”ادارے حفیظ بلوچ سے معافی مانگیں“ جبری گمشدگیوں پر قانون سازی کے گمشدہ بِل کا کیا بنا؟

ویب ڈیسک

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین اور قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے رکن مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں سے غلطی بھی ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہے تو ادارے حفیظ بلوچ سے معافی مانگیں، کہہ دیں کہ غلط شناخت کا معاملہ تھا

انہوں نے کہا کہ ہونا بھی یہی چاہیے کہ کسی کو غلط سزا نہ ملے۔ حفیظ بلوچ کو غلط الزام کے تحت زیرِ حراست رکھا گیا لیکن سزا نہیں دی گئی۔ ایسی صورت میں سادہ حل معافی مانگنا ہے

واضح رہے کہ حال ہی میں مشاہد حسین سید نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں ملک میں بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیوں اور اسی حوالے سے قانون سازی کے ’گمشدہ‘ بِل کا معاملہ بھی اٹھایا تھا

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا ”یہ معاملہ ایجنڈے میں نہیں تھا لیکن میں نے اس لیے اٹھایا کیونکہ ملک بھر میں جبری گمشدگیوں کے کیسز کافی بڑھ چکے ہیں خواہ وہ صحافیوں کے ساتھ ہو یا پھر سماجی کارکنان یا طلبہ کے ساتھ“

حفیظ بلوچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے مشاہد حسین نے کہا ”اصل بات تو یہ ہے کہ ان اداروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے جو اس کام میں ملوث ہیں۔ ورنہ احتساب کیسے کیا جائے گا؟‘ لیکن اس وقت اہم سوال بھی یہی ہے کہ کیا ایسے اداروں کو قانون کا پابند کیا جاسکتا ہے؟“

واضح رہے کہ قائدِ اعظم یونیورسٹی کے ایم فِل کے طالب علم حفیظ بلوچ کو گزشتہ دنوں رہا کیا گیا ہے

حفیظ بلوچ کو رواں سال 8 فروری کو خضدار کے علاقے سے اٹھایا گیا تھا۔ جبکہ ان کے والد نے خضدار تھانے میں جبری گمشدگی کا الزام عائد کرتے ہوئے اغوا کا مقدمہ درج کیا تھا

ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ حفیظ کو خضدار کے ایک مقامی ادارے سے بچوں کو سبق دینے کے دوران تین نقاب پوش مسلح افراد زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں یہاں تک کہ دارالحکومت اسلام آباد میں بھی حفیظ کی رہائی کے لیے احتجاجی کیمپ لگائے گئے

بعد ازاں حفیظ کی گرفتاری 31 مارچ کو کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے ظاہر کی اور ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا

جبری گمشدگیوں پر قانون سازی کا گمشدہ بِل

اس ساری صورتحال میں وکلا اور جبری گمشدگیوں پر کام کرنے والے افراد تین مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں

پہلا یہ کہ جب بھی کوئی ادارہ کسی کو جبری طور پر لاپتہ کرتا ہے تو وہ کسی قانون کے تحت پابند نہیں ہوتا

قانون کے تحت جب تک یہ واضح نہ ہو کہ کسی کو کہاں اور کیوں لے جایا گیا ہے، اور کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی طرف سے گرفتاری بھی ظاہر نہ کی گئی ہو، تو ایسے کیسز جبری گمشدگی کے زمرے میں دیکھے جاتے ہیں

اس حوالے سے حفیظ بلوچ کے وکیل ایڈووکیٹ عمران بلوچ کا کہنا ہے کہ جب کسی کو اس طرح سے غائب کردیا جائے تب پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرتی

انھوں نے کہا ’ایسے کیسز میں لواحقین کا شک زیادہ تر ریاستی اداروں پر ہوتا ہے لیکن پولیس کچی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے نام پر کاٹ کر یہ کہہ کر تھما دیتی ہے کہ ریاستی اداروں کے نام ایف آئی آر نہیں کاٹی جاتی اور جب آپ یہی ایف آئی آر لے کر عدالت جاتے ہیں تو جج آپ کو مِسنگ پرسنز ایکٹ 1956 کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو کسی ادارے کو نامزد کرنا پڑے گا۔ اور جب تک آپ ایسا نہ کریں گے مقدمہ ایک ماہ کے لیے روک لیا جائے گا۔‘

عمران نے بتایا کہ اس ایک ماہ یا اس سے زائد کے دورانیے میں غلط مقدمات بنا لیے جاتے ہیں اور قانون کے شِق کا غلط استعمال کرکے مزید وقت مانگ لیا جاتا ہے

انسدادِ دہشتگردی قانون 1997 کی شِق L-21 کا ایسے مقدمات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں وکلا کہتے ہیں کہ یہ زیادہ تر غلط استعمال ہوتا ہے۔ اس شِق کے تحت مشتبہ فرد کے ساتھ ایک مفرور فرد کو عدالت کے سامنے پیش ہونا لازمی ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس یہ آزادی ہے کہ وہ مشتبہ فرد کو اپنی حراست میں رکھیں اور کسی گواہ کو بھی شاملِ تفتیش نہ کریں۔ اس طرح مقدمہ مزید طول پکڑ لیتا ہے

اسی طرح 2013 میں کراچی میں رینجرز آپریشن شروع کرنے سے پہلے بھی انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں ترمیم کرکے شِق شامل کی گئی تھی، جس کے تحت پیرا ملٹری ادارے شک کی بنیاد پر کہیں سے بھی، کسی بھی شخص کو 90 دن کے لیے زیرِ حراست رکھ سکتے ہیں اور اس دوران وہ گرفتاری ظاہر کرنے کے پابند نہیں ہوں گے

اس قانون پر خاصا شور شرابا برپا ہوا لیکن وکلا بتاتے ہیں کہ اب تک جبری گمشدگی کا جو بھی مقدمہ ان کے پاس آتا ہے اس میں کارروائی کا یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات نوے دن بعد ہی گرفتاری ثابت کی جاتی ہے

وکیل ایمان زینب مزاری نے کہا کہ ’کسی کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس شخص کو جبری طور پر گمشدہ نہیں کیا گیا تھا۔ وہ اپنی جگہ چل رہا ہے اور یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔‘

اسی کے بارے میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے کرمنل لا (امینڈمنٹ) بِلز 2021 نومبر 2021 کو پیش کیے گئے تھے۔ جس کے بعد انھیں سینٹ منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لیکن وزارتِ انسانی حقوق کی سابقہ وزیر شیریں مزاری نے ڈان اخبار کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ جبری گمشدگی کا یہ بِل ’غائب ہوچکا ہے۔‘

اس بِل کے تحت جبری طور پر گمشدہ کرنے والے شخص یا ادارے کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی اور ان کو پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی دینا پڑے گا لیکن انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کی حالیہ میٹنگ کے مطابق یہ بِل ’اب تک غائب ہے۔‘

جبکہ حفیظ بلوچ کے وکیل عمران نے کہا کہ ’جس کیس میں اسے اندر کیا گیا تھا اس سے تو وہ باعزت بری ہوگیا لیکن اس کی جو بے عزتی ہوئی، الزام لگایا گیا، پڑھائی متاثر ہوئی، خاندان کو پریشانی دی گئی، اس کا ازالہ کون کرے گا؟‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close