پاکستان میں نظام تعلیم ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اکثر مقامات پر سرکاری طور پر تعلیمی سہولیات میسر نہیں ہیں، انفراسٹرکچر غیر معیاری ہے حتیٰ کہ بعض اوقات سرے سے موجود ہی نہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی سہولیات کمرشل بنیادوں پر عمل پیرا ہیں جن کی وجہ سے معیاری تعلیم کا انحصار بساط پر مبنی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں بھرتیاں پرائیویٹ اداروں کی بہ نسبت اگرچہ ایک مشکل مراحل سے گز ر ہوتی ہے لیکن سہولیات کی عدم موجودگی کی بنا پر اکثر استاد اپنی ذمہ داریاں انجام نہیں دے پاتے اور آمدنی کی مشکلات مزید تکلیف کا سبب بنتی ہیں
کرؤنا وائرس کے ابتدائی دنوں میں عالمی سطح پر تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے شدید خدشات نے جنم لیا۔ تعلیمی نظام عمومی طور پر لوگوں سے مربوط ہے جو ایک خاص ماحول میں اجتماعی طور پر تعلیم کے سفر کے شریک ہوتے ہیں۔ ان کی انفرادی صلاحیتیں، رجحانات اور محنت اپنی جگہ لیکن تعلیمی نظام کی اساس لوگوں کی گروہی حیثیت میں شمولیت سے مشروط رہی ہے جن کا دار و مدار انفراسٹرکچر پر ہوتا ہے جو پاکستان کے سرکاری اداروں کے اکثر طالب علموں کو میسر نہیں تھیں
کرؤنا وائرس کی وبا کے ابتدائی دنوں میں پہلی مرتبہ سوشل میڈیا کو منظم انداز میں تعلیمی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی جس کے لئے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔ یہ تجربہ تعلیمی نظام پر گہرے اثرات ثبت کر گیا جسے اکثر لوگوں نے یہ سوچ کر ترک کر دیا کہ کرونا کے بعد حالات زندگی معمول کی جانب لوٹ جائیں گے۔ وہ معمول کون سا تھا؟ ہے؟ یا ہو گا؟ اس پر مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ تاہم سوشل میڈیا کی تعلیمی نظام میں شمولیت سے تین اہم رجحانات سامنے آئے ہیں
ژاں لیوٹارڈ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف
The Postmodern Condition: A Report on Knowledge
میں علمی رجحانات میں کسی بھی بیانیے کی ہما گیری کو اہم موضوع بناتے ہوئے کہا کہ مابعد جدیدیت نے ایسے تمام بیانیوں کے عالمگیریت کو ختم کر دیا ہے لہٰذا جدیدیت کا یہ نظریہ کہ نسل انسانی ایک ہما گیر بیانیہ کا حصہ ہے سخت زیر تنقید آ گیا۔ اس میں سب سے زیادہ سوال مذہبی بیانیے پر اٹھائے گئے جو زندگی کے ہر پہلو پر اختیار کا دعویٰ کرتا ہے
تعلیمی نظام کو سروس مہیا کرنے والے ایک ادارے کے طور پر دیکھنا اس ابھرتی سوچ کی ایک کٹری ہے۔ ماضی میں پاکستان میں تعلیم کو فرد کی تعمیر سے منسوب کیا جاتا تھا اب کسی بھی تعلیمی ادارے کی افادیت طالب علم کو امتحان میں پاس کروانے اور ایک روزگار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنے تک محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ میرے مختصر تدریسی شعبہ سے وابستگی کے دوران والدین طالب علم کی فیس کو سروس چارجز کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی سوچ کا ایک عکس ہے جس میں تعلیمی اداروں کا مقصد پیشہ وارانہ تعلیم ہے کردار سازی نہیں
دوسرا اہم پہلو سوشل میڈیا کے تعلیمی نظام میں داخلے سے انفراسٹرکچر کے مسائل نے ایک بڑا بوجھ طالب علموں کے کاندھے پر ڈال دیا۔ وہ اپنے لئے تیز رفتار انٹرنیٹ، سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور بجلی کی عدم فراہمی کی صورت میں متبادل کا ذمہ دار ہو گیا۔ اس سے طالب علم جو کے پہلے ہی مزید معاشی بوجھ تلے دبہ ہوا تھا مزید پستی میں چلا گیا۔ یہ سب اشیاء کے فراہمی یک مشت انوسٹمنٹ نہیں، انٹرنیٹ کی ماہانہ فیس، فون کے سم کارڈ کا بل، ان کی دیکھ بھال کے اخراجات وغیرہ ملا کر اس کا معاشی بوجھ بڑھتا جاتا ہے
یہ ایک طرح سے اداروں کی جانب سے ذمہ داری ہٹا کر طالب علموں کی جانب منتقل کر دیتا ہے۔ اگر کوئی ان سب کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا وہ کیا کرے؟ کرونا کیسز میں کمی کے بعد تعلیمی اداروں کے اس ڈگر کو اپنے کمرشل مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ تعلیمی اداروں کے اشتہارات میں آن لائن فیچر اب ایک ایسا حصہ بن گیا ہے جس کو نئے طالب علموں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا بوجھ اساتذہ پر پڑا جن کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کے استعمال سے واقف نہیں تھی
پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کارکردگی کو ان کے سوشل میڈیا استعمال پر جانچا جانے لگا، جس سے ان کے لئے نفسیاتی دباؤ میں اضافہ ہوا۔ ان پر بھی انفراسٹرکچر کا بوجھ ڈال دیا گیا جو اسی طرح جاری رہے گا۔ اب ہر طالب علم اور استاد سے سوشل میڈیا کے استعمال کی مہارت کی توقع تعلیمی نظام کا حصہ بن گئی ہے اور تعلیمی ادارے معاشی فائدے میں چلے گئے ہیں کیونکہ ایسی حالت میں انفراسٹرکچر ان کی ذمہ داری نہیں رہی۔ یہ لیوٹارڈ کے ایک اور تنقیدی پہلو سے مربوط ہے جس میں وہ موجودہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کو علم پر اجارہ دار ٹھہراتا ہے
اس سب سے تعلیمی نظام کی کمرشلائزیشن میں تیزی آئی ہے۔ تعلیم بنیادی حق کی بجائے استعداد کی بات بن گئی ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو تعلیم آپ کے قدموں میں جہاں جی چاہے اپنے بچے کو داخل کروائیں اور بھول جائیں کیونکہ رزلٹ کی ذمہ داری ادارے پر ہے۔ پاکستان میں ایک پرائیویٹ ادارے میں پڑھانے کے دوران کتنے کی والدین اپنے بچے کے فیل ہونے پر ادارے سے شکایت کرتے۔ اس سرمایہ داری رویے نے علم کو کسی قدر پیچھے دھکیل دیا ہے۔ تعلیم محض اچھے رزلٹ سے بہترین نوکری تک کا سفر رہ گئی ہے
سوشل میڈیا کے تعلیمی نظام میں داخلے نے تعلیم کے معیار پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ کیا کسی بھی ذریعے سے امتحان میں کامیابی جائز ہے۔ ؟ پرائیویٹ اداروں میں استاد کے کامیاب طالب علم اس کے مالی استعداد میں اضافے کا سبب ہیں اس لئے وہ بھی اکثر اس سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں کہ کیا علم حاصل کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ مارک شیٹ آپ کے علم کا ثبوت ہے، ذہانت اور علمی استعداد کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میری کلاس کا ایک ذہین طالب علم کمپیوٹر میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا تھا مگر غضب کا مصور تھا پھر بھی سب کے لئے کند ذہن تھا کیونکہ اس کے نمبر دوسروں سے کم تھے
کرونا کے عروج کے دوران تعلیمی پالیسی کے باعث اب وہ بھی کمپیوٹر میں مہارت رکھتا ہے کیونکہ ماضی کی کارکردگی کے باعث اس کا بیڑا پار ہو گیا۔ والدین اور معاشرہ تعلیمی نظام کے کردار سازی کی ذمہ داری پر لاکھ سوال اٹھائیں بالآخر تعلیمی ادارے میں داخلے کے لئے اس کے کامیاب طلبہ کی تعداد ہی فیصلے کا بنیادی جز ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اشتہار اس ضمن میں فیصلہ کن ہیں اور یہی ہمارے تعلیمی نظام میں کسی بھی ادارے کے منتخب کرنے کا بنیادی ذریعہ بن گئے ہیں
سوشل میڈیا کے باعث ایک مثبت صورتحال نے بھی جنم لیا ہے اب علمی ماخذ کے تکثیریت اور متعدد خیالات تک رسائی ممکن ہے۔ کسی بھی فرد، ادارے اور نظام کی اجارہ داری کا خاتمہ تو ہو گیا لیکن اس میں الجھن کا نہیں۔ اب فرد ذاتی حیثیت میں اپنے مرضی کا مالک ہے وہ جس خیال سے متفق ہونا چاہے صداقت انتخاب کا معیار نہیں۔ کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ سوشل میڈیا سے مستفید ہونے سے نہیں روک سکتا۔ سوشل میڈیا پر موجود علمی ماخذ کے معیار کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا
آپ کے پاس وسائل ہیں تو آپ اپنی تشہیر کر کے علم کا مرکز بن سکتے ہیں اور اگر آپ صارفین کے تصویری خیالات پر پورے اترتے ہیں تو حقائق کے مصدق ہونے پر کوئی سوال نہیں اٹھائے گا۔ سوشل میڈیا کی یہ تصویری دنیا ہمارے علم کے معیار، حصول اور رجحان کا مرکزی حصہ بن چکی ہے اگر ہم اس سمت میں گامزن رہے تو تحقیق کی موجودہ پرسان حال صورت سے ہم مزید پستی کی جانب نکل جائیں گئے۔ اس جانب مزید ٹھوس تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔
بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)