیجونگ نے 1430 کے عشرے میں اپنی ’کیلنڈر اصلاحات‘ کے لیے دو خصوصی کیلنڈر بنوائے
ایک چینی کیلنڈر اور دوسرا عربی کیلنڈر کے مطابق۔ 1880 کے عشرے میں بیروت میں گریگوریئن کیلنڈر کے علاوہ تین دوسرے کیلنڈر ساتھ ساتھ رائج تھے۔ یہاں تک کہ جاپان نے بھی، جہاں گریگوریئن کیلنڈر بظاہر رائج ہو چکا تھا، اپنا ایک الگ شاہی تاریخی نظام یا ’روکویو‘ کیلنڈر برائے اہم ایام، اور موسمیاتی تبدیلیوں کا 24 سیکی کیلنڈر قائم رکھا
سماجی اینتھروپولوجسٹ یا ماہر بشریات، کلیئر اوکسبی نے ساحل اور صحرا میں کیلنڈر کے استعمال کا مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے وقت کا ادراک رکھنے کے لیے متعدد نظاموں کی ساتھ ساتھ موجودگی کی وضاحت کے لیے ’کیلنڈر پلورلزم‘ یا کیلنڈر کی اجتماعیت کی اصطلاح متعارف کرائی۔ بالکل اسی طرح جیسے مختلف سماجوں میں متعدد قانونی نظاموں کے ساتھ ساتھ رائج رہنے کو قانونی اجتماعیت یا لیگل پلورلزم کہتے ہیں
یہ بظاہر شاید مشکل لگے لیکن مختلف کیلنڈروں کا کام الگ الگ ہوتا ہے۔ شمالی افریقہ میں امازیگھن، تواریگ اور بربر بولنے والی دیگر برادریاں تین یا چار نظام بیک وقت استعمال کر سکتی ہیں۔ سٹیلر یا کوکبی کیلنڈر زرعی موسموں کی نشاندہی کرتے ہیں، اسلامی قمری کیلنڈر مذہبی عبادات کی رہنمائی کرتے ہیں اور گریگوریئن کیلنڈر حکومت کے ساتھ معاملات چلانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں
مختلف کیلنڈروں کو ساتھ ساتھ قائم رکھنا، مختلف ضرورتوں کو پورا کرنے کے عمل کو متحد رکھنے کا ایک عملی حل ہو سکتا ہے
یہ تصور یورپ اور شمالی امریکہ میں بھی اجنبی نہیں۔ مثال کے طور پر لوگوں کے سکول کے سال اور مالیاتی سال الگ الگ ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ آپ گننا کہاں سے شروع کرتے ہیں
اوکسبی کہتی ہیں بیک وقت متعدد کیلنڈروں کا آج کے دور میں استعمال شاید اس سے زیادہ ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ لیکن جہاں پلورلزم تاریخی طور پر موجود رہا ہے، وہاں کینلڈر خود بخود تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ آج جو استعمال ہو رہے ہیں شاید کچھ دہائیوں بعد مختلف لگیں۔ ’ہو سکتا ہے آپ کے پاس زیادہ اور مختلف ہوں۔ انسانی تمدن ہر وقت ارتقا پزیر ہے۔‘
ایک جاری ثقافتی تبدیلی تو ہمارا ڈجیٹل دنیا کی طرف سفر ہے۔ پرانے تجارتی راستوں کی جگہ فائبر آپٹک تاروں نے لے لی ہے۔ یہ تاریں گریگوریئن کیلنڈر کو ان خطوں تک پہنچا رہی ہیں جہاں نوآبادیاتی نظام نہیں پہنچ پایا تھا۔ اور کم ازکم فی الحال تو مواصلاتی رابطوں نے نئے قسم کی ’کیلینڈر اجتماعیت‘ پیدا کردی ہے
نیپال دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں گریگوریئن کیلنڈر قومی کیلنڈر نہیں ہے۔ وہاں سرکاری طور پر یا تو سال 2079 (بکرم سمبت) ہے، یا 1143 (نیواری نیپال سمبت)، یا پھر دونوں۔ مختلف لسانی اکائیوں میں مجموعی طور پر کم از کم چار کیلنڈر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ وہاں کئی نئے سال ہیں۔ یہاں تک کہ نیپال عالمی معیاری وقت کے زون کے ساتھ مطابقت سے 15 منٹ دور ہے۔ وہاں کچھ الگ ہی وقت چل رہا ہے
ان سب کے باوجود سنجیو دہال جیسے نیپالیوں کو متعدد کیلنڈر استعمال کرنے کی قطعی ضرورت نہیں
دہال کہتے ہیں ’میں صرف بکرم سمبت کیلنڈر استعمال کرتا ہوں، میں نے زندگی میں کبھی نیپال سمبت استعمال نہیں کیا۔‘ یہ بھی کوئی یک رخی کیلنڈر نہیں۔ بکرم سمبت کے شمسی سال میں بارہ قمری مہینے اور چھ موسم ہیں اور ان میں ثقافتی اور مذہبی تاریخوں کی کئی تہیں پنہاں ہیں۔ کھٹمنڈو میں رہنے والے ایک ہندو کے لیے یہ ایک نظام، مذہبی دنوں سے لیکر تنخواہ والے دن تک کی تمام ضروریات پوری کرتا ہے
گو نیپال کے اندر دہال کو صرف ایک کیلنڈر چاہیے، لیکن وہ امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی کے خارجی طالب علم کے طور پر دنیا میں بسنے والے نیپالیوں پر پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک اور تہذیب کے کیلنڈر کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل کلچر، انیسویں صدی کے نوآبادیاتی یورپ کے طرح، صرف اور صرف گریگوریئن کیلنڈر کا استعمال کرتا ہے
دہال کہتے ہیں ’میں دو زماں و مکاں میں رہتا ہوں۔‘ وہ اس ٹیکنالوجیکل مسئلے کا حل بھی ٹیکنالوجی سے نکالتے ہیں۔ ان کا لیپ ٹاپ سنہ 2023 پر سیٹ ہے جبکہ سمارٹ فون 2079 پر۔ اور ایک ایپلیکیشن دونوں کے درمیان ان کی رہنمائی کرتی ہے
دہال کا خیال ہے کہ کیلنڈر کا استعمال دو نسلوں کے درمیان خلیج ہے: ان کے والدین کے لیے گریگوریئن وقت کے استعمال کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں۔ لیکن ان کے دوستوں کے درمیان بھی کیلنڈر کے استعمال پر تقسیم ہے۔ وہ کام دھندے کے لیے گریگوریئن کا استعمال کرتے ہیں جبکہ سماجی اور خاندانی رسومات کے لیے بکرم سمبت کا استعمال کرتے ہیں۔ اور جبکہ سوشل میڈیا کے استعمال پر مغربی کیلنڈر حاوی ہے، (مثال کے طور پر لوگ انھیں سالگرہ کے پیغامات بھیجتے ہیں)، یہ اہم نیپالی ثقافی اور مذہبی دنوں کے لیے بالکل بیکار ہے کیونکہ وہ قمری تاریخوں کے حساب سے چلتے ہیں۔ اس وجہ سے دہال کو نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں گریگورین کیلنڈر کو سرکاری سطح پر اپنایا جائے گا
تاریخ بھلے ہی دائروں میں چلے۔ لیکن انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہونے والی یکساں عالمی کیلنڈر قائم کرنے کی تحریک، اکیسویں صدی میں معیشت کی یکسانیت کے سبب پھر زور پکڑ رہی ہے۔ 2016 میں سعودی عرب نے ملازمین کے تنخواہوں کے شیڈول کو اسلامی کیلنڈر سے گریگوریئن کیلنڈر پر منتقل کر دیا تھا
اس اقدام کے متعلق کہا گیا تھا کہ ایسا پیسے بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ دسمبر میں جنوبی کوریا نے ایک بل کی منظوری دیکر روایتی کیلنڈر کو خیرباد کہا کیونکہ متعدد عمروں والے نظام ان کے خیال میں معاشی اعتبار سے ناکارہ تھے۔ اس قانون پر عملدرآمد رواں برس شروع ہوگا، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ شاید میری اگلی سالگرہ صرف دو مرتبہ ہی آئے گی، یا پھر صرف ایک مرتبہ
لیکن ایک کیلنڈر کو یکجا کرنے سے ہم کیا کھو سکتے ہیں، خاص طور پر ایک ایسے کیلنڈر کو جس میں کسی دوسرے زمان اور مکان کو فٹ کیا جائے گا؟
’دی پاور ڈائنمکس اور کیلنڈر یوز‘ کتاب کی مصنفہ اوکسی اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں کہ ’ایک مرکزی کیلنڈر نافذ کر کے حکومتیں کنٹرول حاصل کر سکتی ہیں۔ کوئی ملک ثقافتی تاریخ اور تنوع کا نقصان کر سکتا ہے۔ لوگوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اگر وہ ایک علاقائی اقلیتی ثقافت کا حصہ ہیں تو وہ ملکی سطح پر کمتر محسوس کر سکتے ہیں۔‘
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 150 برس سے جاری گلوبلائزیشن، اجتماعیت یا پلورلزم کو صفحہ ہستی سے مٹا نہیں سکی۔ کیلنڈر آتے جاتے رہیں گے: زیادہ تر تو وہ تبدیل ہی ہوتے ہیں۔ اور بنی نو انسان میں اگر کوئی ایک چیز اچھی ہے تو وہ ہے تبدیلی
اب اگر آپ اجازت دیں تو مجھے ایک سالگرہ کی پارٹی میں جانا ہے کیونکہ 2023 آ چکا ہے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)