’سفید سونا‘ الیکٹرک گاڑیوں کے لیے کتنا ضروری؟

ویب ڈیسک

سفید سونا کہلانے والی دھات لیتھیم الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ اس وقت اس دھات کی عالمی سطح ہر قلت ہے۔ اس کی کان کنی اور تیاری کتنی پائیدار ہے؟

گو کہ الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لیے لیتھیم کی بہت بڑی مقدار درکار نہیں ہوتی۔ تیس سو کلوگرام کی بیٹری (پچاس کلو واٹ آور) کے لیے صرف آٹھ کلوگرام لیتھیم کی ضرورت ہوتی ہے

تاہم الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں تیزی کے ساتھ ہی بیٹریوں کی طلب میں اضافے کی وجہ سے اس دھات کی مانگ میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے اور اس لیے اس دھات کی کان کنی کے بڑے بڑے پروجیکٹس شروع ہو چکے ہیں۔ لیتھیم کو زمین سے نکالنا ایک طویل المدتی کام ہوتا ہے اور یہ کئی معنوں میں متنازعہ بھی ہے

کھلے دھاتوں والی کانوں کی وجہ سے بہت سے مقامات پر اس دھات کی کان کنی کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی دیکھے گئے ہیں۔ جبکہ ان سے قدرتی منظر کو نقصان پہنچنے کے علاوہ پانی کی سپلائی بھی متاثر ہوتی ہے

قدرتی معدنیات کے جرمن ادارے ڈی ای آر اے کے مطابق سن 2016 میں تینتالیس میٹرک ٹن لیتھم عالمی سطح پر حاصل کی گئی تھی، جبکہ 2022 میں کان کنی کے ذریعے حاصل کردہ لیتھیم کی مقدار تین گنا بڑھ کر ایک لاکھ تیس ہزار میٹرک ٹن ہو چکی تھی۔ اس جرمن ادارے کے اندازے کے مطابق 2030 تک یہ مقدار مزید کئی گنا بڑھ چکی ہوگی

اس ادارے کے لیتھیم کے شعبے کے ماہر میشائیل شمڈٹ کے مطابق سوال اب یہ ہے کہ بیٹریوں کی تیاری کے لیے لیتھیم کی یہ کان کن کتنی پائیدار ہے

لیتھیم کو عام زبان میں ‘سفید سونا‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اس کا سفید رنگ اور مارکیٹ ویلیو ہے۔ یہ ہلکی دھات زمین کے قشتر میں ہر جگہ موجود ہے۔ محققین کے مطابق زمینی سمندروں میں اس ہلکی دھات کی موجود مقدار دو سو ارب ٹن کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ پتھروں اور نمکین جھیلوں میں یہ مقدار اٹھانوے ملین میٹرک ٹن ہے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ اس میں سے چھبیس ملین ٹن وہ مقدار ہے، جو دراصل حاصل کی جا سکتی ہے اور جو اگلی کئی دہائیوں میں حاصل کی جائے گی

سن 2022 میں 47 فی صد لیتھیم آسٹریلیا کی کھلے دھانے والی کانوں سے حاصل کی گئی، جب کہ 35 فی صد جنوبی امریکی کی نمکین جھیلوں، 15 فی صد چین اور ایک فیصد سے کچھ کم زمبابوے، پرتگال اور شمالی امریکہ سے حاصل ہوئی

نمکین جھیلوں سے لیتھیم کے حصول کی بات کی جائے تو دنیا میں اس کے سب سے بڑے ذخائر بولیویا، ارجٹائن اور چلی کی نمکین جھیلوں کی تہہ میں دریافت کیے گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قریب 42 ملین ٹن ہیں۔ امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق اس میں سے پنتالیس ہزار ٹن سن 2022 میں نکالا گیا

سویڈش ماحولیاتی ریسرچ انسٹیوٹ کے ایک مطالعے کے مطابق نمکین پانیوں کی تہوں سے بڑی مقدار میں یہ دھات نکلتی ہے اور یہاں سے لیتھیم کاربونیٹ پیدا ہوتا ہے۔ یہی مادہ بیٹری کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ یہاں سے لیتھیم کے حصول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی نسبتاﹰ کم ہوتا ہے

تاہم اس طرح سے لیتھیم کا حصول پینے کے پانی کو متاثر کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی جھیلوں کی تہوں سے یہ مادہ پمپ کرنے سے زیرِ زمین پانی کی سطح بھی گر سکتی ہے

جہاں تک پتھروں سے لیتھیم کے حصول کا معاملہ ہے تو پتھروں میں لیتھیم کے سب سے بڑے ذخائر آسٹریلیا کی کھلے دھانوں کی کانوں میں ہیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق یہ مقدار چھ اعشاریہ دو ملین ٹن ہے، جس میں سے 2022 میں اکسٹھ ہزار ٹن نکالا گیا

لیتھیم کے حصول کے لیے کان میں ڈرلنگ کی جاتی ہے اور دھماکے بھی۔ پھر یہ خام ٹکڑے پلانٹ میں ڈالے جاتے ہیں، جہاں لیتھیم کو دیگر کیمیائی مادوں سے الگ کیا جاتا ہے

یہاں سے لیتھیم چین روانہ کی جاتی ہے، جہاں اسے مزید خالص بنایا جاتا ہے اور اس سے بیٹری سیل بنائے جاتے ہیں۔ ایک امریکی ادارے انگونن نیشنل لیبارٹری کے مطابق اس انداز سے لیتھیم کے حصول کے لیے نمکین جھیلوں کے مقابلے میں تین گنا زائد توانائی درکار ہوتی ہے

اس ضمن میں ایک اہم نکتہ ری سائیکلنگ سے لیتھیم کی بچت کا ہے۔ مستقبل میں لیتھیم سپلائی گیپ کو ختم کرنے کے لیے ری سائیکلنگ پلانٹس سے بہ طور ضمنی پروڈکٹ حاصل کی جائے گی، تاہم فی الحال اس کا اس طرح سے حصول اقتصادی طور پر منافع بخش نہیں۔ مستقبل میں لیتھیم پرانی بیٹریوں وغیرہ سے حاصل کی جائے گی، جبکہ یوں لیتھیم کی طلب کو پورا کرنے میں ری سائیکلنگ بھی اپنا حصہ ملاتی نظر آئے گی۔ تاہم فی الحال ایک بیٹری میں لیتھیم کی مقدار اتنی کم ہے کہ اس ذریعے سے اسے حاصل کرنا ایک مہنگا سودا تصور کیا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close