سنہ 2007 میں بینک ناردرن راک کی شاخوں کے باہر ہجوم اور پھر 08-2007 کے مالیاتی بحران کا آغاز، اس کے ایک برس بعد بینک بریڈفورڈ اینڈ بنگلے پر بھی برا وقت۔۔ لیکن اب صورتحال مزید مشکل ہو گئی ہے
اس مشکل کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے تصور کریں کہ اگر 08-2007 کا بحران ٹوئٹر، فیسبک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے زمانے میں آیا ہوتا تو کیا صورتحال ہوتی؟
لیکن یہ تصور آخر کیوں کیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امریکی تاریخ کے تیز ترین بینک ’سلیکون ویلی بینک‘ کو حال ہی میں اس وقت انتہائی شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا جب سوشل میڈیا پر یہ افواہ اڑی کہ اس بینک کو بھی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے اور ایسے افراد جنہوں نے بینک میں انشورنس کے بغیر رقم رکھوائی تھی، انکوں نے دھڑا دھڑ رقم نکلوانے میں ہی عافیت جانی اور یوں ایک دن میں چالیس ارب ڈالر کی خطیر رقم بینک سے نکلوا لی گئی
یہ بات سلیکون ویلی بینک امریکی کی وائس چیئرمین مائیکل بار نے امریکی سینیٹ کو گذشتہ روز بتائی ، انہوں نے مزید کہا ”اگلے روز بینک ایس وی بی کو اس سے بھی زیادہ رقم کے انخلا کا ڈر تھا اور یوں جن افراد نے رقم رکھوائی ہوئی تھی ان میں واضح گھبراہٹ پائی گئی“
یہ رقوم ہوش اڑا دینے والی ہیں اور یہ ایک براعظم سے دوسرے تک بھی پہنچی۔ بینک آف انگلینڈ نے پیر کو اپنے اراکینِ پارلیمان کو بتایا کہ ’ایس وی بی برطانیہ‘ سے لوگوں نے ایک ہی دن میں تین ارب پاؤنڈ یا یہاں موجود تیس فیصد رقم نکلوا لی ہے
بینک آف انگلینڈ کے گورنر اینڈریو بیلے نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا ”سلیکون ویلی بینک سے جو سبق ہم سیکھ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں کتنی تیزی سے لوگ رقوم بینکوں سے نکلوا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈجیٹل بینکنگ کے دور میں سوشل میڈیا کو کس طرح خسارے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ پندرہ سال قبل ناردرن راک کے باہر لگی قطار سے بہت مختلف ہے“
اینڈریو بیلے کے مطابق بینکوں کے تحفظ سے متعلق قوانین تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا وہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں
یہ صورتحال دراصل انٹرنیٹ بینکنگ اور سوشل میڈیا کے ملاپ کے باعث پیدا ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے نظام جو بھروسے، اعتماد اور یقین پر بنائے گئے تھے، اب انہی کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں
میسجنگ ایپس واٹس ایپ اور سلیک پر ٹیکنالوجی کے شعبے کے بڑے نام بھی کمپنیوں کو اپنی رقم نکلوانے کے مشورے دیتے دکھائی دیتے ہیں
ایس وی بی کے ساتھ جو ہوا وہ دراصل ’ایک سو میٹر ورلڈ ریکارڈ اولمپک بینک سپرنٹ‘ تھی۔ جہاں ایس وی بی کی اپنی مخصوص صورتحال تھی اور اس میں رقم رکھنے والے ایک ہی صنعت سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے اکثر کی رقوم انشورنس شدہ نہیں تھیں، اس لیے اس حوالے سے وسیع پیمانے پر خدشات نے جنم لیا
اہم سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ’بینک رن‘ کے نام سے کی جانے والی سرچ میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مشہور افراد صارفین کو بینکوں سے رقوم نکلوانے کی تجویز دیتے نظر آئے
اس کی ایک وجہ عام ماہرِین پر اعتماد کی کمی اور کرپٹو کرنسی کے حوالے سے مہارت رکھنے والوں پر یقین ہے۔ بٹ کوائن اور کرپٹو کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام بینکنگ پر آن لائن بہت زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اس وقت ایسے افراد اکثریت میں موجود ہیں، جو سنہ 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران موجود نہیں تھے
اس سب کے دوران جس بات نے چیزوں کو مزید پیچیدہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ میں بینکوں میں رقوم رکھوانے کی گارنٹی میں کیا شامل ہوتا ہے اور کیا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں سوشل میڈیا پر جنم لینے والی بد اعتمادی کی فضا کی وجہ سے بھروسے پر چلنے والے نظام کی کمزوریاں واضح ہو گئیں
اسی تناظر میں بینک آف انگلینڈ کے ریگولیٹر پروڈینشل ریگولیشن اتھارٹی کے سربراہ سام وڈز نے گذشتہ روز اراکینِ پارلیمان کو بتایا کہ انہیں بینکوں سے رقوم کے انخلا کی رفتار کے حوالے سے اپنے خیالات کو تبدیل کرنا ہوگا
’لکویڈٹی کوریج ریشو‘ کے مطابق بینک ایک مہینے کے عرصے میں صرف صفر سے 20 فیصد ریٹیل ڈپازٹ یا 20 سے 40 فیصد کارپوریٹ ڈپازٹس سے محروم ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ ایس وی بی برطانیہ نے ایک دن میں اپنے تیس فی صد ڈپازٹ کھو دیے تھے۔