تحریکِ انصاف کی خواتین کارکن اور 9 مئی: ’شیلنگ سے زیادہ تکلیف ان گالیوں کی ہے، جو مجھے دی گئیں‘

ویب ڈیسک

”میں نے کہا مجھے ہاتھ مت لگاؤ، میں خود قیدی وین میں بیٹھ جاؤں گی۔ اس پر پولیس والے نے جواب دیا کہ تم کون سا شریف لڑکی ہو۔ اگر شریف ہوتیں تو گھر سے نہ نکلتیں“

یہ الفاظ ہیں عائشہ سلمان (فرضی نام) کے، جو تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ان کی جماعت کی جانب سے ہونے والے پرتشدد احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد گرفتار کی جانے والی خواتین میں شامل تھیں

نو مئی 2023 کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ملک کے کئی شہروں میں سرکاری و نجی عمارتوں کے علاوہ عسکری املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ اس احتجاج کے دوران متعدد افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی بھی ہوئے

اس جلاؤ گھیراؤ کے بعد سے تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور رہنماؤں کی اندھادھند پکڑ دھکڑ کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ تاحال جاری ہے اور حراست میں لیے جانے والوں میں خواتین کی بھی قابلِ ذکر تعداد شامل ہے جبکہ پی ٹی آئی کے دعوے کے مطابق بڑی تعداد میں ایسے افراد بھی حراست میں لیے گئے، جو تحریکِ انصاف کے کارکن یا ہمدرد تو تھے لیکن احتجاج کا حصہ نہیں تھے

دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں پنجاب پولیس نے تَھوک کے حساب سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اور اسے ’دھاڑی لگانے‘ کا ذریعہ بنا لیا ہے

اپنی گرفتاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے عائشہ بتاتی ہیں ”جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو ہم لوگ احتجاج کرنے کے لیے باہر نکلے۔ ہم سب طالبعلم ہی تھے جو ایک چوک پر کھڑے احتجاج کر ہے تھے کہ ہمیں پتا چلا کہ ہمارے کچھ ساتھی آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔ میں اور باقی سب لوگ بھی اس طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر ہم پرامن انداز میں پلے کارڈ لے کر کھڑے تھے کہ چند ہی منٹ بعد وہاں شیلنگ شروع ہو گئی اور ایک دم سے پولیس اور رینجرز والے ہماری طرف بھاگے۔ ہم سب وہاں سے دوسری طرف بھاگے تو پولیس والے کہنے لگے کہ اب بھاگ کیوں رہے ہو۔ واپس آؤ نا“

عائشہ نے بتایا ”اس وقت وہاں صرف چیخوں اور گالیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہمیں کچھ لڑکوں نے آ کر بتایا کہ ہمارے ساتھ جو دو لڑکیاں تھیں، انہیں پولیس لے گئی ہے اس لیے آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں۔ ہم اپنے گھروں کو چلے گئے۔ وہ رات خاصی مشکل تھی اور دماغ میں آوازیں اور گالیاں گونج رہی تھیں۔ میں اس لیے بھی پریشان تھی کہ میری دوستوں کو پولیس لے گئی تھی“

”اگلے دن تو ہم آئی ایس آئی کے دفتر کے باہر بھی نہیں گئے۔ عام سڑک پر آ کر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ فوری طور پر پولیس، ایلیٹ فورس، رینجرز اور پتا نہیں کون کون وہاں آ گیا۔ ہم پر شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال شروع ہو گیا۔ کئی گھنٹے ہم گیس کھاتے رہے اور پھر وہیں سے گرفتار ہو گئے“

عائشہ کا دعویٰ ہے کہ جہاں انہیں اور ان کی ایک ساتھی کو خواتین کے تھانے لے جایا گیا، وہیں ان کی باقی دوستوں کو پولیس اہلکار عام تھانے میں لے گئے

ان کے بقول ”گرفتاری کے وقت ہم سب پر تشدد بھی کیا گیا۔ ڈنڈے مارے گئے۔ جب مجھے پولیس والے پکڑ رہے تھے تو میں نے انھیں کہا کہ مجھے ہاتھ نہیں لگاؤ، میں خود ساتھ چلتی ہوں تو کہا گیا کہ تم تو بے حیا لڑکی ہو۔ کون سا شریف لڑکی ہو“

عائشہ کے مطابق ان کے لیے آنسو گیس سے ہونے والی تکلیف سے کہیں زیادہ تکلیف دہ وہ رویہ تھا، جو گرفتاری کے وقت ان سے روا رکھا گیا

وہ کہتی ہیں ”شیلنگ اور واٹر کینن کی وجہ سے میرا منہ اور آنکھیں ابھی تک جلتی ہیں لیکن اس سے زیادہ تکلیف تو ان گالیوں کی ہے جو مجھے مسلسل دی گئیں۔ میری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اگر وہ زندہ ہوتیں اور یہ سب دیکھتیں تو ویسے ہی مر جاتیں“

عائشہ کو تو ایک دن کی حراست کے بعد ضمانت پر رہائی مل گئی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انھیں جہاں اپنے آس پاس رہنے والوں کی طرف سے برے سلوک کا سامنا رہا ہے، وہیں وہ یہ دعویٰ بھی کرتی ہیں کہ پولیس نے بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا

وہ بتاتی ہیں ”ہمارے خاندان میں آج تک کوئی جیل نہیں گیا تھا کبھی۔ میں پہلی ہوں اور اوپر سے لڑکی ہوں۔ اسی بات پر میرے ارد گرد والے لوگوں نے میرا جینا حرام کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ رہائی کے بعد پولیس پھر سے ہماری تلاش کر رہی ہے“

انھوں نے الزام لگایا کہ ہم جتنی لڑکیاں تھیں، سب کی فوٹوز اور ویڈیو جا جا کر ہمارے محلے والوں کو دے رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے ان کو دیکھا ہے، اگر یہ لڑکیاں نظر آئیں تو فوراً پولیس کو بتائیں

ان کا کہنا تھا ”اب مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں پتا نہیں کتنی بدکردار لڑکی ہوں۔ دل کرتا ہے کہ یا تو میں مر جاؤں یا پھر واقعی ہمیں آزادی مل جائے۔ جس کے بعد کوئی ہمیں احتجاج کرنے پر بےحیا نہ کہے۔ ہمارے ملک میں قانون کی بالادستی ہو۔ کوئی ایسا نہ ہو جو سسٹم سے اوپر ہو۔ میرے لیے تو یہ آزادی ہے“

عائشہ سلمان تو احتجاج کے بعد گرفتار کر لی گئیں لیکن صبا (فرضی نام) جیسی تحریکِ انصاف کی کئی کارکنان نو مئی کے مظاہروں کے بعد شروع ہونے والی گرفتاریوں کی وجہ سے روپوش ہونے پر مجبور ہوئیں

دو بچوں کی والدہ صبا کئی برس سے پی ٹی آئی سے منسلک ہیں اور جماعت کے جلسوں، جلوسوں اور احتجاج کا حصہ رہی ہیں۔ نو مئی کو بھی وہ احتجاجی مظاہروں میں شامل تھیں تاہم اس کے فوراً بعد ہی وہ اپنے اہل خانہ کو لے کر شہر سے چلی گئیں

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا ”ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم پر زمین ہی تنگ ہو گئی ہو۔ ہماری زیادہ تر خواتین یا تو پکڑی گئی ہیں یا پھر روپوش ہیں۔ ہم گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں۔ بچے سکول نہیں جا سکتے۔ جب ہم نکلے تو اتنا وقت نہیں تھا کہ کپڑے بھی اٹھا سکتے“

انہوں نے بتایا ”گھر سے نکلنے کے بعد سب لوگوں سے رابطہ کیا کہ کوئی ہمیں رکھ لے لیکن افسوس ہوا کہ جن لوگوں کے بارے میں لگتا تھا کہ وہ ہماری مدد کریں گے انھوں نے صاف جواب دے دیا کہ آپ ہمارے پاس مت آئیں اور نہ ہی ہمارے لیے مشکلات کھڑی کریں۔ دوسری جانب بہت سے ایسے لوگ تھے جن میں ایسے عام کارکن شامل ہیں جنھیں ہم نے کبھی پوچھا بھی نہیں تھا انھوں نے ہمارا ساتھ دیا اور مدد کی“

انھوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اب بھی ان کی تلاش میں ہے ’میرے گھر دن میں کئی مرتبہ سی آئی اے والے آتے ہیں، ملازم سے پوچھتے ہیں جبکہ پولیس کبھی ہمارے کسی رشتہ داروں کے گھر جاتی ہے تو کبھی کسی دوست کے گھر۔ اب تو خوف آتا ہے کہ کہیں وہ لوگ ہمیں ڈھونڈتے ہوئے یہاں بھی نہ پہنچ جائیں۔‘

صبا تو تحریکِ انصاف کی عام کارکن ہیں لیکن پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے خدشے کی وجہ سے ملک کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے تحریکِ انصاف کے ہمدردوں کو بھی روپوش ہونا پڑا

ان میں ملک کے ایک بڑے فیشن ہاؤس کی مالک اور ماضی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مشیرِ خزانہ کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر سلمان شاہ کی بیٹی خدیجہ شاہ بھی شامل ہیں

خدیجہ سوشل میڈیا پر خود کو عمران خان اور تحریکِ انصاف کی حامی کے طور پر پیش کرتی ہیں اور نو مئی کو لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر دھاوا بولنے کے واقعے کی ویڈیوز بھی ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پوسٹ کی گئیں

خدیجہ شاہ کی گرفتاری کے لیے پولیس کئی دن سے سرگرم تھی اور انھوں نے منگل کی شب خود کو قانون کے حوالے کر دیا

9 مئی کے واقعات کے تناظر میں خواتین کی گرفتاریوں اور چھاپوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا ”تمام گرفتاریاں قانون کے مطابق ہو رہی ہیں“

انھوں نے گرفتاری کے عمل کے دوران بدسلوکی کے تمام الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ تمام زیرِ حراست خواتین سے قانون کے مطابق سلوک ہوا اور جو کسی بھی جرم میں ملوث نہ پائی گئیں انھیں پولیس اور خفیہ اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں رہا کر دیا جائے گا

نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار تحریکِ انصاف کے کارکن یہ شکوہ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کا ساتھ دینے کے لیے جماعت کی مرکزی یا دوسرے درجے کی قیادت میں سے کوئی نظر نہیں آیا

صبا جہاں ہر حال میں عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے پرعزم ہیں وہیں قانونی معاونت کے سوال پر ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ انھیں ایسی کوئی مدد نہیں ملی

انہوں نے کہا ’ہم تو پھر کارکن ہیں، آپ ہمارے رہنماؤں کا حال دیکھ لیں کہ وہ گرفتار ہو کر رہا ہوتے ہیں اور پھر پکڑے جاتے ہیں۔ جب ان کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو ہم تو پھر کارکن ہیں۔‘

اس بارے میں سوال پر تحریکِ انصاف کے رہنما افتحار درانی کا کہنا تھا کہ ’گرفتاریاں بہت زیادہ ہیں اور ہم ابھی بھی فہرست مکمل نہیں کر پائے۔ پاکستان بھر سے ہماری چار سے پانچ سو خواتین گرفتار ہوئی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب نو مئی کا واقعہ ہوا تو چار دن تک ذرائع مواصلات بند رہے۔ کسی کو کسی کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا، کوئی رابطہ نہیں تھا۔ سینیئر قیادت کو پکڑ لیا گیا تھا جبکہ عمران خان بھی گرفتار تھے۔ ہمیں بالکل نہیں پتا تھا کہ کون کدھر پکڑا جا رہا ہے اور کسی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘

افتخار درانی کے مطابق ’رابطے بحال ہونے کے بعد ہر ریجن میں انصاف وکلا کی ٹیموں نے اس معاملے پر کام شروع کیا۔ ہم نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر فارم ڈالے کہ گرفتار افراد کے بارے میں تفصیلات فراہم کی جائیں اور اس کے فوراً بعد ہم نے لوگوں کو قانونی معاونت فراہم کرنا شروع کر دی تھی۔‘

’نئے دور کی خواتین ایک طاقت بن کر ابھری ہیں‘
پاکستان تحریک انصاف کا شمار پاکستانی سیاست میں ایسی جماعت کے طور پر ہوتا ہے جسے خواتین کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے اور نو مئی کے واقعے کے بعد یہ الزام بھی لگایا گیا کہ جماعت نے اپنی ان حامیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا تاہم تحریک انصاف کے کارکن اور رہنما اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

جماعت کی ایک خاتون رکن سے جب یہ بات پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی حریفوں کے لیے یہ ایسا ہی ہوگا لیکن سچ یہ ہے کہ جب عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا تھا تو ہمیں باقاعدہ کہا گیا تھا کہ کوئی عورت گرفتاری نہیں دے گی۔ اگر وہ بطور شیلڈ ہمیں استعمال کرتے تو وہ اس وقت بھی کہتے کہ گرفتاری دو۔‘

تحریکِ انصاف کی حامی خواتین کے سیاست میں کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اس وقت جو تحریک انصاف کی خواتین کا کردار سیاست میں نظر آ رہا ہے چاہے وہ بطور رہنما ہو یا بطور کارکن یا پھر ایک حامی کے طور پر ہی، وہ اس سے پہلے ماضی قریب میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا

سہیل وڑائچ کہتے ہیں ”اس مرتبہ خواتین کی تعداد کافی زیادہ ہے اور یہ نئے دور کی خواتین ہیں، جو لڑنا جانتی ہیں اور اپنی سوچ کے مطابق چلتی ہیں۔ وہ ایک ابھرتی ہوئی نئی قوت کے طور پر سامنے آ رہی ہیں جو کسی اور سیاسی جماعت کے پاس نہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close