بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اَسی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پنج پائی کے علاقے میں ایک انسانی اسمگلر، جنہیں عام طور پر ایجنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، کا کہنا ہے ”آخری دفعہ میں نے ٹو ڈی گاڑی میں چودہ بندے بٹھا کر چیک پوسٹ پار کی تھی۔ اور اگر چھوٹی عمر کے لڑکے وغیرہ ہوں تو ہم انیس تک لوگ بھی بٹھا لیتے ہیں۔۔۔ جب بات غیرقانونی طریقے سے لے جانے کی ہو تو پھر بات انسانیت سے بہت آگے نکل جاتی ہے“
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کی ٹیم کو کوئٹہ میں موجود اس انسانی اسمگلر کا پتہ یورپی ملک بیلجیئم میں مقیم ایک ایجنٹ نے فراہم کیا تھا۔ ملاقات کے دوران مذکورہ ایجنٹ متعدد مرتبہ اپنی شناخت یا چہرہ کسی طور پر ظاہر نہ کرنے کی تاکید کرتا رہا
رابطہ کرنے کے بعد اس ایجنٹ نے بی بی سی کی ٹیم کو پنج پائی کے ایک ویران علاقے میں پہنچنے کو کہا جہاں انہیں ایک، دو راہگیروں کے علاوہ کوئی نظر نہ آیا۔ اس علاقے میں زیادہ تر گھر مٹی کے بنے ہوئے تھے اور جہاں ٹیم کو اس ملاقات کی غرض سے بٹھایا گیاز وہ بیٹھک بھی مٹی سے بنی ہوئی تھی
ملاقات کے آغاز میں ہی انھوں نے ٹیم کو آگاہ کر دیا تھا کہ وہ غیرقانونی طریقے سے یورپ پہنچنے کے خواہشمند پاکستانی شہریوں کو ایران کی سرحد تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں، جہاں سے آگے دیگر اسمگلرز کے ہاتھوں ان افراد کو فروخت کر کے اُن کا کام ختم ہو جاتا ہے
حالیہ دنوں میں غیر قانونی طریقے سے اٹلی جانے والوں کی کشتی کو پیش آنے والے واقعے کے بعد ان انسانی اسمگلروں کے حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ حکومت اور ذمہ دار ادارے آخر ان افراد کو اپنی گرفت میں کیوں نہیں لیتے؟
پاکستان کے مختلف شہروں سے یورپ جانے کے خواہشمند شہری صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مختلف بس اڈوں اور دیگر مقامات پر پہنچتے ہیں۔ جہاں پر پہلا مشکل کام ان کو ایران کی سرحد تک پہنچانے کا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ افراد کوئٹہ سے ایران پہنچائے جاتے ہیں، جہاں سے آگے ایران سے ترکی اور ترکی کے بعد یورپ پہنچانے کا غیرقانونی کام ہوتا ہے۔ اور بی بی سی کی ٹیم سے ملنے والے انسانی اسمگلر کے بقول ”اس کام میں خطرہ تو بہت ہے مگر بڑی بات یہ ہے کہ جان کی گارنٹی کوئی نہیں“
ایجنٹ نے بتایا ”کوئٹہ میں واقع جبلِ نور اور موسیٰ کالونی غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کے خواہشمند افراد کی سب سے بڑی منڈیاں ہیں۔ یہاں صبح سویرے لوگوں کی نیلامی ہوتی ہے۔ اگر بلوچ، پنجابی اور سندھی ہیں تو ایران سرحد تک پہنچانے کے لیے فیس پانچ ہزار روپے فی بندہ ہے لیکن اگر کوئی ہزارہ قومیت کا ہے تو ریٹ آٹھ ہزار تک ہوتا ہے۔ ہمارا کام یہاں سے لوگوں کو اٹھا کر ایران کے بارڈر تک لے جانا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اتنا رش ہوتا ہے کہ ایک کے بجائے دو بار نیلامی کرنی پڑتی ہے۔۔موسیٰ کالونی اور جبلِ نور کے علاوہ نیلامی کا کام ہزار گنجی میں بھی ہوتا ہے“
نیلامی کرنے کا طریقہ کار بتاتے ہوئے ایجنٹ نے دعویٰ کیا کہ یہاں پر سوزوکی وین میں پردے لگا کر یورپ جانے کے خواہشمندوں کو لایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کوئٹہ میں موجود ایجنٹ اور ایران تک لے جانے والا ایجنٹ اس سوزوکی میں بیٹھے لوگوں کو دیکھ کر اُن کی شناخت کرتے ہیں۔ اور پھر اُن کی قومیت کے بنا پر پیسے طے کیے جاتے ہیں
انہوں نے بتایا ”زیادہ تر لوگ پنجاب اور خیبر پختونخوا سے آتے ہیں۔ باہر سے آنے والوں کو ہم تاکید کرتے ہیں کہ وہ پٹھانی ٹوپی یا پھر بلوچی کپڑے پہنیں۔ ہزارہ قومیت کے افراد سے پیسے اس لیے زیادہ لیتے ہیں کیونکہ تنظیم کا خطرہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ کالعدم تنظیم کے لوگوں نے ہماری گاڑیاں چیک کیں“
ایجنٹ نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ”اس کے بعد نیلامی میں انہیں خریدنے والا ایجنٹ انہیں ٹرکوں، کوچ یا بسوں کے ذریعے سرحد کے نزدیک پہنچاتا ہے۔ جو لوگ سب سے کم پیسے دیتے ہیں جیسا کہ دو سے تین ہزار، اُن کو بس کی ٹُول کِٹ میں ڈال کر لے جاتے ہیں۔ ٹُول کِٹ بس کے نیچے ایک حصہ ہوتا ہے، جہاں لوگوں کا سامان رکھا جاتا ہے۔ یہ کُھلی جگہ ہوتی ہے“
ٹوُل کِٹ کے علاوہ بس کے ایئر کنڈیشنر کی جگہ پر بھی لوگوں کو کسی طرح گھسا کر چیک پوسٹ پار کروائی جاتی ہے۔‘ اس سوال پر کہ کیا لوگ ایسی جگہوں پر بیٹھنے کو تیار ہو جاتے ہیں؟ اسمگلر نے مسکراتے ہوئے کہا ”بالکل، لوگ مجبور ہوتے ہیں نا۔ مان جاتے ہیں“
ایجنٹ نے بتایا ”چیک پوسٹ کامیابی سے پار کر کے ان افراد کو ایرانی سرحد کے نزدیک پہلے سے طے شدہ مقامات پر اتار دیا جاتا ہے۔ یہاں سے آگے انہیں راستہ بتایا جاتا ہے، احتیاطی تدابیر بھی اور پھر انہیں آگے بھاگنے کو کہا جاتا ہے، یہاں اگلا ایجنٹ اُن کا انتظار کر رہا ہوتا ہے“
اس موقع پر اس انسانی اسمگلر نے واضح کرتے ہوئے بتایا کہ کئی افراد اس صورتحال میں ڈر جاتے ہیں اور یورپ جانے کا اپنا منصوبہ ترک کرتے ہوئے واپسی کی راہ لیتے ہیں اور اگلا ایجنٹ صرف ان لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے، جو اُن تک پہنچ پاتے ہیں
بار بار چیک پوسٹ کا تذکرہ آنے پر جب ان سے پوچھا گیا کہ چیک پوسٹ پر کھڑے اہلکار کیا انہیں نہیں روکتے؟ خاص کر جب گاڑی میں اُس ایجنٹ کے بقول ایک وقت میں انیس لوگ بھی لے جائے جاتے ہیں؟ اس پر اس اسمگلر نے کہا ”چیک پوسٹ پر بیٹھا اہلکار اگر علاقے کا اور جان پہچان والا ہو تو معاملہ پانچ ہزار روپے تک میں بھی طے پا جاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو زیادہ سے زیادہ تیس ہزار روپے تک بھی خرچہ ہو جاتا ہے۔ پیسے لے کر یہ لوگ جانے دیتے ہیں اور اگر کوئی چیک پوائنٹ پر زیادہ سختی ہو تو ہم پہلے ہی لوگوں کو گاڑی سے اُتار خفیہ راستوں سے بھاگنے کو کہہ دیتے ہیں اور دوسرے پوائنٹ پر ملنے کا کہتے ہیں“
ایجنٹ کے مطابق ”اکثر لوگ مشکل راستہ دیکھ کر ڈر جاتے ہیں اور اپنا ارادہ بدل لیتے ہیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ یہ کام ایک ہی دن میں ہو جائے لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ایسا نہ ہو پائے تو ہم خالی جگہ یا کھنڈر دیکھ کر تمام لوگوں کو باندھ دیتے ہیں۔ باندھنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر ان میں سے کوئی بھاگ جائے یا ایسے افراد کی نقل و حرکت کی وجہ سے حکام کو پتہ چل جائے تو ہمارا سارا سسٹم درہم برہم ہو جاتا ہے“
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ایجنٹ نے مزید بتایا ”کبھی کبھار وقت پر پیسے نہ ملنے پر میں خود بھی لوگوں کو راستے میں چھوڑ دیتا ہوں۔ آپ سمجھیں نا، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے کہ اگر اُن کے پاس پیسے آگے جانے اور وہاں دینے کے پیسے نہیں ہیں تو۔۔“
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات سختی یا کسی اور وجہ سے اگر بس یا کوچ کے ذریعے ان افراد کو سرحد تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو پرائیویٹ چھوٹی گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ’گاڑی میں ویسے تو چار لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے تو ہم بارہ بھی بٹھا لیتے ہیں۔ چیک پوسٹ پر علاقے کا بندہ ہو تو پیسے کم دینے پڑتے ہیں اور اگر باہر کا تو زیادہ“
ایک سوال پر انکوں نے الزام عائد کیا کہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کا ذمہ دار ادارہ جیسا کہ ایف آئی اے کے اہلکار بھی انہیں زیادہ تنگ نہیں کرتے کیونکہ ان کے کچھ لوگ بھی اس میں اپنا حصہ مانگتے ہیں، جو ہم انہیں دیتے ہیں
انسانی اسمگلر سے ہونے والی ایک میٹنگ کے بی بی سی کی ٹیم نے ایف آئی اے کے دفتر کا رُخ کیا، جہاں موجود افسر نے سکیورٹی اہلکاروں پر لگائے گئے تمام تر الزامات کی تردید کی، تاہم انہوں نے اس طریقہ کار کی ضرور تصدیق کی، جو انسانی اسمگلر نے لوگوں کو ایران کی سرحد تک پہنچانے کا بتایا تھا
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے کوئٹہ بشیر سومرو نے دعویٰ کیا ”حالیہ دنوں میں غیرقانونی طریقے سے باہر جانے والے اور پھر ڈی پورٹ ہونے والوں کی تعداد میں کافی کمی ہوئی ہے اور اس کی واحد وجہ ایف آئی اے کا انسانی اسمگلرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہے۔ بلوچستان میں بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں ایف آئی اے تو کیا فوج تک کے اہلکار نہیں جا سکتے کیونکہ وہاں حالات کافی خراب ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ نو گو ایریاز ہیں، جہاں ہم تو دور کی بات سکیورٹی اہلکار تک نہیں جا سکتے۔ اور انسانی اسمگلر زیادہ تر ان ہی علاقوں سے آپریٹ کرتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں ان علاقوں میں موجود انسانی اسمگلروں کی لسٹیں ایف سی کے علاوہ فوج کو بھی دی ہیں تاکہ ان کا مکمل خاتمہ ہو سکے“
پنج پائی میں موجود انسانی اسمگلر کا دعویٰ ہے کہ اٹلی میں ہونے والے حالیہ حادثے کے باوجود اُن کا کام چل رہا ہے
ٹیم نے جب ایجنٹ سے پوچھا کہ کیا پاکستان میں کبھی انسانی اسمگلنگ کم ہو سکے گی؟ جس پر انہوں نے تھوڑا توقف کرنے کے بعد جواب دیا ”کبھی بھی نہیں۔ بہت مشکل ہے۔“