سندھو سلطنت: دریائے سندھ کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 13)

شہزاد احمد حمید

”لداخ کبھی اس سلطنت کا اہم قصبہ تھا، جہاں بدھ مت پروان چڑھا۔ یہ اشوک اعظم کا دور اور 240 قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ موریہ خاندان کا نامور چشم و چراغ اشوک اعظم اس سلطنت کے بانی چندر گپت موریہ کا پوتا تھا۔ کالنگا (موجودہ آڑیسہ) کی لڑائی میں ہونے والی خون ریزی نے اس کی شخصیت ہی بدل کر رکھ دی۔ طبعیت کا غصیلہ پن اور سخت گیری ایسے غائب ہوئی، جیسے کبھی اس کی زندگی میں تھی ہی نہیں۔ سنسکرت زبان کے لفظ ’اشوک‘ کے معنی ہیں ’بغیر تکلیف کے‘ کالنگا کی لڑائی نے اسے یکسر بدل دیا، وہ کہا کرتا تھا؛ ’تمام انسان میری اولاد کی طرح ہیں۔ جس طرح میری خواہش ہے کہ میرے بچوں کو ہر طرح کی سہولت میسر ہو ایسے ہی میری تمنا تمام انسانوں کے لئے بھی ہے۔‘ اس نے بدھ مت اختیار کیا۔ ’پاٹلی پتر‘ میں بدھ مذہب کی دوسری مجلس منعقد کی جس میں ایک ہزار سے زیادہ بزرگوں اور بدھ عالموں نے شرکت کی۔ پالی زبان میں جو بدھ شاستر جاری ہوئے، اسی مجلس میں مرتب کئے گئے تھے۔ اس مذہب کے فرمودات چٹانوں اور میناروں پر کندہ کروا کر ہندوستان کے کونے کونے میں پہنچا دئیے۔ اس نے اپنے بیٹے کو بھکشو اور بیٹی کو بھکشنی بنا کر بدھ مت کے فروغ کے لئے سری لنکا بھیجا اور بدھ بھکشوؤں کو دنیا کے مختلف علاقوں میں۔ اشوک نے 11 احکام جاری کئے، ان کو پتھر کی لاٹھوں پر کندہ کروایا، ان میں سے کئی ایک آج بھی موجود ہیں۔ ایسی ہی ایک لاٹھ مانسہرہ بائی پاس کے قریب بڑے پتھر پر دیکھی جا سکتی ہے۔ کالنگا کی مہم جوئی نے بے رحم بادشاہ کو ایسا رحم دل بنا دیا، جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ اُس کے دور حکومت میں جانوروں کو بھی انسانی جان کی طرح کا تحفط حاصل تھا۔ جانوروں کی قربانی پر ہی پابندی نہ تھی بلکہ سرکاری شکار گاہیں بھی ختم کر دی گئیں۔ اس نے ’دھرما‘ کا اصول متعارف کروایا کہ:
’ایمانداری، سچائی، رحم دلی، مہربانی، برداشت، رواداری اور محبت ایسی خصوصیات میں ہی انسانی نجات اور خوشی پنہاں ہے۔ یہ گناہ سے بچنے اور نیکی کمانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اس کے نزدیک نہ کوئی روحانی عبادت اور نہ ہی کوئی فلسفیانہ خیال سکون دے سکتا ہے۔ اصل سکون یہ ہے کہ انسان کا ظاہر اور باطن اچھا ہو۔‘

”اشوک کا دور مذہبی آزادی کا دور تھا، لیکن اس کی خواہش تھی کہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی بدھ مت قبول کر لیں۔ وہ خود کٹر بدھ بھکشو تھا۔ اپنے چالیس (40) سالہ دور حکومت میں اس نے بدھ ازم کو ہی بطور طرز حکومت اپنایا۔ دھرما کی پوجا میں وہ ملک کے مختلف حصوں کے دورے کرتا، لوگوں کے مسائل سنتا۔ سرکاری ملازمین کے لئے بھی یہی فرمان تھا کہ وہ سرکاری فرائض کی انجام دہی کے علاوہ لوگوں کے دکھ درد میں انہیں ممکن حد تک سہولیات بہم پہنچائیں۔ اس نے سرائے اور اسپتال بنوائے جہاں لوگوں کو کھانا، رہائش اور ادویات مفت فراہم کی جاتی تھیں۔ سڑک کنارے سایہ دار درخت لگوائے، کنویں کھدوائے، لوگوں کی بھلائی کے کام کئے لیکن اس کا سب سے بڑاکارنامہ بدھ کی تعلیمات کا فروغ تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اشوک اعظم کا دور بدھ مت کے عروج کا دور تھا۔ اس کی موت کے بعد اس مذہب کو ایسا دوام پھر کبھی نہ مل سکا۔ 232 قبل مسیح میں وہ مر گیا۔“ داستان گو یہ بتا کر خاموش ہوا ہے۔

مورخ اسے بادشاہوں کا بادشاہ کہتے ہیں۔ ’ایچ جی ویلز‘ اپنی کتاب ”دی آؤٹ لائن آف ہسٹری“(the out line of history) میں لکھتا ہے: ’وہ دنیا کے ہزاروں بادشاہوں میں سب سے زیادہ چمک دار ستارہ ہے۔‘

اشوک اعظم بڑا عرصہ گمنامی میں رہا۔ اُسے برطانوی ماہرین آثار قدیمہ جن میں ’الیگزنڈر چنی گھم‘ سر فہرست تھا, دوبارہ زندہ کیا۔ اشوک کی شخصیت اور طرز حکومت نے 3 ہزار سال گزرنے کے باوجود بھارتی تاریخ پر گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں بھارتی پرچم پر گول چکر کا نشان دراصل ’اشوکا چکر‘ ہی ہے۔ یاد رہے اس چکر (گول پہیہ) کے ذریعے اشوکِ اعظم نے بائیس (22) قوانین کی نشاندہی کی تھی، جو کسی بھی حکومت کے لئے ضروری ہیں۔ اس کا حکومتی نشان تراشے ہوئے 4 ہندوستانی شیروں کے مجسمے تھے اور یہی آج بھارت کا قومی نشان ہے۔

سندھو داستان آگے بڑھتا جا رہاہے؛ ”لداخ کی ایک خوبی یہ ہے کہ لداخی لداخ سے باہر نہیں جاتے مگر اجنبی یہاں آباد ہو جاتے ہیں۔ لداخی سادہ، محنتی، جفاکش اور محبت کرنے والے ہیں۔ آج کل ٹورسٹ گائیڈ بننا یہاں کے نوجوانوں کا محبوب پیشہ ہے جبکہ دوسری ترجیح فوجی ملازمت ہے۔ زراعت کو تو اب ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ لوگ آپس میں بیاہ رچاتے ہیں۔ مذہب، فرقے کی کوئی قید نہیں۔ جہیز جیسی لعنت سے یہ معاشرہ پاک ہے۔ (میرے لئے یہ حیران کن بات تھی کہ وہ ملک جہاں جہیز نہ لانے پر ہرسال ہزاروں دلہنیں جلا دی جاتی ہیں، اسی ملک کا ایک خطہ جہیز جیسی لعنت سے بچا ہوا ہے) تیر اندازی یہاں کی معاشرت کا اہم ترین حصہ ہے۔ موسم بہار کی آمد ہو یا کسی اور کام کی شروعات تیر اندازی کا مقابلہ لازمی ہے۔ تیر اندازی اور ناچ گانا لازم و ملزوم ہیں کہ ان کے بغیر ہر رسم ادھوری ہے۔۔ پولو لداخیوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ قدیم دور میں اس کھیل کے ضابطے نہیں تھے بس ’تھم‘ (ایک قسم کا باجا) بجتا، کھلاڑی اکٹھے ہوتے اور کھیل شروع۔ اب ایسی بات نہیں۔قوائد و ضوابط بن گئے ہیں اور انہی کے تحت یہ کھیل کھیلاجاتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر دلہا کے قریبی عزیز (ماموں، چچا، خالو، وغیرہ) شادی پر اٹھنے والے مختلف اخراجات مل جل کر برداشت کرتے ہیں۔ موت پر بھی یہی رواج ہے۔ میرے نزدیک یہ بڑی اہم بات ہے۔ ایسے مواقع پر باہمی امداد کسی بھی معاشرے کی بڑی خوبی ہے۔۔

”یہاں بہنے والی دیگر ندیاں اور میں مل کر اس وادی کی معاشیات میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیہہ، لدا خ اور باسگو بستیاں تو میرے کنارے پر آباد ہیں۔ پہاڑوں پر گھنے جنگل ہیں تو بستیوں کے قریب کھیت کھلیان اور زندگی کی رعنائیاں ہیں۔ لداخ کی ہریالی ان ندی، نالوں اور چشموں کی مرہون منت ہے جو مختلف گلیشیرز سے پھوٹتے ناگن کی طرح بل کھاتے بہتے ہیں۔ گندم، باجرہ، مٹر اور چاول اہم فصلیں ہیں۔ چاول اور مقامی سوپ لداخیوں کی مرغوب ترین غذا ہے۔ اونچے پہاڑوں پر علم نجوم astrology کی درس گاہیں ہیں۔ جنگلی حیات میں مارمٹ، چیتا، شیر، لال گردن والی کونج اور تبتی نسل کا خاص چھوٹے قد کا گھوڑا ’کیانگ‘ (kiang) شامل ہیں۔ علاوہ ازیں یہ وادی مقامی اور وسطی ایشائی ریاستوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے تقریباً دو سو پچیس (225) قسم کے پرندوں کا عارضی مسکن بھی ہے۔ لداخ ’یاک‘ کا گھر ہے اور یاک لداخیوں کی زندگی کا لازمی جزو۔ باربرداری سے لے کر ان کو دودھ اور گوشت بھی مہیا کرتا ہے۔ زیادہ تعداد میں یاک کسی کی ملکیت ہونا اس کی امارت کا اظہار ہے۔ بھیڑ بکریاں بھی یہاں کی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ ’جونی پر‘ juniper) یہاں کا سب سے خوبصورت اور خودرو درخت ہے۔ اس کا تعلق صنوبر کے خاندان سے ہے۔ جونی پر کے علاوہ پہاڑوں کو مضبوطی اور خوبصورتی فراہم کرتے ڈھلوانوں پر اُگے چیڑ، صنوبر اور ساگوان کے درخت ان پہاڑوں کا انتہائی خوش کن اور دیدہ زیب نظارہ پیش کرتے ہیں۔ تبتی زبان کی شاخ ’لداخی‘ یہاں کی ماں بولی ہے۔ اس کا اپنا رسم الخط نہیں بلکہ یہ تبتی رسم الخط میں ہی لکھی جاتی ہے۔ لداخی کے علاوہ اردو، ہندی اور انگریزی بھی یہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ’لداخ ہل ڈیویلپمنٹ کار پوریشن‘ یہاں کے انتظام و انصرام کی ذمہ دار ہے۔۔۔ انیسویں صدی کے آغاز میں لداخ میں سیاحت کو صنعت کا درجہ حاصل ہوا تو یہ ترقی ہی کرتی چلی گئی۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح اس وادی کی برف پوش چوٹیوں کا رخ کرتے ہیں اورمقامی لوگوں کی جیبیں پیسوں سے بھر جاتے ہیں۔“

میں نے جینز پہنے ایک نوجوان ٹورسٹ گائیڈ نجف عباس سے پوچھا؛ ’کب سے یہ کام کر رہے ہو دوست۔ کتنی تعلیم ہے تمہاری؟‘
آدھی اردو آدھی انگریزی میں اس نے جواب دیا، ’میں لداخ کا رہائشی ہوں، میٹرک تعلیم ہے اور پچھلے تین سال سے یہ کام کر رہا ہوں۔‘
’کہاں کہاں سے ٹورسٹ آتے ہیں۔‘ میں نے پوچھا
’بہت سے ممالک سے لیکن جاپانی زیادہ آتے ہیں جبکہ امریکی پیسے زیادہ دیتے ہیں۔ چار ماہ کے سیزن میں سال بھر کے پیسے جمع ہو جاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔‘ اس نے جواب دیا۔

شیر دریا بولے چلا جا رہا ہے؛ ”مقامی موسیقی میں ڈرم اور شہنائی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لوک گیتوں میں مذہبی رنگ نمایاں ہے۔ لداخی ناچ گانے کے شوقین ہیں۔ ناچ ان کے مذہبی تہواروں کا لازمی حصہ ہے۔ لوک گیتوں میں اچھائی اور برائی کی کشمکش بیان ہوتی ہے۔ دسمبر سے فروری تک آئس ہاکی بھی کھیلی جاتی ہے۔ وہ سامنے لن کن کے پہاڑی سلسلے سے ’دریائے زنکسار‘ آتا دکھائی دے رہا ہے۔“

میں نے سر کے اشارے سے بتایا؛ ”ہاں نظر آ گیا ہے۔“

وہ بولا؛ ”یہ میری پہلی قابل ذکر ’ٹربیوٹری‘ tributary دائیں کنارے سے میرے وجود میں داخل ہوتی ہے۔ یہاں سے آگے چلیں گے تو تمہیں میرا وجود زیادہ تنومند لگے گا۔ لڑکپن میں پہلا قدم۔ یہ لداخ کی آب و ہوا کا اثر ہے کہ مجھ ایسے کو بھی صحت مند کر دیتی ہے۔ صاف فضاء، تازہ ہو ااور آلودگی سے پاک ماحول لداخیوں کی صحت مند لمبی عمر کا راز ہے۔ تم نے محسوس کیا لدا خ کے کلچر میں تبتی ثقافت کی جھلک نمایاں ہے۔ اس دور دراز وادی کا آرٹ ہو یا کلچر، ادب ہو یا موسیقی سبھی میں بودھ رنگ نمایاں اور مقامی روایات کا بھرپور عکس اور نقش ہے۔ لداخ کی نئی نسل اب مغربی لباس سے متاثر ہے لیکن اکثریت آج بھی مقامی لباس کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ عورتیں گہرے شوخ رنگ کا لباس پہنتی ہیں جو عموماً کمر تک اونچی قمیض اور پاجاما ہوتا ہے۔ یہ یہاں کا قدیم روایتی لباس ہے۔ شادی شدہ عورت گلے میں سرخ رنگ کا مفلر پہنتی ہے۔ مرد اور عورت دونوں ہی گرمی سردی کے موسم میں لمبی آستین کی قمیض پہنتے ہیں۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close