چڑیل (سرائیکی افسانہ)

پروفیسر حبیب موہانہ (ترجمہ: عبیداللہ کھوکھر)

ایک مرتبہ دادی اپنے پوتے پوتیوں کو چڑیل والا قصہ سنا رہی تھی ۔ بچوں نے دادی سے پوچھا کہ چڑیل کی شکل کیسی ہوتی ہے؟ دادی نے ان کو بتایا کہ چڑیل کے بال اس طرح کے ہوتے ہیں اور دانت اس طرح۔۔ لیکن بچوں کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ آخر تنگ آ کر دادی نے کہا، ”چڑیل ماسی ملوکی کی طرح ہوتی ہے!“ اس کے بعد سارے گاؤں کے بچے ماسی ملوکی کو چڑیل کہنے لگ گئے۔

ایک دن ملوکی کا بوڑھا خاوند بکریاں چرانے گیا ہوا تھا ۔ تپتی دوپہر تھی، ملوکی چھپر کے نیچے بیٹھی چٹائی بُن رہی تھی۔ اسے پیاس لگی، اس نے جھجری کو منہ سے لگایا کہ اچانک چھپر کے کریٹے والی کڑیوں پر اس کی نظر پڑی۔ ایک کڑی کے ساتھ چترا سانپ لٹک رہا تھا۔ اس نے جھجری کو پھینکا ”سانپ ہے۔۔۔ سانپ ہے!“ ننگے سر، چیختی چلاتی اور دوڑتی وہ ایک گھر میں جا گھسی۔ گھر کی عورتیں اور مرد کھیتوں پر گئے ہوئے تھے اور گھر میں بچے اور لڑکیاں تھیں، جو کہ چھپن چھپائی کھیل رہے تھے۔

”سانپ ہے۔۔۔ سانپ ہے۔۔۔ ہمارے گھر مشکی سانپ ہے! جلدی۔۔۔ کوئی ہے؟“ ماسی ملوکی نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ زور زور سے کہا

بچوں اور لڑکیوں نے جب ملوکی کے کھلے بال، کانپتے ہاتھ اور خوف سے کھلی آنکھیں دیکھیں تو وہ چیخیں مارتے کوٹھے میں بھاگ گئے اور اندر سے کنڈی لگا دی۔۔ پھر رو رو کر چلانے لگے ”چڑیل مارتی ہے، چڑیل کھاتی ہے!“

یہ کوئی عصر کا وقت ہوگا، ماسی ملوکی کوٹھے کی بنیادوں پر لیپائی کر رہی تھی۔ چاچا شمشو سوٹی ٹیکتا گزرا ”چڑیل! حال سناؤ؟“

”شمشو، تم چھوٹے تو نہیں جو مجھے چڑیل کہتے ہو۔۔ سفید تمہاری داڑھی ہے۔۔“

”سارا جہاں تمہیں چڑیل کہتا ہے، کوئی ایک میں کہتا ہوں؟“

”ساری دنیا کہے، پر تم تو نہ کہتے!“

* * * * * *

کوئی پچپن سال پہلے کی بات ہے۔ دامان میں قحط سالی ہوئی۔ لوگوں کو کھانے کے لیے گندم نہیں ملتی تھی۔ ملوکی کا باپ مصطا ایک بستی میں رہتا تھا۔ جب اس کے بچے بھوکے ہوئے، تو وہ اپنے دوست علمے کے پاس موسیٰ زئی آیا اور اس سے گندم کا سوال کیا۔

”میرے پاس بھی گندم ختم ہو چکی ہے۔ میرے ایک کھیت میں تربوز اور کچھ باجرہ ہے۔۔ ہم بھی یہ کھاتے ہیں اور اگر تمہارا دل کہے تو تمہیں اور تمہارے بچوں کو بھی کھلا سکتے ہیں“ علمے نے جواب دیا

ملوکی کے باپ نے اپنے بچوں کے ساتھ بستی سے ہجرت کی اور موسیٰ زئی کی مشرقی طرف علمے کے ٹیٹکوں اور باجرے والے کھیت کے کنارے، پگڈنڈی کے ساتھ بنے کچے کوٹھے (بھورے) میں رہائش اختیار کی۔ قحط سالی کے مارے خاندان کا یہ ایک ہی کام تھا، ٹیٹک اور باجرے کے کچے سٹوں سے پیٹ بھرنا۔۔ کھانے کی ان کے پاس کوئی دوسری چیز نہیں تھی۔ بس وہ کبھی باجرے کے کچے سٹے کو ہتھیلی پر مروڑ کے پھانک لیتے، کبھی انہیں بھونتے، کبھی ٹیٹکوں کو ابال کر، ان پر نمک چھڑک کر کھاتے تھے۔۔ اور کبھی کالے دیگچے میں، ٹیٹکوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور باجرے کے دانوں کو اکھٹا کر کے پکاتے اور پھر کھاتے۔

مصطے کی دو بیویاں تھیں۔ سات چھوٹے بیٹے بیٹیاں اور ایک جوان بیٹی ملوکی تھی۔ گندمی رنگت، خوبصورت آنکھیں اور لمبی سی ستواں ناک والی ملوکی کی ایڑیاں ننگے پاؤں چلنے پھرنے کی وجہ سے میلی اور پھٹی ہوئی تھیں۔

بچوں کی یہ ٹولی سارا دن مٹی سے کھیلتی رہتی۔ مصطا ٹوٹی پھوٹی زمینیں بنانے چلا جاتا۔ ٹیٹکوں کی ہانڈی پکانے کے علاوہ، سوتنوں کا کوئی اور کام نہیں ہوتا تھا۔ جیسے ہی خاوند باہر جاتا، دونوں ایک دوسرے سے جھگڑنے لگ جاتیں۔ ایک دوسرے کو بیہودہ گالیاں دیتیں۔ ایک دوسرے کو آشناؤں کے الزام دیتیں۔۔ اور پھر تھکنے کے بعد کسی طرف بیٹھ جاتیں۔

ایک دن علمے کا بیٹا شمشو ونگار والوں کے لیے چائے بنوانے مصطے کے کوٹھے پر آیا۔ گڑ اور پتی وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ سوتنوں کو جھگڑے سے فرصت نہیں تھی۔ ملوکی اور شمشو اکٹھے چائے پکانے کے دوران تھوڑی بہت باتیں کرتے رہے۔ شمشو کچھ چائے ملوکی، مصطے اور اس کی بیویوں کے لیے چھوڑ گیا۔

مٹی سے بھرے بچے جو صبح سے چولہے کے ارد گرد منڈلاتے پھر رہے تھے، شمشو کے جاتے ہی چائے کی دیگچی پر ٹوٹ پڑے، بچتی پتی کے لیے ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔

اس کے بعد شمشو ان کے ہاں آنے جانے لگا۔ وہ ہر روز کسی نہ کسی بہانے، ملوکی سے ملنے ان کے کوٹھے پر آتا اور اپنی محبوبہ کو کھانے کی کوئی چیز دے جاتا تھا۔ ملوکی کی سگی ماں خوش تھی، کہ اس کی بیٹی کی شادی اس کے خاوند کے دوست کے بیٹے شمشو سے ہو گئی تو ایک بندے کے کھانے کا بوجھ ان کے سر سے اتر جائے گا۔ ملوکی کی سوتیلی ماں دل میں اپنی جگہ پر خوش تھی کہ ملوکی اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئی تو اپنی سوتن کو گندے طعنے دینے میں تگڑی ہو جائے گی اور اس کو ہرا دے گی۔

باجرے کی فصل پک گئی تھی۔ مصطے کے بیٹے تھال اور دیگچیوں کو بجا کے باجرے سے چڑیاں، چنڈولوں، بیبلر اور فاختاؤں کو اڑاتے تھے۔ لیکن بھوکے پرندے یہاں سے اڑے اور وہاں بیٹھے۔ رات کو ٹیٹکوں کو کھانے گیدڑ آ جاتے تھے، جن کو ڈرانے کے لیے مصطا اکثر ٹین بجاتا تھا۔ پھر بھی صبح کے وقت کئی ٹیٹک کھائے ہوئے ہوتے۔

ایک بار شمشو، ملوکی کے لیے خالص گھی سے چپڑی روٹی لے آیا ”آج خان زمینوں پر آیا تھا۔ اس نے ایک روٹی مجھے دی، جو میں تمہارے پاس لے آیا، کھا لو۔۔۔ ساری تمہاری ہے“

”نہ ، تم کھاؤ“

”میں تمہارے لیے لایا ہوں“

”اچھا آدھی آدھی کرتے ہیں۔۔ گاوے گھی کی کتنی مزے کی خوشبو ہے۔۔ پورے تین دن بعد روٹی کھا رہی ہوں۔۔۔ کتنی نرم اور میٹھی روٹی ہے۔۔۔ دل کہتا ہے اس کو نہ کھاؤں، چوموں!“

”دعا کر اللہ سوہنا مینہہ دے، پھر کھانے کے لیے روٹیاں زیادہ ہوں گی“

”جن کی گندم ہے، وہ مزے سے گھر بیٹھے ہیں، ہماری طرح صاف میدان میں نہیں بیٹھے“

”اللہ کرم کرے گا، اللہ کی طرف سے دی گئی آزمائش ہر کوئی سوال اٹھاتا ہے؟“

سوتنوں کے جھگڑے کا پہلا حصہ ختم ہو گیا تھا۔ باجرے کے پتے ہوا میں سرسرا رہے تھے۔ مصطے کے بچے باجرے سے بنی گھونگنیوں کے تھال پر ہاتھ صاف کر رہے تھے۔

”ملوکی تمہارا جگہ جگہ سے پھٹا دوپٹہ کتنا پرانا ہو گیا ہے۔۔ آبادی ہو گئی تو میں اپنی دھی کو نیا دوپٹہ لے دوں گا۔ تمہیں کون سا رنگ پسند ہے؟ سرخ، پیلا یا نیلا؟“ مصطے نے بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا

”نہ سرخ ہو اور نہ ہی نیلا پیلا۔۔ ہلکے سبز رنگ کا ہو۔ بابا میرے لیے ہلکے سبز رنگ کا دوپٹہ لانا“

کھیت میں جب ٹیٹک اور باجرے کی فصل ختم ہوئی تو چڑیاں بھی پُھر پُھر کر کے کہیں اڑ گئیں اور مصطے کا خاندان بھی سامان باندھ کر کسی دوسری طرف ہجرت کر گیا۔ ڈیڑھ سال اِدھر اُھر رلنے کے بعد وہ اپنی بستی واپس آیا، جہاں بھوک چڑیل کی طرح پراگندہ بال کیے چیختی پھر رہی تھی۔ بھوک کی وجہ سے بستی سے کوے اور مینائیں بھی اڑ گئی تھیں۔

ایک بار پھر مصطا بھوک سے تنگ آ کر اپنے دوست علمے کے پاس موسیٰ زئی آیا اور اس کے آگے جھولی پھیلا دی: ”یار ایک چیز دیتے ہو، انکار نہ کرنا۔“

”اللہ خیرے کرے۔۔ بتا، حکم کر“

”میں اپنی بیٹی ملوکی تمہارے بیٹے شمشو کو دیتا ہوں“

”شمشو۔۔۔۔ شمشو کی تو شادی ہو گئی ہے۔ چھوٹے ماموں کی بیٹی کے ساتھ۔۔۔ پسند اور محبت کی۔۔۔۔ کوئی چار پانچ مہینے پہلے کی بات ہے۔ میں سندیسا دینے تمہاری بستی آیا تھا، لیکن تم نہیں تھے“

چھ سات دنوں بعد عِلما، مصطے کے گھر، بستی میں آیا اور کہا: ”یار ایک بات کہتا ہوں، تم ناراض تو نہیں
ہو گے؟“

”نہیں۔ کہو، کیا کہنا چاہتے ہو، میرے یار؟“

”بات کچھ ۔۔۔۔۔۔ “

”یار بتاؤ، تم غیر نہیں ہو، ہمارا تمہارا کوئی پردہ ہے۔ میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟“

”اگر تم خوش ہو، تو۔۔۔۔ ہم پرانے یار ہیں۔۔۔۔ تم خفا تو نہیں ہو گے؟“

”نا۔۔ نا۔۔۔ جلدی۔۔۔ ہاں بتاؤ“

”اگر تم۔۔۔ ملوکی مجھے دے دیتے۔۔۔“

مصطے کے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔ اسے زمین اپنے پاؤں کے نیچے سے سرکتی محسوس ہوئی۔ وہ دیوار پکڑ پکڑ گھر میں داخل ہوا اور چارپائی پر گر گیا۔

آسمان چکی کے پاٹ کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا

چار پانچ دن بےچین رہنے کے بعد، آخر کار ملوکی کو کہہ دیا: ”بیٹی، شمشو کی تو شادی ہو گئی ہے۔۔۔ لیکن اس کا۔۔۔۔۔ اس کا باپ راضی ہے۔ تمہارا کیا مشورہ ہے؟“

”بابا، اگر مجھ سے اتنے ہی تنگ ہو تو میرا گلہ گھونٹ دو“

* * * * *

ماسی ملوکی اپنے کوٹھے کے سامنے بیٹھی اپلے تھاپ رہی تھی۔ لڑکے تختیاں گھماتے، ڈھیلوں کو ٹھوکریں مارتے، اسکول سے واپس آ رہے تھے۔ ایک لڑکا ہاتھ سے ٹائر چلاتا آ رہا تھا اور ایک لنگڑا لڑکا سوکھی جھاڑیاں گھسیٹتا آ رہا تھا۔ لڑکے رک گئے اور اکھٹے گانے لگے:
”چڑیل آتی ہے
بچوں کو کھاتی ہے
راتوں کو نہ سوتی ہے
لوگوں کو ڈراتی ہے“

ماسی ملوکی نے انہیں اپلے مارے۔ ان کی ماؤں بہنوں کو گالیاں دیں۔ لڑکے گھر بھاگ گئے۔

پڑوس میں شادی تھی۔ ماسی ملوکی کو بھی سندیسا ملا تھا۔ وہ اکثر شادیوں پر نہیں جاتی تھی، لیکن اس رات جانے کو دل کر گیا۔ وہ ننگے پاؤں اور کھلے بالوں کے ساتھ شادی والے گھر آئی۔ ڈھول بج رہا تھا اور عورتیں ناچنے کے ساتھ گا رہی تھیں۔ ماسی ملوکی کی یہ حالت دیکھ کر ناچتی گاتی عورتیں یک دم چپ ہو گئیں، ڈھول بجنا بھی بند ہو گیا۔ انہیں ایسا لگا، جیسے ملوکی قبر سے اٹھ کر آئی ہے

”چڑیل خیر سے آئی ہو!“ ایک عورت کے منہ سے نکلا

ماسی ملوکی جیسے آئی تھی، یہ سن کر فوراً چلی گئی۔ شادی کے گھر والی عورتیں اس کو آوازیں دیتی رہیں، اس کے پیچھے گلی میں نکلیں لیکن ماسی اپنے گھر چلی گئی۔ گھر پہنچ کر وہ چارپائی پر اوندھے منہ ڈھے گئی اور رونے لگی۔

تقریباً ایک گھنٹے کے بعد عورتیں ملوکی کو منانے ڈھولوں کے ساتھ اس کے گھر آئیں۔ اس کا گھر عورتوں اور بچوں سے بھر گیا تھا

”ماسی ہم معافی مانگنے آئے ہیں۔۔۔ میری پہلی خوشی ہے۔ ہمارے ساتھ دلہن لانے چلو“ دلہے کی ماں نے زاری کی

”میں نہیں آتی، تم نے مجھے بہت عزت دی ہے۔ جو عزت دار کے لیے کافی ہے!“

”تم ٹھیک کہہ رہی ہو، ہم قصوروار ہیں۔۔۔۔ ہم اس وقت تک دلہن لینے نہیں جائیں گے، جب تک تم ہمارے ساتھ نہیں جاؤں گی۔۔۔ اٹھو، چلیں“

ملوکی کی ایک سسکی نہ ہو

”مجھ بیوہ کے سفید بالوں کی لاج رکھ لو!“ دلہے کی ماں نے ہاتھ باندھے

”اس طرف سے نکلنے والا سورج، اس طرف سے طلوع ہو، پھر بھی میں تمھارے ساتھ ایک قدم نہیں جاؤں گی“

ساری عورتیں اور دلہے کی ماں کی یہی ضد تھی کہ ملوکی ان کے ساتھ ہر حال میں جائے۔ وہ ملوکی کو چمٹی ہوئی تھیں۔ کوئی اس کے پاؤں پکڑ رہا تھا، کوئی جھولیاں اور چادریں اس کے آگے پھیلائے کھڑا تھا، کوئی معافیاں مانگ رہا تھا۔۔ ملوکی کے خاوند نے بھی اس کی منت کی ، لیکن وہ چارپائی میں سر دیے روتی اور بڑبڑاتی رہی

بہت دیر ہو گئی تھی۔ عورتیں کھڑی کھڑی تھک گئی تھیں ۔ دلہے کے بھائی ماسی ملوکی کے دروازے پر آئے اور عورتوں کو کہا: ”بس آؤ بھی سہی، دلہن لانے جاتے ہیں۔ ملوکی ماسی کو چھوڑیں۔ نہیں آتی تو خدا بھی نہ لے آئے۔ کیا اس کے بغیر دلہن کی رخصتی نہیں ہو سکتی“

لیکن ان کی ماں نے انہیں سمجھایا ”ماسی ملوکی فقیرنی ہے۔ ایسی ہلکی باتیں نہ کرو۔ اللہ ناراض ہو جائے گا۔ ہر چیز ختم ہو جائے گی۔ اس کی بددعا سے ڈرتی ہوں۔ خوشی کے دن کسی کے دل میں میل نہیں رہنے دینی چاہیے۔ سارا گاؤں خوش اور ایک روح ناراض! میرا دل کانپتا ہے۔۔ میں ہر صورت میں ماسی ملوکی کو ساتھ لے کر ہی آؤں گی“

بیسویں کا چاند مشرق کی طرف سے ابھر رہا تھا۔ عورتیں تھکنے کے بعد دیواروں کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ اکثر عورتوں کے بچے سو گئے تھے۔ کچھ لڑکیاں تھکنے کے باوجود ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کر رہی تھیں۔ ماسی ملوکی کو بھی نیند آ گئی تھی۔

”ملوکی ہمیں معاف کر دو۔۔ ساری شادی تمہاری وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ میری پوتی (دلہن) کی شادی میں تم کیوں نہیں آتی۔۔۔ ملوکی میری معافی ہے!“ بوڑھا شمشو اپنا پٹکا ملوکی کے پاؤں میں رکھے کھڑا تھا

”میری سفید داڑھی کی لاج رکھ لو!“

ملوکی کو ایسے لگا، جیسے وہ باجرے کے کھیت کی پگڈنڈی پر کھڑی ہے۔۔ باجرے کے سٹّوں پر چڑیاں بیٹھی جھول رہی ہیں۔ وہ سر پر ہلکے سبز رنگ کا دوپٹہ اوڑھے کھڑی ہے اور شمشو اسے خالص گھی سے چپڑی روٹی دے رہا ہے ۔ خالص گھی کی خوشبو اسے پاگل کیے جا رہی تھی۔

تھوڑی دیر بعد عورتیں دلہن لانے جا رہی تھیں۔ دلہن لانے کا ڈھول بج رہا تھا۔ پھولوں اور گھونگھرؤں سے سجا اونٹ چھم چھم کرتا جا رہا تھا۔ لڑکیاں مینا کی طرح پلکتیاں اور عورتیں گاتی جا رہی تھیں اور آگے آگے ماسی ملوکی بال بکھیرے، ننگے پاؤں ناچتی جا رہی تھی۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close