جب فیول یا ایندھن بھرنے والا (ایندھن فراہم کرنے والی کمپنی) آپ کو ایندھن فراہم کرتا ہے اور ایندھن کی رسید پر دستخط کرنے کے لیے کاغذات لے کر آپ کے پاس آتا ہے، تو وہ ہمیشہ یہ لکھتا ہے کہ آپ کو اتنے لیٹر یا گیلن فراہم کیے گئے ہیں
لیکن معاملہ جب جہاز کا ہو تو ہر جگہ لٹر کے حساب سے استعمال ہونے والا ایندھن، یہاں کلوگرام کے حساب سے ڈلوایا جاتا ہے۔ جی ہاں، جس طرح ہم آلو اور ٹماٹر کلو کے حساب سے خریدتے ہیں، بالکل اسی طرح ہوائی کمپنیاں جہاز میں ایندھن کلو کے حساب سے بھرواتی ہیں
لیکن ایسا ایک خاص مقصد کے تحت کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوائی جہاز کے استحکام اور کنٹرول کا ایک بہت اہم جزو وزن اور مرکز ثقل (CG) ہے۔ جیسے جیسے پرواز کے دوران ایندھن استعمال ہوتا ہے، جہاز میں ایندھن کا کل وزن کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کیونکہ ایندھن کو ونگ ٹینکوں میں لے جایا جاتا ہے، ایندھن کی کھپت کے نتیجے میں ہوائی جہاز کے CG کی تبدیلی ہوتی ہے۔ ہوائی جہاز کے سی جی کو مخصوص حدود میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ ایندھن کے انتظام کی پالیسی کے ذریعہ کیا جاتا ہے
دراصل اڑان بھرنے کے لیے جہاز کا ایک مخصوص وزن ہونا چاہیے، جو کہ کلوگرام کے پیمانے پر ناپا جاتا ہے۔ اگر ایندھن کو پاؤنڈ یا گیلن کے پیمانے پر بھرا جائے گا تو معاملہ بگڑ جائے گا اور جہاز لڑکھڑا جائے گا اور اڑان بھرنے لائق نہیں رہے گا۔ لہٰذا تمام وزن کلوگرام میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، تاکہ دورانِ پرواز جہاز کا توازن مستحکم رہے
آپ نے دیکھا کہ یہ سارا انتظام وزن سے کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہوائی جہاز میں ایندھن کو ہمیشہ وزن یعنی کلوگرام سے ناپا جاتا ہے
جہاز میں اتنا ایندھن بھرا جاتا ہے کہ اگر منزل مقصود پر پہنچنا ممکن نہ ہو تو کسی قریبی شہر کے ہوائی اڈے پر جہاز اتارا جا سکے۔ دنیا کے تمام مسافر بردار جہاز اتنا اضافی ایندھن ضرور لے کر پرواز کرتے ہیں کہ ہنگامی حالات میں پہلے دستیاب ہوائی اڈے پر اسے اتارا جا سکے
اس اضافی ایندھن کو ہنگامی ایندھن Contingency Fuel کہتے ہیں۔ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ ہنگامی ایندھن وہ ایندھن ہے، جو غیر متوقع حالات مثلاً موسم کی تبدیلی یا ایئر ٹریفک کنٹرول کی رکاوٹوں کی وجہ سے راستے کی تبدیلی اور ہولڈنگ وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اگر کوئی جہاز اپنے وقت پر روانہ نہ ہوسکے تو لینڈنگ کے انتظار میں دوسرے جہاز کو کچھ اضافی وقت محوِ پرواز رہنا پڑتا ہے۔ اس دوران وہ جہاز ہوائی اڈے کے چکر لگاتا رہتا ہے، جس کے لیے ظاہر ہے اضافی ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو ’ہولڈ‘ کہا جاتا ہے
کسی اور ہوائی اڈے تک جانے کی نوبت عموماً موسم کی خرابی کے باعث آتی ہے۔ دھند کی وجہ سے بھی اکثر پروازوں میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ شہر کے مقابلے میں ہوائی اڈے کے رن وے پر دھند زیادہ ہوتی ہے۔ شہر میں نسبتاً صاف موسم کے باوجود جہاز کو اترنے کے لیے ایک مخصوص حدِ نگاہ چاہیے ہوتی ہے، جو رن وے پر شہر کے مقابلے میں دیر سے میسر ہوتی ہے
جہاز میں جو استعمال ہونے والے ایندھن کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ انتہائی بہترین (Refined) مٹی کے تیل کا مرکب ہوتا ہے۔ اس تیل کو جلنے کے لیے 49 ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت چاہیے ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں پیٹرول پر مبنی ایندھن کی نسبت اسے بھڑکنے کے لیے کافی زیادہ درجہ حرارت درکار ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ حفاظت کے لحاظ سے زیادہ موزوں ہے
جہاز کا ایندھن اس کے پروں میں ہوتا ہے۔ پانی کو تو جہاز خاطر میں نہیں لاتا لیکن اگر پروں پر برف جم جائے تو جہاز اڑنے لائق نہیں رہتا۔ انہیں پروں کے اندر جہاز کا ایندھن گردش کر رہا ہوتا ہے کیونکہ پروں کے نیچے جہاز کے انجن نصب ہوتے ہیں
ایندھن کے ٹینک جہاز کے پروں کے اندر اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ ٹیک آف کے دوران، خاص طور پر جب وہ مکمل بھرے ہوئے ہوتے ہیں تو انجن جہاز کو مستحکم رکھیں تاکہ جہاز کا وزن پرواز کے دوران ہر طرف سے یکساں رہے
ایک اور وجہ یہ کہ جہاز کا کیبن یعنی اندرونی حصہ جہاں مسافر بٹھائے جاتے ہیں اس کو بنانے کے لیے زیادہ جگہ میسر آتی ہے۔ حفاظتی لحاظ سے بھی یہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح ایندھن جہاز کی باڈی اور مسافروں سے دور ہوجاتا ہے اور مسافروں کے لیے پرواز کے دوران چلنا پھرنا آسان ہو جاتا ہے۔