سندھ کے تعلیمی بورڈ نے حکومتی دباؤ کے باعث امتحانی نظام کو نجی کمپنی کے حوالے کرنے پر مشروط آمادگی ظاہر کر دی ہے
اس ضمن میں ملنے والی تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر سعید الدین کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں تعلیمی بورڈز کے چیئرمینز نے امتحانی سلسلے میں جزوی طور پر صرف ایک یا دو مضامین کی اسسمنٹ نجی آئی ٹی کمپنی کے حوالے کرنے پر اتفاق کر لیا ہے، تاہم اگر اس فیصلے کو حتمی شکل دی جاتی ہے تو اس کا اطلاق رواں کے بجائے آئندہ تعلیمی سیشن کے لیے ہونے والے 2024 کے امتحانات سے کرنے کی تجویز بھی دی ہے
اس بات پر اتفاق منگل کی دوپہر کراچی میں منعقدہ چیئرمینز بورڈ کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں امتحانی نظام کو آؤٹ سورس کے نام پر نجی پارٹی کے حوالے کرنے کی تجویز دینے والے چیئرمین لاڑکانہ بورڈ نسیم میمن آن لائن شریک تھے
اجلاس میں ان کی جانب سے تجویز سامنے آئی کہ اگر محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا اس سلسلے میں زیادہ دباؤ سامنے آتا ہے تو بہتر ہوگا کہ پہلے محکمے کے سامنے انرولمنٹ اور امتحانی فیسوں کے فنڈز کی ادائیگی کا مطالبہ رکھ دیا جائے گا
ذرائع کے مطابق اجلاس میں طے کیا گیا کہ چونکہ اس نجی کمپنی کی پیشہ ورانہ استعداد سے کوئی بھی واقف نہیں ہے اور نہ بورڈز کا موجودہ ایکٹ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ امتحانی نظام کو آؤٹ سورس کیا جائے، لہٰذا اگر اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ یا وزارت کا زیادہ دباؤ سامنے آیا یا کوئی قانون سازی کی گئی تو آزمائشی طور پر نویں اور گیارہویں جماعتوں کے فزکس اور کیمسٹری کے مضامین کی کاپیاں اسسمنٹ (ای مارکنگ) کے لیے انہیں دی جا سکتی ہیں
چونکہ اب امتحانات بہت قریب آ چکے ہیں اور درمیان میں صرف رمضان کا ایک مہینہ باقی ہے، لہٰذا ٹینڈر کے اجراء کے قانونی تقاضے امتحانات تک پورے نہیں ہو پائیں گے، لہٰذا ضروری ہوا تو آئندہ سیشن کے امتحانات کے لیے اس فیصلہ کا اطلاق کیا جائے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ مذکورہ فیصلے سے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کو آئندہ متوقع کسی اجلاس میں آگاہ کیا جائے
اجلاس میں شریک ایک رکن کا کہنا تھا کہ اب تک یہ واضح بھی نہیں ہے کہ موجودہ پیپر پیٹرن میں descriptive سوال و جواب پر ای مارکنگ کس طرح ممکن ہوگی؟
یاد رہے کہ محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے سندھ میں امتحانی نظام کو آؤٹ سورس کرنے کے سلسلے میں ایک خط کے ذریعے تعلیمی بورڈز کو ایک ہفتے قبل احکامات جاری کیے تھے، اور کہا تھا کہ اپنے فنڈز سے اس سلسلے میں ٹینڈر جاری کیا جائے اور فنڈز کم ہونے کی صورت میں محکمے کو اس سلسلے میں آگاہ کیا جائے جبکہ سندھ کے تعلیمی حلقوں کی جانب سے اس سلسلے میں شدید مخالفت سامنے آ رہی ہے
معاملہ کیا ہے؟
اس سے قبل سندھ میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات کو آئوٹ سورس کرنے سے متعلق معاملہ سامنے آیا تھا۔ محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز اور اس کی وزارت بورڈز کے سندھ اسمبلی سے منظور شدہ ایکٹ کے برخلاف انعقاد سے لے کر اسسمنٹ تک پورا امتحانی نظام ٹھیکے پر نجی پارٹی کو دینا چاہتی ہے اور ایک نجی کمپنی کو نوازنے کے لیے سندھ کے تمام چیئرمینز بورڈز پر شدید دباؤ بھی ڈالا جارہا ہے تاکہ سال 2023 کے سالانہ امتحانات کا کچھ حصہ ’ریڈ مارکر‘ نامی کمپنی کے حوالے کر دیں، جبکہ اس کمپنی کا سندھ سے تعلق بھی نہیں ہے
ایک چیئرمین بورڈ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کو بتایا تھا ”قریب دو ہفتے قبل محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری نے اجلاس بلا کر وہاں مذکورہ کمپنی کی ایک خاتون نمائندہ سے بریفنگ کرائی۔ اس کمپنی کا خواہش تھی کہ چار مختلف حصوں میں ہونے والے میٹرک اور انٹر کے امتحانات کے ابتدائی تین مراحل اسی سال سے ان کے حوالے کر دیے جائیں، جس میں پہلے مرحلے میں امتحانی پرچوں کی تیاری، دوسرے مرحلے میں ان کا انعقاد اور تیسرے مرحلے میں امتحانی کاپیوں کی اسسمنٹ شامل ہو، جبکہ چوتھا اور آخری نتائج کے اجراء کا مرحلہ بورڈز کے پاس ہی رہنے دیا جائے“
پہلی بار معاملہ سامنے آنے پر چیئرمین بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ جب لاکھوں طلبہ کے امتحانات میں شرکت کے انتظامات کے حوالے سے ان سے دریافت کیا گیا تو اس ادارے کے پاس کوئی پیشگی ہوم ورک نہیں تھا، جس پر سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا کہنا تھا کہ کچھ ایسا کریں کہ آزمائشی طور پر انہیں کسی ایک فیکلٹی کے امتحانات دے دیے جائیں یا پھر جن بورڈز کے پاس طلبہ کا والیوم کم ہے، وہ امتحانات ان کے حوالے کریں
واضح رہے کہ ابھی اس اجلاس کو قریب دو ہفتے ہی ہوئے تھے کہ محکمہ نے بورڈز کو لکھ کر بھیجا کہ وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے منظوری دے دی ہے، لہٰذا امتحانات آؤٹ سورس کر دیے جائیں، جس پر تمام چیئرمینز و کنٹرولر حیران رہ گئے
سندھ کے ایک بورڈ کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہمارے ایکٹ میں ایسی گنجائش موجود نہیں کہ ہم امتحانات کو نجی پارٹی کے حوالے کریں یا پھر آؤٹ سورس کر دیں
ایک سوال کے جواب میں مذکورہ چیئرمین کا کہنا تھا کہ بین السطور میں یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ کوئی اور کمپنی تو شاہد ٹینڈر میں نہ آئے، لہٰذا ٹینڈر بھی یہی لوگ لے جائیں گے، مذکورہ چیئرمین نے سوال کیا کہ کیا اگر پولیس کا محکمہ صحیح کام نہیں کرے گا یا کرپشن کرے تو کیا صوبے کی سیکیورٹی کسی بھی ادارے کو سونپ دیں گے لیکن بورڈ میں ایسا ہی ہونے جا رہا ہے
واضح رہے کہ یہ معاملہ بظاہر چیئرمین لاڑکانہ بورڈ نسیم میمن کے ایک خط سے شروع ہوا تھا، جس میں انہوں نے محکمے کو سفارش کی تھی کہ کرپشن سے پاک امتحانات و نتائج کے لیے امتحانات آؤٹ سورس کر دیے جائیں، تاہم دیگر حاضر و سابق چیئرمین بورڈز کا کہنا ہے کہ ایکٹ میں ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ امتحانات کو آٹ سورس کیا جائے
سابق چیئرمین حیدرآباد بورڈ ڈاکٹر محمد میمن کا اس سلسلے میں کہنا تھا ”یہ پورا معاملہ نہ صرف خیال اور تصور سے باہر ہے بلکہ بورڈ کے ایکٹ کے برخلاف ہے، ایسا کرنے سے پہلے بورڈ کے ایکٹ میں ترمیم لازمی ہے اس فیصلے سے پیغام جارہا ہے کہ اب خود حکومت کا اپنے اداروں پر سے اعتماد اٹھ گیا“
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہی نے بھی ریڈ مارکر نامی کمپنی کی جانب سے امتحانات کرانے میں دلچسپی اور بریفنگ کی تصدیق کی تھی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر ایکٹ میں گنجائش نہیں ہے تو ممکن ہے آئندہ چند روز میں ایکٹ میں تبدیلی ہوجائے جس کے بعد آئی بی اے، آغا خان، ریڈ مارکر یا کسی بھی ادارے کے ذریعے یہ ممکن ہو سکتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ بورڈز میں کرپشن ہے ہر شخص ہوسٹنگ کے چکر میں لگا ہوا ہے پوزیشن فروخت ہوتی ہیں لہذا ایسا کرنا ہوگا تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ پولیس کا محکمہ کرپشن ریٹنگ میں سب سے اوپر ہے تو کہا سیکیورٹی پرائیویٹ پارٹی کو ڈی جاسکتی ہے جس پر وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت میں تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی کے اختیارات اب وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس بھی نہیں ہیں بلکہ محکمہ کے وزیر ہر فیصلہ میں بااختیار ہیں اور جب سے وزارت ان کے پاس ہے کسی بھی بورڈ میں میرٹ پر اشتہار کے ذریعے کنٹرولر آف ایکزامینیشن یا سیکریٹری کا تقرر نہیں ہوسکا ہے، بعض تعلیمی بورڈ میں چیئرمینز بھی ایڈہاک ہیں۔