صدر پوٹن کے لیے عالمی عدالت کے وارنٹ گرفتاری کیا معنی رکھتے ہیں؟

ویب ڈیسک

عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے روسی صدر ولاديمير پوٹن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر ديے ہيں۔ ہالينڈ کے شہر دی ہيگ ميں قائم انٹرنيشنل کرمنل کورٹ نے جمعے کو يہ قدم اٹھايا۔ پوٹن پر یوکرینی بچوں کو غیر قانونی طور پر روس منتقل کرنے کا الزام ہے۔ عدالت نے صداتی کمشنر برائے حقوق اطفال ماریہ لووا بیلوا کے بھی حراستی وارنٹ جاری کیے ہیں۔ يوکرينی حکومت کے مطابق گزشتہ برس فروری میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد سولہ ہزار سے زائد یوکرینی بچوں کو غیر قانونی طور پر روس منتقل کیا گیا

دوسری جانب ماسکو حکومت نے ان وارنٹس کو ‘بے معنی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روس بین الاقوامی فوجداری عدالت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس لیے ایسے اقدامات روس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ آئی سی سی کے پراسيکيوٹر کريم خان کے بقول عدالت کے ايک سو بيس رکن ملکوں ميں اب پوٹن نے اگر قدم رکھا، تو انہيں حراست ميں ليا جا سکتا ہے

ہو سکتا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کو جلد ہی ہیگ میں کسی سیل کے اندر نہ دیکھا جا سکے لیکن اُن کی جنگی جرائم کے الزام میں گرفتاری کا وارنٹ ان کے آزادانہ سفر اور دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے

اس حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پوٹن تیسرے سربراہ مملکت ہیں، جن پر اقتدار میں رہتے ہوئے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے فرد جرم عائد کی ہے

آئی سی سی نے کہا تھا کہ اس نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے جنگی جرائم پر وانٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ ان پر یوکرین کے سینکڑوں بچوں کو ملک بدر اور غیرقانونی طور پر روسی فیڈریشن بھیجنے کا الزام عائد کیا گیا ہے

کریملن نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور روس کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ’آئی سی سی کا فیصلہ ہمارے ملک کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا اور قانونی نقطہ نظر سے بھی۔‘

سوال یہ ہے کہ وارنٹ گرفتاری کے بعد روس کے صدر کیا نتائج بھگت سکتے ہیں۔ ذیل میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں

بیرون ملک سفر

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے 123 رکن ممالک صدر پوٹن کو حراست میں لے کورٹ کے حوالے کر سکتے ہیں۔ روس اس کا رکن ملک نہیں اور نہ ہی چین، امریکہ یا بھارت اس کے رکن ہیں

بین الاقوامی فوجداری کی عدالت روم سٹیٹیوٹ کے تحت قائم کی گئی تھی، جس کی توثیق یورپی یونین کے تمام ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، برازیل، برطانیہ، کینیڈا، جاپان، میکسیکو، سوئٹزرلینڈ، تینتیس افریقی ممالک اور جنوبی بحرالکاہل کے انیس ممالک نے کی

سنہ 2000ع میں روس نے روم سٹیٹیوٹ پر دستخط کیے تھے، لیکن پھر روس 2016ع میں اس معاہدے سے اس وقت دستبردار ہوا، جب آئی سی سی نے ماسکو کی جانب سے یوکرین کے جزیرہ نما کریمیا پر قبضے کو مسلح تنازعے کی درجہ بندی میں شامل کیا

اتریچ یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایوا ووکوسک کہتے ہیں ”پوٹن بیوقوف نہیں ہیں کہ وہ کسی ایسے ملک کا سفر کریں گے، جہاں ان کو گرفتار کیے جانے کا امکان ہو“

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان ممالک کے علاوہ باہر کہیں اور سفر نہیں کر سکیں گے جو یا تو واضح طور پر اتحادی ہیں یا کم از کم کسی حد تک روس کے ساتھ ہو

آئی سی سی کا ماضی کا تجربہ

سوڈان کے سابق صدر عمر البشیر اور لیبیا کے معمر قذافی وہ واحد سربراہ حکومت ہیں، جن پر آئی سی سی نے ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کرتے ہوئے فرد جرم عائد کی ہے

2011 میں معمر قذافی پر الزامات معزول اور ہلاک ہونے کے بعد ختم کر دیے گئے تھے۔
عمر البشیر جن پر 2009 میں دارفر میں نسل کشی کا الزام عائد کیا گیا تھا، ایک دہائی تک صدر کے عہدے پر فائز رہے جب تک کہ ایک بغاوت میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔
اس کے بعد سوڈان میں دیگر جرائم کے لیے ان پر مقدمہ چلایا گیا لیکن آئی سی سی کے حوالے نہیں کیا گیا

انہوں نے اپنے دور حکومت میں متعدد عرب اور افریقی ممالک کا سفر کیا جن میں آئی سی سی کے رکن ممالک چاڈ، جبوتی، اردن، کینیا، ملاوی، جنوبی افریقہ اور یوگینڈا شامل ہیں۔ ان ممالک نے ان کو حراست میں لینے سے انکار کیا

عدالت کی حکم عدولی کی بنا پر آئی سی سی نے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل سے رجوع کیا تھا

عہدہ چھوڑنے کے بعد آئی سی سی نے آئیوری کوسٹ کے صدر لارینٹ گباگو پر مقدمہ چلایا تھا اور تین سال کے بعد 2019ع میں ان کو الزامات سے بری کر دیا تھا

کینیا کے صدر ولیم روتو اور ان کے جانشین اوہورو کینیاتا دونوں کو منتخب ہونے سے قبل آئی سی سی نے فرد جرم عائد کیا تھا تاہم بعد میں ان کے خلاف الزامات ختم کر دیے گئے

کینیاتا وہ واحد رہنما ہیں جو اپنے عہدے پر رہتے ہوئے آئی سی سی کے سامنے پیش ہوئے

دیگر عدالتیں

آئی سی سی کے علاوہ کئی سابق رہنماؤں پر بین الاقوامی عدالتوں نے مقدمہ چلایا ہے

دوسری عالمی جنگ کے بعد سربیا اور یوگوسلاویہ کے سابق صدر سلوبودان میلوژوک کسی بین الاقوامی ٹریبیونل کے سامنے پیش ہونے والے سربراہ مملکت تھے۔ ان پر 90 کی دہائی میں بلقان جنگ کے دوران جنگی جرائم کا مقدمہ اقوام متحدہ کی عدالت میں چلایا گیا تھا۔ فیصلہ آنے سے قبل 2006 میں دوران حراست ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔
لائیبیریا کے سابق رہنما چارلس ٹیلر کو 2012 میں اقوام متحدہ کی خصوصی عدالت نے جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا تھا

کوسوو کے سابق صدر ہاشم تھاسی جو 90 کی دہائی میں بلقان جنگوں میں سربیا اور یوگوسلاویہ کے سابق صدر سلوبودان میلوژوک کے مخالفین میں سے ایک تھے۔ دی ہیگ نے ان پر 90 کی دہائی میں ملک میں جاری تنازع میں منفی کردار ادا کرنے پر جنگی جرائم کے ارتکاب کی فرد جرم عائد کی تھی۔ ان پر اگلے ماہ مقدمہ چلانے کا امکان ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close