ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تاریک پہلو: زرق برق لباس اور اندھیروں میں ڈوبی زندگیاں۔۔

ویب ڈیسک

فاسٹ فیشن سے جڑے عالمی برانڈ اپنی مصنوعات کی تیاری کے دوران مزدوروں کے استحصال سے باخبر ہونے کے باجود اس مسئلے کی موثر روک تھام کرنے سے قاصر رہے ہیں

ایسا ہی ایک ہولناک واقعہ دس سال قبل بنگلہ دیش میں پیش آیا، جب نو منزلہ گارمنٹ فیکٹری ’رانا پلازہ‘ کے انہدام میں ساڑھے گیارہ سو کے قریب افراد کی ہلاکت نے فاسٹ فیشن کے مہلک نتائج کو نمایاں کر دیا تھا

اگرچہ اس سانحے سے گارمنٹس کے اعلیٰ برانڈز پر یہ دباؤ پڑا کہ وہ فیشن کی صنعت میں معیاری اور اعلیٰ درجے کے کپڑوں کی تیاری کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے تحفظ پر بھی توجہ دیں، لیکن ٹیکسٹائل کی صنعت میں یہ بدسلوکی اب بھی جاری ہے۔ زرق برق لباسوں کی تیاری کے پس منظر میں کئی تاریک زندگیوں کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں

اے ایف میں شائع ایک اسٹوری کے مطابق دارالحکومت ڈھاکہ کے قریب رانا پلازہ کا انہدام بنگلہ دیش اور دیگر ایشیائی ممالک میں ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں ہونے والی تباہی کے سلسلے کا بدترین واقعہ تھا۔ خیال رہے کہ بنگلہ دیش چین کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملبوسات برآمد کرنے والے ملک ہے

ایک سال قبل ڈھاکہ میں امریکی ریٹیل کمپنی وال مارٹ کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں آگ لگنے سے کم از کم ایک سو گیارہ مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے شہر کراچی میں جرمن ڈسکاؤنٹ چین کِک کے لیے جینز تیار کرنے والی ایک فیکٹری میں آگ لگنے سے اڑھائی سو مزدور ہلاک ہو گئے تھے

پرائمارک اور بینیٹن جیسے مغربی برانڈز کے لیے کپڑے تیار کرنے والی رانا پلازہ فیکٹری میں وسیع تباہی ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اس حادثے کے بعد سرفہرست برانڈز، خوردہ فروشوں اور ٹریڈ یونینوں نے سخت جانچ پڑتال کے تحت بنگلہ دیشی فیکٹریوں میں حفاظتی حالات کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا

اس کے بعد سے تقریباً اٹھارہ سو سے زائد فیکٹریوں کا معائنہ کیا جا چکا ہے۔ اس معائنے کے بعد زیادہ تر فیکٹریوں کو مکمل یا تقریباً مکمل طور پر محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش میں سن 2013 کے بعد سے کسی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کوئی بڑی تباہی نہیں آئی، لیکن اس طرح کے سانحات دیگر جگہوں پر رونما ہوتے رہتے ہیں

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی اور مراکش میں غیر قانونی گارمنٹس فیکٹریوں میں لگنے والی آگ سے متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سن 2021 میں مراکش کے بندرگاہی شہر تانگیر میں ایک غیر قانونی کارخانے کے تہہ خانے میں پانی بھرنے سے اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے

دوسری جانب چین پر الزام ہے کہ اس نے شمال مغربی سنکیانگ کے علاقے میں رہنے والی ایغور مسلم اقلیت کے دس لاکھ سے زیادہ افراد کو از سر نو سیاسی تعلیم کے کیمپوں میں ڈال رکھا ہے اور ان میں سے کچھ سے کپاس کے کھیتوں میں جبری مشقت لی جاتی ہے۔ بیجنگ ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ’مذہبی انتہا پسندی‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز چلا رہا ہے۔ ایڈیڈاس، گیپ، نائکی اور پوما سمیت عالمی برانڈز اس وقت اس تنازعے کی زد میں آئے، جب یہ بات سامنے آئی کہ یہ مذکورہ عالمی برانڈ سنکیانگ میں پیدا کی جانے والی کپاس استعمال کر رہے ہیں۔ سنکیانگ دنیا میں کپاس کی رسد کا پانچواں حصہ پیدا کرتا ہے

2021 میں فرانسیسی مجسٹریٹس نے ان دعووں کی تحقیقات شروع کیں کہ یونیکلو اور زارا کے مالکان سمیت چار فیشن گروپس سنکیانگ میں جبری مشقت سے مستفید ہو کر انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب پائے گئے

اس کہانی میں مزدوروں کی کم اجرتوں کا معاملہ بھی شامل ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل ورکروں کی معمولی تنخواہوں پر اکثر اعتراض اٹھایا جاتا ہے، لیکن فاسٹ فیشن مہیا کرنے والوں کے ہاں کم تنخواہ دینا یورپ اور امریکہ میں بھی ایک مسئلہ ہے

کم اجرت کے مسئلے نے دنیا بھر اور خاص طور پر ایشیا میں احتجاج کو جنم دیا ہے۔ کمبوڈیا میں برسوں کے پرتشدد اور مہلک مظاہروں کے بعدگارمنٹس کے شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں نے آخرکار دو سو ڈالر کی کم از کم ماہانہ اجرت کا ہدف حاصل کر لیا، جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے

اس صنعت سے وابستہ ایک اہم مسئلہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی سن 2022 میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کپڑے کی صنعت ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہ کاربن کے دو سے آٹھ فیصد عالمی اخراج کے لیے زمہ دار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ دنیا کے پانیوں کی پچیس فیصد آلودگی اور سمندروں میں مائیکرو پلاسٹک کے اخراج کے ایک تہائی کے لیے ذمہ دار ہے، جو مچھلیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے لیے بھی ایک زہریلا مادہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close