تحفظ ماحول کے لیے ماحولیاتی انصاف کی عدالتوں کا قیام ناگزیر

عبدالستار

بارودی سرنگوں کے خاتمے اور فوجی اڈوں میں کمی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی انصاف کے لیے عدالتوں کا قیام تحفظ ماحول کی ضمانت ہے۔ جزا اور سزا کے قانون کی عدم موجودگی میں جنگی جنون کا شکار لوگ ماحولیات کا جنازہ نکالتے رہیں گے

دنیا کے مخلتف ملکوں میں لاکھوں ایکٹر زمین پر بچھائی گئی بارودی سرنگوں کا خاتمہ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کے لیے اقوام متحدہ سمیت تمام متعلقہ ادارے حرکت میں آئیں۔ اگر بارودی سرنگوں کو ختم کر دیا جاتا ہے تو اس سے نا صرف بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے بلکہ دنیا میں لاکھوں ایکڑ زمین بھی قابلِ کاشت ہو جائے گی۔ ان اقدامات سے کروڑوں انسانوں کے لئے خوراک بھی پیدا کی جا سکتی ہے اور ماحول کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے

جنگی مشقوں پر پابندی

پوری دنیا سمندری آلودگی کا شکار ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ فوجی مشقیں ہیں۔ اس تمام تر خطرناک آلودگی کے باوجود روس، امریکہ، برطانیہ، فرانس، بھارت، چین، پاکستان اور اسرائیل سمیت دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں، جو آج بھی سمندروں میں مختلف طرح کے ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں اور وہاں مشقوں کے ذریعے زہر آلود مواد پھینک رہے ہیں، جس سے نہ صرف آبی حیات کو خطرات ہیں، بلکہ انسانوں کی ایک کثیر آبادی جو اس آبی حیات پر روزگار کے لیے انحصار کرتی ہے یا اپنی خوراک کے ذرائع پیدا کرتی ہے، ان کی زندگیوں کے لیے بھی خطرات پیدا کر رہے ہیں

ضرورت اس امر کی ہے کہ سمندر میں ہر طرح کے ہتھیاروں کے تجربات پر موثر انداز میں پابندی لگائی جائے۔ سمندروں اور آبی وسائل کو جنگی مشقوں کے لئے ممنوع قرار دیا جائے۔ پوری دنیا میں سمندروں کی صفائی کے لیے سائنسدانوں کی مدد لی جائے اور اس کے لئے ایک بین الاقوامی فنڈ قائم کیا جائے۔ کائنات کا ایک بڑا حصہ آج بھی سمندر پر مشتمل ہے جبکہ دنیا کی تین ارب سے زیادہ آبادی روزگار اور خوراک کے لیے سمندر پر انحصار کرتی ہے

فضائی افواج کی تعداد میں کمی

بالکل اسی طرح دنیا بھر کی فضائی افواج پر جو پیسہ خرچ ہو رہا ہے، اس سے نہ صرف فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے بلکہ سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں سمیت کئی ایسے امراض جنم لے رہے ہیں، جو لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہم خطیر رقم خرچ کر کے اپنے ہی لیے موت کا سامان کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں فضائی افواج کی تعداد کو کم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی نئی جنگ کی منصوبہ بندی نہ کی جائے

فوجی اڈوں کی بندش

اسی طرح آلودگی کا سبب بننے والے فوجی اڈوں کو بند کیا جائے، خصوصاً وہ جو سرد جنگ لئے دوران بنائے گئے تھے۔ خلائی فوج بنانے کے ارادوں کو ترک کیا جائے جب کہ خلا میں جاسوسی کے نظام کو بھی تحلیل کیا جائے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین، جرمنی، اٹلی، روس، بھارت اور دوسرے ممالک مل کر خلائی منصوبوں کو انسانیت کے وسیع مفادات کے لئے استعمال کریں

نصاب میں شمولیت

لیکن یہ سب اسی وقت ہوگا کہ جب ہم جنگ کی ہولناکیاں اپنے آنے والی نسلوں کو پڑھائیں گے۔ اگر ہم اپنے نصاب میں جنگ اور اس کی ہولناکیوں کو پڑھائیں، تو ہماری اگلی نسلیں ان سے نفرت کرنے پر مجبور ہونگی اور دنیا کو مسائل کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی تگ و دو کریں گی

ماحولیاتی انصاف کی فراہمی
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ کسی بھی جنگ یا خانہ جنگی کا سب سے بڑا خاموش شکار ماحول ہوتا ہےلیکن اس ماحول کو نقصان پہنچانے والے ہر دفعہ قانون اور بین الاقوامی اصولوں کی گرفت سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مزید موثر قانون سازی کی جائے اور جس طرح بین الاقوامی عدالت میں جنگی جرائم پر مقدمے چلائے جاتے ہیں بالکل اسی طرح ماحولیاتی عدالتیں بنائی جائیں، جو ان ممالک یا سیاسی رہنماؤں پر مقدمہ چلا سکیں، جو جنگوں میں ملوث ہوں اور ان جنگوں کی وجہ سے اگر ماحولیات کو، دریاؤں کو، سمندروں کو، جنگلات کو، فصلوں کو، پہاڑوں کو نقصان پہنچتا ہے تو سیاسی رہنماؤں پر اس طرح کے مقدمات چلائے جائیں اور ان کو سزا دی جائے

جب تک جزا اور سزا کا قانون نہیں ہوگا، کچھ جنگی جنون میں مبتلا لوگ اسی طرح ماحولیات کا جنازہ نکالتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو رہنما خطرناک ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دیتے ہیں، جس سے ممکنہ طور پر ماحولیات کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوسکتا ہے، ایسے رہنماؤں کے لیے بھی جنگی قوانین کی طرز پر قوانین بنائے جائیں اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا جائے۔ جنگوں کے بعد ماحولیات کو جو نقصان پہنچتا ہے اس نقصان کی وجہ سے اگر انسانوں کی ہلاکت ہوتی ہیں یا لوگ مختلف امراض میں مبتلا ہوتے ہیں، تو اس کے مقدمات بھی متحرب ریاستوں کے رہنماؤں پر بنائے جانے چاہئیں۔ خانہ جنگی کی صورت میں جتنے بھی جنگی سردار یا متحرب فریقین ہیں، سب پر جنگی جرائم کے تحت مقدمات چلنے چاہئیں تاکہ سزا کا خوف انہیں روک سکے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close