بلوچستان کا صدر مقام کوئٹہ چار پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے، جس میں تکتو، ذرغون، مہر چلتن شامل ہےیں کہتے ہیں کہ اس شہر کو انگریز اس کی خوبصورت موسم کی وجہ سے پسند کرتے تھے، اور ماضی قریب میں ہی ایک موسم تھا، جس کی وجہ سے ملک کے دیگر شہروں سے لوگ یہاں پکنک منانے کے لیے اکثر کوئٹہ کا رخ کرتے تھے
کوئٹہ کے شمال میں واقع کوہ تکتو کا پہاڑی سلسلہ مارخوروں کا مسکن ہے، لیکن سال 2000ع میں یہاں مقامی شکاریوں کی جانب سے مارخوروں کو نشانہ بنانے کے بعد کچھ اس جانور کی نسل کو معدومی کو خطرہ درپیش تھا، لیکن پھر کچھ لوگوں نے اسے معدوم ہونے سے بچانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں
فضل محمد ان ہی افراد میں شامل ہیں اور محکمہ وائلڈ لائف میں بحیثیت گیم واچر ملازمت کرتے ہیں
فضل محمد کہتے ہیں ”میرا کام کوہ تکتو میں جانوروں کی حفاظت کرنا ہے۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ یہاں پر لوگ شکار کر کے مارخور کی نسل کو ختم کر رہے ہیں۔ جس طرح اس سے قبل اڑیال ہرن کی نسل معدوم ہو گئی تھی، جس کو روکنے کی ضرورت ہے“
وہ بتاتے ہیں ”2000ع میں ہم نے دیکھا کہ کوہ تکتو جہاں پر کبھی مارخور ہرن اور دوسرے جانوروں کی بڑی تعداد پائی جاتی تھی وہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے، جس کو نہ روکنے پر یہاں پر مارخور کی نسل معدوم ہوجائے گی، جس پر ہم نے اس کو روکنے کے لیے قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا“
فضل کا کہنا ہے ”اس مقصد کے لیے ہم نے اس پہاڑ کے قریب آباد مکینوں سے رابطہ کیا اور انہیں اس مسئلے کی سنگینی اور آنے والے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے ایک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا“
انہوں نے بتایا ”باہمی مشورے سے ہم نے ’تکتو ورورگلوی‘ کے نام سے تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ مارخور کی نسل کو اس کے ذریعے بچانے کی جدوجہد کی جا سکے“
فضل کے مطابق ”جب ہم نے تنظیم بنائی تو اس کے بعد علاقہ مکینوں سے ملاقات کر کے انہیں مارخور کی نسل کو درپیش خطرے اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا کہ یہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اور ہم نے اسے آنے والی نسلوں کے لیے بچا کر رکھنا ہے“
وہ بتاتے ہیں ”ہماری اس کوشش سے لوگ آہستہ آہستہ قائل ہونے لگے اور وہ ہمارے ساتھ تعاون پرآمادہ ہوئے، جس کی وجہ سے اس پہاڑ پر مارخور کے شکار کو روکنے کا فیصلہ کیا“
فضل نے بتایا ”ہماری کوششوں اور علاقے کے عوام کے تعاون سے نہ صرف یہ نسل بچ گئی، بلکہ اس کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔ جب ہم نے 2003ع میں سروے کیا تو ہم نے اس وقت 160 مارخور دیکھے، اس کے بعد 2018 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر جب سروے کیا تو اس وقت یہ تعداد 858 تک پہنچ چکی تھی“
فضل بتاتے ہیں ”ہم لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے مختلف جگہوں میں جا کر لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اور ان کو جنگلات اور جنگلی حیات کی افادیت اوراس کے بچاؤ کے لیے آگاہی دیتے ہیں، جس کی وجہ سے اب لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی حفاظت ضروری ہے“
فضل کا کہنا ہے ”کوہ تکتو کا پہاڑی سلسلہ کوئٹہ کے شمال سے ہو کر زیارت اور مزید آگے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں مختلف جانور پائے جاتے ہیں، جن میں مارخور، بھیڑیا، گیدڑ اور چیتے بھی ہیں، جنہیں ہم نے دیکھا نہیں لیکن ان کی آواز سنی ہے“
ان کے مطابق ”ہم مارخور کے تحفظ کے ساتھ اس علاقے میں صنوبر کے جنگلات کی کٹائی روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم ان جڑی بوٹیوں کی حفاظت کے لیے اس پہاڑی سلسلے میں جانوروں کو چرنے سے منع کرتے ہیں، جو یہاں پر اکثر اپنے جانوروں کو لاتے ہیں“
فضل کا کہنا ہے ”ہم نے تنظیم بنائی اور لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کرنا شروع کیا تو پہلے انہوں نے اس کی مخالفت کی اور ہمارا ساتھ دینے سے انکار کیا لیکن بعد میں جب انہوں نے اس علاقے کا دورہ کر کے مارخور اور دوسرے جانوروں کو دیکھا تو انہوں نے نہ صرف اس کی افادیت کو جانا اور جانوروں کی تعداد میں اضافہ دیکھا تو کہا کہ تنظیم واقعی اچھا کام کر رہی ہے، اب یہ لوگ ہمارے ساتھ ہیں“
یاد رہے کہ دو سال قبل چھبّیس مارچ کو بلوچستان سے یہ خبریں سوشل میڈیا میں آئیں، جن میں کہا گیا تھا کہ صوبے کے پہاڑی سلسلے تکتو میں مارخور کا غیر قانونی شکار کیا جارہا ہے۔ دراصل مارخور کے شکار کی ایک وڈیو سامنے آنے کے بعد پشین کے پہاڑی سلسلے میں غیر قانونی شکار کا معاملہ منظر عام پر آیا تھا۔ محکمہ جنگلی حیات کے اعداد و شمار کے مطابق تکتو کے پہاڑی سلسلے میں اس وقت تک آٹھ سو سے زاید مارخور تھے۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ بعض افراد کئی برس سے مارخور کا غیرقانونی شکار کر رہے ہیں اور زندہ مارخور پکڑ کر ایک تا دو لاکھ روپے میں فروخت بھی کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ علاقہ کوہ تکتو کے پہاڑی سلسلے کا حصہ ہے، جو کوئٹہ، پشین اور زیارت کے اضلاع سے گزرتا ہے
علاوہ ازیں کوہ تکتو میں گزشتہ سال بارشیں کم پڑنے کی وجہ سےمارخوروں میں چیچڑیوں کی ایک خطرناک بیماری بھی پیدا ہوئی، جس کی وجہ سے کئی مارخور مر گئے اور کئی مارخور بیمار بھی ہو گئے۔ سلیمان مارخور ایک نایاب نسل اور پاکستان کا قومی جانور ھے۔