یہ 10 فروری 1973 کی صبح تھی جب پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے درجنوں اہل کاروں نے اسلام آباد میں واقع عراقی سفارت خانے پر چھاپہ مارا۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ انہوں نےسفارت خانے کی حدود میں واقع رہائش گاہ سے کریٹوں میں بند آتشیں اورجدید روسی اسلحہ برآمد کر لیا ہے
یہ ایک حساس معاملہ تھا، جو اگلے روز پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنا۔ لیکن بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ یہ واقعہ بلوچستان میں ایک ایسے فوجی آپریشن کی بنیاد بنے گا جس کی باز گشت پچاس برس گزرنے کے باوجود آج بھی محسوس کی جا رہی ہے
عراقی قونصلر نثار السعود کی رہائش گاہ سے ملنے والا یہ اسلحہ کس کی ایما پر اسلام آباد پہنچایا گیا تھا؟ اس کے مقاصد کیا تھے اور اس واقعے نے بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پر کیا اثرات ڈالے؟ اس رپورٹ میں انہی سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے
عراقی سفارت خانے سے ملنے والے اسلحے کا معاملہ کیا تھا؟
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں قوم پرستوں کی تحریک اور اس سے جڑی عسکریت پسندی کی بھی طویل تاریخ ہے۔ مگر عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد ہونے اور اس کے بعد بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی( نیپ) کی حکومت ختم ہونے سے صوبے اور قوم پرست تحریکوں کی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا
تاریخ کے اس دور سے کئی اور دل چسپ حقائق بھی جڑے ہیں۔ جن بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی 2006 میں فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی کارروائیوں میں شدت آگئی تھی, انہی اکبر بگٹی کو نیپ کی ‘ملک دشمن سازشوں’ کے الزام میں 1973 میں برطرف کی گئی حکومت کے بعد صوبے کا گورنر بنایا گیا تھا
بلوچستان کو صوبے کا درجہ ہی آزادی کے 23 سال بعد یعنی 1970 میں ملات ھا۔ 1970 کے عام انتخابات ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پہلے انتخابات تھے۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) نے سندھ اور پنجاب میں کامیابی حاصل کی۔ مگر بلوچستان میں وہ ایک بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی
بائیں بازو کے رجحانات کی حامل بلوچ و پشتون قوم پرست رہنماؤں کی جماعت ‘نیشنل عوامی پارٹی’ (نیپ) ںے اس وقت کے صوبۂ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ بلوچ قوم پرست رہنما عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے وزیرِ اعلٰی جب کہ میر غوث بخش بزنجو صوبے کے گورنر بنے
مگر وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمدگی کو جواز بناتے ہوئے "ملک مخالف سازشوں” کے الزام میں نیپ کی بلوچستان حکومت دس ماہ کے اندر ہی برطرف کر دی
وفاقی حکومت نے عراقی سفارت خانے سے اسلحہ ملنے کے بعد غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اسلحے کے معائنے کے لیے مدعو کیا۔ اس وقت کی اخباری رپورٹس کے مطابق سفارت خانے سے ملنے والے اسلحے میں 300 اے کے 47 بندوقیں اور 48 ہزار گولیاں شامل تھیں
پاکستانی میڈیا بالخصوص حکومتی اشاعتی ادارے نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات میں یہ شہ سرخیاں لگیں کہ یہ لوگ بھٹو حکومت کا تختہ الٹا کر پاکستان کی تقسیم چاہتے ہیں۔ اس مبینہ سازش کو ‘لندن پلان’ کا نام دیا گیا
اس واقعے کے بعد وزرا اور پی پی پی رہنماؤں نے نیپ کی قیادت پر الزام تراشی شروع کردی کہ عراق اور روس (اس وقت سوویت یونین) نیپ کی بلوچستان حکومت کے ذریعے بلوچ عسکریت پسندوں کو اسلحہ فراہم کرکے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کر رہے ہیں
نیپ کی قیادت نے عراقی اسلحے اوراس سے متعلقہ خبروں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کو غیر ملکی اسلحہ مطلوب ہوتا تو پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان ان کے لیے آسان راستے اور ذرائع تھے
یہ اسلحہ کس مقصد کے لیے تھا؟ یہ بات آج تک واضح نہیں ہوسکی ہے۔ مگر زیادہ تر تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ اسلحہ عراق کی ایما پر ایران کے بلوچ صوبے (جو اب سیستان وبلوچستان کہلاتاہے) کے بلوچوں کو فراہم کرنے کے لیے پہنچایا گیا تھا جس کا مقصد ایرانی حکومت سے عراقی کردوں کی حمایت کا انتقام لینا تھ۔
کئی برسوں بعد امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے عام کی گئی دستاویزات میں کہا گیا کہ صدام حسین کے پاکستان میں اپنے سفارت خانے کو ہتھیار بھجوانے کے مقاصد واضح نہیں تھے۔ لیکن عراق کی جانب سے کسی دوسرے ملک ہتھیار بھجوانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بغداد حکومت اپنے پڑوسی ممالک بحرین، عمان اور ایران اسلحہ بھیجتی رہی تھی
بلوچستان سے شائع ہونے والے اخبار ‘انتخاب’ کے ایڈیٹر اور تجزیہ کار انور ساجدی ان دنوں روزنامہ جنگ سے وابستہ تھے
انہوں نے بتایا کہ ‘عراقی اسلحے کا ڈرامہ’ اس لیے رچایا گیا تھا کہ صدام حسین نے ایران کی دُشمنی میں بغداد میں موجود ان جلا وطن بلوچ رہنماؤں کو آزاد بلوچستان سیکریٹریٹ قائم کرنے دیا تھا جو ایران اور پاکستان کی حکومتوں سے نالاں تھے
اُن کے بقول شاہِ ایران نے عراق کے آزادی پسند کرد رہنما ملا مصطفیٰ برزانی کو ایران میں پناہ دی تھی جو آزاد کردستان کی تحریک چلارہے تھے
ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور مصنفہ فاطمہ بھٹو اپنی کتاب ‘سونگز آف بلڈ اینڈ سورڈ’ میں لکھتی ہیں کہ بھٹو کی جانب سے نیپ کی صوبائی حکومت کو برطرف کرنے کی وجہ "شاہِ ایران کا دباؤ” تھا
فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ شاہِ ایران کو یہ خوف تھا کہ ایرانی بلوچستان میں مقیم بلوچ ان کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی تیاریاں کر رہے ہیں۔اس لیے انہوں نے حکومتِ پاکستان سے بلوچستان میں مداخلت کرنے کو کہا، جس کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر صوبے میں فوج کشی ہوئی۔”
بلوچستان حکومت کی برطرفی
عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد ہونے کے تین دن بعد اس واقعے کو جواز بنا کر وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت کو برطرف کردیا اور صوبے میں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے نواب اکبربگٹی کو صوبے کا گورنر بنا دیا
سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ پی پی پی کی مرکزی حکومت اور نیپ کی بلوچستان حکومت کے درمیان پہلے روز ہی سے اختلافات پیدا ہوچکے تھے۔ بعد میں یہ اختلافات دس ماہ تک چلتے چلتے نیپ کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے
بلوچ قوم پرستی کی تاریخ پر کتابوں کے مصنف تاج محمد بریسگ اپنی کتاب ‘بلوچ نیشنل ازم اینڈ اٹس اوریجن’ میں لکھتے ہیں کہ 1971 میں بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد دو صوبوں میں حکومت بنانے والی جماعت نیپ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش کی
اُن کے بقول نیپ کی قیادت نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طورپربھٹو کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اسی وجہ سے بھٹو اورنیپ کے درمیان تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے
اُن کا کہنا تھا کہ "بھٹو نے حکومت میں اپنی پوزیشن مستحکم ہونے کے بعد بلوچستان اورسرحد میں نیپ کی حکومتوں کومفلوج کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والی بیوروکریسی کے افسران کو نیپ کے وزرا سے تعاون نہ کرنے کا کہا۔”
تاج محمد بریسگ لکھتے ہیں کہ "مرکز کے رویے سے نالاں وزیرِاعلیٰ عطاء اللہ مینگل نے دیہی محافظ کے نام سے دیہی علاقوں کے لیے ایک پولیس فورس بنائی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت بلوچستان میں تعینات زیادہ تر سیکیورٹی اہلکار پنجاب اور سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کے تھے
لیکن پی پی پی حکومت نے نواب عطاء اللہ مینگل کی بنائی گئی فورس کو نجی فوج قرار دینا شروع کر دیا۔نیپ حکومت کے خاتمے کے بعد اس فورس کا نام تبدیل کر کے ‘بلوچستان ریزرو پولیس’ رکھ دیا گیا تھا
مبصرین کے مطابق ون یونٹ کے خاتمے کے بعد یہ طے کیا گیا تھا کہ دوسرے صوبوں سے آنے والے ملازمین اپنے اپنے صوبے میں واپس جائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا
بریسگ لکھتے ہیں کہ اس وقت پنجاب کے وزیرِاعلٰی غلام مصطفیٰ کھر نے بلوچستان میں موجود پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام بیورو کریٹس اور پولیس افسران کو واپس آنے کو کہا جس سے صوبے میں انتظامی بحران پیدا ہو گیا
تاج محمد بریسگ نے دعویٰ کیا کہ کوئٹہ، لسبیلہ اور پٹ فیڈر میں حالات خراب کرنے میں بھی بھٹو کی وفاقی حکومت کا کردار تھا
سیاسیات کے محقق ڈاکٹر فیروز احمد اپنی کتاب ‘ایتھنے سٹی اینڈ پالیٹکس ان پاکستان’ میں لکھتے ہیں کہ بھٹو نے بلوچستان سے نیپ کی حکومت ختم کرنا کا فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا تھا۔ اس سے پہلے انہوں نے صوبے میں مختلف لسانی اکائیوں اورقبائلی سرداروں کے مابین پائے جانے والے تضادات کا مطالعہ کیا
ان کے بقول نیپ کو بلوچستان کے چند بلوچ اوربراہوی سرداروں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن صوبے کی (اس وقت کی) 28 فی صد پشتون آبادی اور 12 فی صد سندھی آبادی کو نیپ کی بلوچ قوم پرستی نے متاثر نہیں کیا تھا
ڈاکٹر فیروز کے بقول یہی وجہ تھی کہ لسبیلہ کے جام اور پشتون قوم پرست رہنما عبدالصمد اچکزئی کی مدد سے بھٹو کی مرکزی حکومت نیپ سے پشتون اور سندھی عناصر کوعلیحدہ کرنے میں کامیاب رہی
فوجی آپریشن
بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کرنے کے چند ماہ بعد میر غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل اور نواب خیربخش مری سمیت نیپ کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ ان رہنماؤں پر حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا جسے ‘حیدرآباد سازش کیس’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
بھٹو کے ان اقدامات کی وجہ سے صوبے میں ایک گوریلا شورش شروع ہوئی، جس کا آغاز مئی 1973 میں سبی کے علاقے میں ایک فوجی قافلے پر حملے سے ہوا۔ اس حملے کے تین دن بعد بلوچستان میں آپریشن کے لیے فوج بھیج دی گئی
بلوچ طلبہ کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) اور بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ نامی ایک گوریلا تنظیم نے اس شورش میں فعال کردار ادا کیا۔ ان تنظیموں کو نواب خیر بخش مری کی بھرپور حمایت حاصل تھی جب کہ کسی حد تک عطاء اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو بھی ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے
بھٹو دور میں بلوچ قوم پرست قائدین اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں۔ بلوچ قوم پرستوں کے خلاف یہ کارروائیاں 1977 میں بھٹو حکومت کے خاتمے اور ضیا الحق کے مارشل لا کے نفاذ تک جاری رہیں
ضیا الحق نے مذاکرات کے نتیجے میں فوج کو بتدریج بلوچستان سے نکالا اور ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں کو رہا کیا۔ اس کے بعد بلوچستان 2001 کے اوائل تک پرامن رہا
ٹی ٹی پی نے گزشتہ برس ستمبر میں حکومتِ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد دس بڑے حملے کیے ہیں۔ ان میں سے آٹھ حملوں میں پولیس، فوج اور ایف سی کو نشانہ بنایا گیا
اثرات
بھٹو کے دور میں بلوچستان میں شروع ہونے والے آپریشن کے تجربات جاننے کے لیے خیربخش مری کے ساتھ ایک ملاقات کے حوالے سے فاطمہ بھٹو لکھتی ہیں کہ بلوچ رہنما نے انہیں بتایا کہ "بھٹو ہٹلر سے مختلف نہیں تھا۔ آپریشن کے آغاز میں مظالم چند مخصوص علاقوں میں ڈھائے گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ظلم کا دائرہ صوبہ بھر میں پھیل گیا تھا۔”
خیربخش مری نے فاطمہ بھٹو کو بتایا کہ بھٹو کی جانب سے شروع کیے گئے آپریشن سے قبل ہماری مزاحمت روایتی اور قبائلی تھی۔ لیکن اس کے بعد یہ ایک قومی شکل اختیار کر گئی۔”
وہ لکھتی ہیں کہ اگرچہ بھٹو بلوچستان میں طاقت کا استعمال کرنے والے پہلے رہنما نہیں تھے لیکن انہیں بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے تھا۔
انورساجدی کہتے ہیں کہ بھٹو نے نیپ کی حکومت ختم کرکے بلوچستان میں ایک شورش کو جنم دیا جو آج پچاس برس بعد بھی جاری ہے۔
ان کے بقول "پہلے بلوچ قوم پرست جماعتیں حقوق اورقلات ریاست کی بحالی کامطالبہ کرتی تھیں مگر بھٹو کے ان اقدامات سے بلوچستان کی شورش میں علیحدگی پسندی کا عنصر شامل ہو گیا۔”
‘بھٹو کو بتایا گیا کہ آپریشن محدود ہوگا لیکن یہ وسیع ہو گیا’
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینیٹر تاج حیدر کا کہناہے کہ اس وقت کے فوجی افسران کے کہنے پر بھٹو نے بلوچستان کے کچھ علاقوں میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے فوجی آپریشن شروع کیا تھا
انہوں نے کہا "اس وقت بلوچستان کے کچھ علاقوں میں امن وامان کی صورتِ حال خراب تھی۔ اس وقت کے فوجی افسران، خصوصاً ضیا الحق نے بھٹو کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ چھوٹی سطح پر شروع کیا جانے والا آپریشن جلد ہی ختم ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔”
تاج حیدر کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن اور نیپ پر پاپندی کی وجہ سے پی پی پی کے اندر بھی اختلافات پیدا ہوگئے تھے اورمعراج محمد خان جیسے رہنماؤں نے ان فیصلوں کی شدید مخالفت کی تھی
ڈاکٹر فیروز احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بلوچستان کی شورش، خصوصاً قوم پرستی کی مسلح تحریک مضبوط ہونے کے اثرات خود بھٹو کی حکومت پربھی پڑے اور فوج اورسویلین تعلقات میں فوج کا پلڑا بھاری ہو گیا۔
بشکریہ: وائس آف امریکہ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)