حوثی باغی جنگ میں بچوں کو استعمال نہ کرنے پر متفق، اقوام متحدہ. حوثیوں نے تصدیق نہیں کی

ویب ڈیسک

کراچی – ایران نواز حوثی باغیوں کی جانب سے سات سالہ خانہ جنگی کے دوران ہزاروں کم عمر بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرنے کے بعد اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یمن کے حوثی باغی بچوں کی فوجی کا استعمال بند کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ حوثی ایک نئے ایکشن پلان کے تحت تمام بچوں کو چھ ماہ کے اندر رہا کر دیں گے اور اب انہوں نے بچوں کےحقوق کے خلاف ’سنگین خلاف ورزیوں‘ کو ختم کرنے کا عہد کر لیا ہے

حوثیوں کی جانب سے اس معاہدے کے بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، جس پر 2 اپریل کو اقوام متحدہ کی ثالثی سے شروع ہونے والی ایک نازک جنگ بندی کے بعد دستخط کیے گئے تھے

اقوام متحدہ نے کہا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً تین ہزار پانچ سو کم عمر بچوں کی شناخت ہو چکی ہے جنہیں ایران نواز حوثیوں نے جنگ میں استعمال کیا اور اس لڑائی میں دس ہزار دو سو سے زائدہ کم عمر جنگجو مارے گئے یا معذور‘ ہوئے ہیں

بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے حوثیوں نے 2014ع میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد سعودی زیرقیادت اتحاد 2015 سے اس جنگ میں یمنی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ برائے اطفال اور مسلح تنازعات ورجینیا گامبا نے ایک بیان میں کہا کہ’اس سفر کا سب سے مشکل حصہ اب شروع ہوا ہے

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایکشن پلان کو مکمل طور پر لاگو کیا جانا چاہیے اور یمن میں بچوں کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی طرف لے جانا چاہیے‘۔

واضح رہے کہ یمن کی حکومت کے خلاف متشدد کارروائیوں میں ملوث ایران نواز حوثی گروپ کے حوالے سے بچوں کو جنگ میں استعمال کرنے کے شواہد سامنے آ چکے ہیں. گزشتہ سات برس سے انتہا پسند حوثی ملیشیا یمن کی حکومت سے برسر پیکار ہے، جس میں بڑے پیمانے پر کم عمر بچوں کو بھی بھرتی کیا جاتا ہے

گزشتہ سال اگست میں یمن کے وزیر اطلاعات معمر الاریانی نے خبردار کیا تھا کہ حوثی ملیشیا کی جانب سے بچوں کو عسکریت پسند بنانے کا سلسلہ جاری ہے، جس کی دنیا کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی

معمر الاریانی کا کہنا تھا کہ ایران نواز دہشت گرد حوثی ملیشیا کے ہاتھوں پوری ایک نسل کے یرغمال بننے کا خطرہ منڈلا رہا ہے

اپنی ٹویٹ میں الاریانی نے کہا کہ حوثی ملیشیا اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ہزاروں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے، کھیلنے اور قدرتی شکل میں زندگی گزارنے سے مسلسل محروم کر رہی ہے۔ ملیشیا ان بچوں کو اپنے معرکوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کر رہی ہے تا کہ تہران میں اپنے آقاؤں کے ایجنڈے کے کام آ سکیں

یمنی وزیر اطلاعات نے ایک منظر بھی پوسٹ کیا، جس میں سیکڑوں بچوں کو حوثی ملیشیا ان کے گھروں اور اسکولوں کی کلاسوں سے کھینچ کر لے جا رہی ہے، بقول ان کے ان بچوں کو ”سمر کیمپ“ کے نام پر اپنے ایک تربیتی عسکری کیمپ میں لے جایا جا رہا ہے

وزیر اطلاعات الاریانی کے مطابق حوثی ملیشیا ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایران سے درآمد شدہ شدت پسندانہ اور فرقہ ورانہ افکار کا زہر گھول رہی ہے

دوسری جانب یمن میں بچوں کے حقوق سے متعلق تنظیم "سیاج” نے بھی حوثی ملیشیا پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے رواں سال 2021ء میں چھ ہزار ”سمر کیمپوں“ کے ذریعے کم از کم پانچ لاکھ بچوں کو بھرتی کیا۔ تنظیم کے مطابق حوثی ملیشیا ان بچوں کو تربیت دے کر آئندہ مرحلے میں لڑائی کے محاذوں پر جھونکے گی

یاد رہے کہ گزشتہ سال 18 جون کو اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے حوثی ملیشیا کا نام تنازعات کے علاقوں میں بچوں کے حقوق کی پامالی کے مرتکب ممالک اور جماعتوں کی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا تھا

اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ یمن کی حوثی ملیشیا کی جانب سے جنگ کے میدان میں اتارے گئے دو ہزار بچے جنوری 2020ع سے مئی 2021ع کے دوران ہلاک ہوئے اور ایرانی حمایت یافتہ باغی گروہ اب بھی بچوں کو لڑائی کے لیے ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت دے رہا ہے

رواں سال جنوری میں جاری کی گئی اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں ماہرین کا کہنا تھا کہ انہوں نے بعض اسکولوں کے سمر کیمپس اور ایک مسجد کی تحقیق کی، جہاں حوثیوں نے بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرنے کے سلسلے میں اپنے نظریے کا پرچار کیا

یمن کی صورت حال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حوثیوں کی جانب سے اپنے زیر اثر علاقوں میں یمنی بچوں کی بھرتی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مقصد کے لیے مساجد اور اسکولوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے

رپورٹ میں چار رکنی ماہرین کے پینل نے بتایا کہ ”ایک کیمپ میں سات برس تک کے کم عمر بچوں کو بھی ہتھیار صاف کرنا اور راکٹ سے بچنا سکھایا جا رہا تھا۔“

ماہرین کے مطابق دس ایسے کیس سامنے آئے، جن میں بچوں کو ثقافتی کورسز کے نام پر جنگ کے لیے لے جایا گیا، جبکہ نو ایسے واقعات دیکھے گئے جہاں انسانی بنیادوں پر ملنے والی امداد اس لیے نہیں دی گئی کہ ان خاندانوں کے بچے جنگ میں حصہ لے رہے ہیں یا نہیں

رپورٹ کے مطابق ایسے اساتذہ تک بھی امداد نہیں پہنچنے دی گئی، جنہوں نے حوثی نصاب پڑھانے سے انکار کیا تھا، جبکہ جنگ کی تربیت دینے کے لیے بھرتی کیے گئے بچوں پر جنسی تشدد کے کیس بھی سامنے آئے

ماہرین کے پینل نے بتایا کہ ان کو ایسی فہرست موصول ہوئی، جس کے مطابق سنہ 2020ع میں کم از کم ایک ہزار چار سو چھ بچے لڑائی میں ہلاک ہوئے

جبکہ ایک فہرست جنوری سے مئی 2021ع تک کی ہے، جس دوران حوثیوں کے بھرتی کیے پانچ سو باسٹھ بچے میدان جنگ میں مارے گئے

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق حوثیوں نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ڈرون طیارے ، میزائل اور دھماکا خیز آلات اکٹھا کیے

اسی طرح واضح کیا گیا ہے کہ حوثی ملیشیا نے گذشتہ برس بڑے پیمانے پر سمندری بارودی سرنگیں بھی بچھائیں

یاد رہے کہ اقوام متحدہ میں یمن کے نائب مندوب مروان نعمان نے ستمبر 2021ء میں بتایا تھا کہ حوثی ملیشیا نے 2014ء کے بعد سے پینتیس ہزار سے زیادہ یمنی بچوں کو بھرتی کیا۔ ان میں سترہ فیصد کی عمر گیارہ برس سے بھی کم تھی، جب کہ چھ ہزار سات سو سے زیادہ بچے اب بھی لڑائی کے محاذوں پر موجود ہیں

یمن میں انسانی حقوق کا نیٹ ورک یہ تصدیق کر چکا ہے کہ یمنی بچوں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالی کے لگ بھگ اکیس ہزار واقعات سامنے آئے۔ علاوہ ازیں جنوری 2017ء سے مارچ 2021ء تک حوثیوں کے ہاتھوں تینتالیس ہزار سے زیادہ یمنی بچے جبری ہجرت اور نقل مکانی کا شکار ہوئے

یاد رہے کہ چند برس قبل یمن میں باغی حوثی ملیشیا کے سربراہ عبدالملک الحوثی کی جانب سے یہ ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ لڑائی کے محاذوں پر جھونکے جانے کے لیے بھرتی کیے گئے بچوں کی لاشوں کی تصاویر شائع نہ کی جائیں۔ یہ ہدایت باغی ملیشیا کے ہاتھوں ہزاروں بچوں کی بھرتی پر عوامی غم وغصّے میں شدید اضافے کے بعد سامنے آئی تھی

اس سلسلے میں حوثیوں کی سپریم کونسل کے سربراہ محمد الحوثی کی دستخط شدہ ایک دستاویز بھی افشا ہوئی تھی، جس میں مقتول حوثیوں کی تصاویر شائع کرنے والے ادارے کو ہدایت دی گئی کہ پندرہ برس سے کم عمر مقتولین کی تصاویر ہر گز شائع نہ کی جائیں

یورو مڈل ایسٹ برائے ہیومن رائٹس اور ‘فریڈم فارہیومن رائٹس ‘سام’ کی طرف سے جنگ کے لیے بچوں کی بھرتی روکنے کے 2021 کے عالمی دن 12 فروری کے موقعے پر جاری رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حوثی ملیشیا بچوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جنگ میں جھونک رہی ہے۔ حوثی اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں جنگجوؤں کی کمی پوری کرنے کے لیے بچوں کو بھرتی کر رہی ہے۔ لڑائی کے دوران سیکڑوں بچے ہلاک ہوچکے ہیں

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2018ع، 2019ع اور 2020ع کے دوران ایرانی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ حوثی ملیشیا کی طرف سے کم عمر بچوں کو جنگ میں بھرتی کرنے کے لیے باقاعدہ مہمات چلائی گئیں۔ بھرتی کیے گئے ہزاروں بچوں کو 52 عسکری ٹریننگ مراکز میں جنگی تربیت دی گئی۔ ان مہمات میں صعد، صنعا، المحویت، الحدیدہ، تہامہ، حجہ اور الذمار گورنریوں سے اسکولوں میں پڑھنے والے ایسے بچوں کو بھی بھرتی کیا گیا جن کی عمریں محض دس سال تھیں

رپورٹ کے مطابق حوثی ملیشیا اپنے زیرانتظام علاقوں میں قائم پناہ گزین کیمپوں، یتیم خانوں اور عام شہری آبادی سے دس سے سترہ سال کی عمر کے بچوں کو بھرتی کرتی رہی ہے۔ حوثی ملیشیا شہریوں کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ڈیڑھ ڈالر ماہانہ اجرت پر ان کے بچوں کو جنگ کے لیے بھرتی کرتی چلی آ رہی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close