آڈیو لیکس: فون ریکارڈنگ کس قانون کے تحت ہے؟

رضا ہمدانی

فون کال کو ٹیپ کرنا یا اس کی ریکارڈنگ قومی سلامتی کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے، جو ایک نہایت ہی سنجیدہ جرم ہے

شدت پسندوں کے فون ریکارڈ کرنا الگ بات ہے لیکن اگر سیاستدانوں، ججوں اور دیگر حکومتی عہدیداران کے فون ریکارڈ کیے جائیں تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے، جسے محض سیاسی حربہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہیے

افغانستان میں امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے حال ہی میں پاکستان کے موجودہ حالات کے بارے میں ٹویٹ کیا اور کہا کہ ’پاکستان کو اس وقت سیاسی، معاشی اور سکیورٹی جیسے تین بڑے بحرانوں کا سامنا ہے۔‘ لیکن سب سے بڑا خطرہ پاکستان کو ان آڈیوز اور وڈیوز سے ہے جو ہر دوسرے تیسرے روز منظرِ عام پر آتی ہیں

حیرت کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما اعظم سواتی کی وڈیو جو ان کی اہلیہ کے ساتھ خفیہ طور پر بنائی گئی، وہ ان کی بیٹی کو بھیجی جاتی ہے۔ وہ ٹی وی چینلز پر آ کر رو پڑتے ہیں لیکن ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا

نہ تو انسانی حقوق کے علم بردار بولے، نہ عدلیہ اور نہ ہی کسی سیاستدان نے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اس گھناؤنے اور غیر قانونی عمل کی مذمت کی۔ سیاستدان بلکہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر ایسا نہ ہوا تو مزید وڈیوز منظر عام پر لائی جا سکتی ہیں، جن میں اعلیٰ عہدیداران کے نام بھی لیے گئے ہیں

کبھی پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آ رہی ہوتی ہے تو کبھی کسی کی۔۔ حال ہی میں ایک آڈیو منظر عام پر آئی جس میں مبینہ طور پر یاسمین راشد اور صدر عارف علوی کی بات چیت ہو رہی ہے۔ عارف علوی! جی صدر عارف علوی جو پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں۔ کیا کسی ٹی وی چینل نے یہ آڈیو کلپ چلانے کے ساتھ اس سوال کو اٹھایا کہ یہ تو مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی آڈیو ہے، ان کا فون کس نے اور کس کے کہنے پر ریکارڈ کیا ہے؟

آڈیو لیکس کا یہ سلسلہ کچھ عرصے قبل شروع ہوا۔ ان آڈیو لیکس کے شر سے مبینہ طور پر پرائم منسٹر آفس بھی نہیں بچا، جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی آڈیو لیک ہوئی، جو مبینہ طور پر اس وقت کی ہے جب وہ وزیراعظم تھے اور وہ گفتگو پرائم منسٹر آفس میں کی گئی

پرائم منسٹر ہاؤس ایسی جگہ ہے جہاں نہایت حساس قسم کے معاملات پر بات چیت ہوتی ہے اور اس کو محفوظ مقام سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر وہاں پر بھی فون ریکارڈنگ کی جا سکتی ہے تو اس حساس جگہ کی سکیورٹی کمپرومائز ہو چکی ہے

یہ سلسہ ایسا شروع ہوا ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ پھر پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کی آڈیو سامنے آتی ہے۔ لیکن صدر مملکت کی مبینہ آڈیو کے بعد یہ کہنا ہرگز غلط نہیں ہوگا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ پوچھا جائے کہ آخر کس قانون کے تحت فون ریکارڈ کیے جا رہے ہیں؟ کون کر رہا ہے؟ کس کے کہنے پر؟ ان سے کیا حاصل کیا جانا مقصد ہے؟ اور کیا ملک میں کوئی چیک اور بیلنس نہیں رہا کہ یہ سب کچھ ہو کیا رہا ہے؟

دوسری جانب ایسی مبینہ آڈیوز میڈیا میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ ایک آڈیو سوشل میڈیا پر آتی ہے اور کچھ میڈیا ہاؤسز اس کو چلاتے ہیں۔ چند اسے ہیڈ لائن بناتے ہیں

اپنے دفاع میں میڈیا ہاؤسز اس آڈیو کے ساتھ مبینہ کا لفظ لگا کر چلاتے ہیں۔ میڈیا کے اس عمل سے ایسی آڈیوز جن کے اصل ہونے کا معلوم نہیں ہوتا وہ سوشل میڈیا سے نکل کر میڈیا میں آ جاتی ہیں

چند ہی لمحوں میں ایک آڈیو جو ایک صارف نے شیئر کی ہوتی ہے، مین اسٹریم میڈیا میں آنے کے بعد ہزاروں اور لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور ایک افواہ لوگوں کے لیے حقیقت بن جاتی ہے

سلیکٹو انصاف، انصاف نہیں ہوتا بلکہ یہ ناانصافی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ برابری کے اصول کی نفی کرتا ہے اور قانون کی عملداری میں نہ صرف دخل دیتا ہے بلکہ انصاف کے حصول کو مشکل بنا دیتا ہے

ہم لوگ اب دفاتر میں قائداعظم کی تصویریں ٹانگنے اور ان کے اقوال کو صرف کالم نگاری کی حد تک ہی اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے 30 اکتوبر 1947 کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ترقی کرنے کا سب سے اہم جزو قانون کی عملداری پر سختی سے عمل کرنا ہے۔

بشٹ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close