سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پولیس اہلکاروں کے شکنجے میں موجودگی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی قیدیوں کے لباس میں اور چینی صدر کے پیر پڑنے کی تصاویر گزشتہ کچھ دنوں سے ٹوئٹر اور دیگر پلیٹ فارمز پر گردش کر رہی ہیں۔
تو کیا ٹرمپ گرفتار ہوگئے ہیں؟ یا کیا روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے ہیں؟ یا انہوں نے چینی صدر کے پاؤں پکڑ لیے ہیں۔ ان تصاویر کو ایک نظر دیکھتے ہی یقیناً یہی خیال آتا ہے
لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ان تصاویر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تمام تصاویر مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنسی یعنی اے آئی) سے چلنے والے انتہائی نفیس اور وسیع پیمانے پر قابل رسائی امیج جنریٹرز سے تیار کی گئی تھیں
یہ تصاویر ایسے موقع پر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں، جب ٹرمپ ایک مقدمے میں اپنی گرفتاری کا شبہ ظاہر کر رہے ہیں جبکہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے صدر ولادیمیر پوٹن کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہوئے ہیں
جبکہ ولادیمیر پوٹن کی ایک اور تصویر بھی سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر وائرل ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ روسی صدر چینی ہم منصب کے ماسکو پہنچنے پر ان کے سامنے گھٹنوں کے بل جھک کر ان کے ہاتھ چومتے ہوئے ان کا استقبال کر رہے ہیں
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ خبروں کے بڑے واقعات کے بعد جعلی تصاویر اور وڈیوز کا سوشل میڈیا پر سیلاب امنڈ آنا معاشرے کے لیے خطرنات ہے، جس سے حقیقت اور افسانے میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے
غلط معلومات کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے والے یونیورسٹی آف واشنگٹن کے پروفیسر جیون ویسٹ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر وائرل جعلی تصاویر نے بحرانی صورتِ حال کو مزید ہوا دی ہے اور اس نے مایوسی کو بھی بڑھایا ہے۔ ان کے بقول، فیک تصاویر یا وڈیوز سامنے آنے کی صورت میں آپ کا معلومات کے ذرائع سے اعتماد اٹھنا شروع ہوجاتا ہے
تصاویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا اور جعلی تصاویر بنانے کی صلاحیت کوئی نئی چیز نہیں لیکن مصنوعی ذہانت کے بعد اب ان میں مزید جدت آ گئی ہے اور نئے ٹولز کو استعمال کرنا نسبتاً آسان ہے
‘مڈجرنی Midjourney،’ ڈیل ای DALL-E’ اور دیگر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے امیج جنریٹرز ٹولز ہیں
مصنوعی ذہانت سے چلنے والے یہ امیج جنریٹرز بہت جلد ایسی تصاویر بنا دیتے ہیں، جو حقیقی لگتی ہیں اور ان تصاویر میں پس منظر کی تفصیلات بھی مکمل ہوتی ہیں
ٹرمپ اور پوٹن کی وائرل ہونے والی کچھ تصاویر رواں ماہ ریلیز ہونے والے مڈجرنی کے ٹیکسٹ ٹو امیج سنتھیسز ماڈل کے نئے ورژن سے بنائی گئی تھیں۔ یہ نیا ورژن دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ خبر رساں اداروں کی تصاویر کے انداز کو بھی نقل کرتا ہے
ٹوئٹر پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی تصاویر کا جو تھریڈ وائرل ہے وہ ایلیٹ ہیگنس کا ہے، جو نیدرلینڈز میں موجود تحقیقاتی صحافتی گروپ بیلنگ کیٹ کے بانی ہیں
انہوں نے حال ہی میں ٹرمپ کی فرضی گرفتاری کی ڈرامائی تصاویر کے لیے مڈجرنی کے تازہ ترین ورژن کا استعمال کیا تھا اور ان کی بنائی گئی تصاویر تیزی سے وائرل ہوئی تھیں، جب کہ کئی عالمی اداروں نے اس پر خبریں بھی کیں
ہینگس کی شیئر کردہ تصاویر میں وردی میں ملبوس پولیس اہلکاروں کو ٹرمپ کو پکڑتے ہوئے اور پرتشدد انداز میں گھسیٹتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح روسی صدر کی گرفتاری اور انہیں قیدیوں کی وردی میں دکھایا گیا ہے
ایلیٹ ہیگنس کہتے ہیں انہوں نے یہ تصاویر کسی بڑے مقصد کے لیے پوسٹ نہیں کیں۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹر تھریڈ میں بھی واضح کیا ہے کہ یہ تصاویر مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی ہیں
نیویارک میں موجود انسانی حقوق کی تنظیم وٹنس کی میڈیا ٹیکنالوجسٹ شیریں اینلن کہتی ہیں کہ یہ کافی نہیں ہے کہ ہیگنس جیسے صارفین اپنی پوسٹس میں واضح طور پر کہہ دیں کہ تصاویر اے آئی (مصنوعی ذہانت) سے بنائی گئی ہیں اور یہ صرف تفریحی مقاصد کے لیے ہیں
ان کے بقول اکثر دوسروں کی جانب سے وژولز کو اس کے اہم سیاق و سباق کے بغیر تیزی سے ری شیئر کیا جاتا ہے۔ ایک انسٹاگرام پوسٹ نے ہیگنس کی ٹرمپ والی تصاویر کو شیئر کیا اور اس نے 79 ہزار سے زیادہ لائکس حاصل کیے جیسے وہ اصل ہوں
ان کا کہنا تھا کہ آپ ایک تصویر دیکھ رہے ہیں اور جب آپ کچھ دیکھ لیتے ہیں تو اسے ان دیکھا نہیں کر سکتے
اس معاملے پر ‘اے پی’ کی جانب سے سان فرانسسکو میں موجود آزاد تحقیقاتی لیب ’مڈجرنی‘ سے مؤقف حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اصل اور جعلی تصویر میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟
آرٹیفشیل انٹیلیجنس کے ماہر اور بی بی سی کی ریڈیو سیریز دی فیوچر ول بی سنتھیسز کے پریزینٹر ہنری اجدر کہتے ہیں کہ موجودہ ٹیکنالوجی جسم کے بعض حصوں خصوصاً ہاتھوں کی تصویر کشی کے لیے بہت اچھی نہیں ہے
وہ کہتے ہیں ”اگر آپ ان تصاویر کو زوم ان کریں تو اکثر آپ کو ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد میں فرق نظر آئے گا“
اس کی جانچ کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ چند نیوز سائٹ دیکھیں تو آپ کو اس کی تصدیق ہو جائے گی کہ ٹرمپ کو گرفتار یا ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ کم از کم اب تک وہ مجرم نہیں ہیں
اگر ٹرمپ کو الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ان کی گرفتاری پوری دنیا میں سرخیوں کی خبر بن جائے گی۔ اور آپ تصور کر سکتے ہیں اگر سابق صدر کسی طرح پولیس سے فرار ہو جاتے ہیں تو میڈیا کی شہہ سرخیاں کیا ہوں سکتی ہیں
اس کو جانچنے کے لیے ایک اور اچھا طریقہ اس سیاق و سباق کے بارے میں سوچنا ہے، جس میں یہ تصویر شیئر کی جا رہی ہے۔ کون اسے شیئر کر رہا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟
ہنری اجدر کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ اپنے وسیع تر سیاسی خیالات و نظریات کو بڑھانے کے لیے تصاویر شیئر کرتے ہیں، یہاں تک کہ اکثر وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ آیا یہ تصاویر مستند ہیں بھی یا نہیں
وہ مزید کہتے ہیں ”ہم نے ایسی جعلی تصاویر اور وڈیوز کی دیگر مثالیں بھی دیکھی ہیں، جیسا کہ نینسی پیلوسی کی آڈیو ریکارڈنگ کو آہستہ کر دیا گیا تھا تاکہ وہ نشے میں دھت محسوس ہوں“
یہ ہیرا پھیری کا بڑا ہی شاندار طریقہ تھا، جس نے بہت سے لوگوں کو بیوقوف بنایا تھا یا کم از کم جس پر بہت سے لوگ یقین کرنا چاہ رہے تھے
ان تصاویر کو اگر غور سے دیکھیں تو یہ خود بہت سی عجیب تفصیلات بتا دیتی ہیں۔ جیسا کے غیر فطری جلد اور چہرے کی رنگت، چہرے کے دھندلے نقش اس کی بہت بڑی علامت ہیں کہ تصویر جعلی ہے
جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک حالیہ جعلی تصویر میں ہے۔ تصویر کے دائیں جانب ایک شخص واضح طور پر دھندلے چہرے کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے اور ٹرمپ کے بال بھی دھندلے نظر آتے ہیں، جبکہ ان کا چہرہ فوکس میں ہے
اسی طرح آرٹیفیشل انٹیلیجنس اب تک آنکھوں کو بھی اچھی طرح پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے
جیسا کے ایک تصویر میں پولیس اہلکار ڈونلڈ ٹرمپ کا پیچھا کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ بالکل مختلف سمت میں دیکھ رہے ہیں
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ جعلی تصاویر کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر جس رفتار سے اے آئی کے شعبے میں کام ہو رہا ہے اور جتنی جدت آ رہی ہے، اس کے غلط استعمال کے بہت امکانات ہیں اور یہ وہ چیز ہے، جس کے بارے میں ہمیں فکرمند ہونا چاہیے
ایک ڈجیٹل مواد کا تجزیہ کرنے والی کمپنی ٹروپک کے منیر ابراہیم کہتے ہیں ’مصنوعی مواد تیزی سے تیار ہو رہا ہے اور مستند اور جعلی مواد کے درمیان فرق کو سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شہرت سے جعلی تصاویر کی نشاندہی آسان ہو جاتی ہے۔ لیکن نامعلوم لوگوں کی تصاویر اس کام کو مزید مشکل بنا سکتی ہیں اور ایسے میں اے آئی ٹیکنالوجی بھی ہر وقت بہتر ہوتی جا رہی ہے۔