”اگر تم سچ مچ اندھے ہو گئے تو میں یہ دکھ برداشت کرسکوں گی؟ تمہیں ٹھوکریں کھانے اور اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے مجھ سے تو نہ دیکھا جائے گا۔۔ خدا کرے ایسا نہ ہو، ورنہ ہمارا تمام مستقبل تباہ ہوجائے گا“
اس کی بیوی اُٹھتے بیٹھتے کبھی مدہم کبھی اونچے سروں میں ایسی باتیں کرنے لگی تھی۔ اب اسے یقین ہونے لگا تھا کہ اس کی بیوی اس سے مذاق نہیں کر رہی بلکہ بے حد دکھی، سنجیدہ اور مایوس ہے۔ وہ کہتی، ”ایسا دن آنے سے پہلے تو یہ بہتر ہے کہ ہمیں موت آجائے۔“
وہ سنتا رہتا، خاموش رہتا، کوشش کرتا کہ خود کوئی بات نہ کرنی پڑے۔ بیوی کہتی، ”آؤ۔ ہم اپنے آپ کو ختم کر دیں۔ اس طرح زندہ رہنا تو موت سے بھی بدتر ہوگا۔“
بعض اوقات اس کی بیوی کوئی ایسی بات کہہ جاتی کہ اسے تائید کرنی پڑتی۔ خاموشی کا قفل توڑنا پڑتا اور وہ کچھ اس قسم کا جواب دیتا ”پچھلی رات بستر پر لیٹے میرے دل میں اچانک ایک خیال آیا۔ پھر میں دیر تک سوچتا رہا۔۔ ’فرض کرو میں واقعی اندھا ہوجاتا ہوں، تو میں کیا کروں گا۔ اندھے آدمی کے لیے دنیا میں کتنے کام رہ جاتے ہیں کہ وہ زندہ رہ سکے لیکن انسان کو زندہ رہنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔‘ خیر تو میں نے ایک راہ ڈھونڈ نکالی ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ میں جاسوسی کہانیاں لکھا کروں گا۔ ہاں! یہ کام تو کر سکتا ہوں۔ میں تمہیں کہانی لکھواتا جایا کروں گا۔ یوں کام آسان ہوجائے گا اور اچھی خاصی آمدنی بھی ہو جائے گی۔ دیکھو اسے مذاق نہ سمجھو۔ میں جاسوسی کہانیاں لکھ سکتا ہوں۔“
وہ اس وقت پپوٹوں کے پیچھے چھُپی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنی بیوی کی طرف چہرہ کئے تھا۔ اس کی پشت کھڑکی کی طرف تھی۔ جہاں سے موسم سرما کی میٹھی کنگنی دھوپ کمرے کے اندر آ رہی تھی۔ اس کی بیوی سنجیدگی سے سوچنے لگی، کہ واقعی اس کے شوہر کی بینائی جاتی رہی اور وہ جاسوسی کہانیاں لکھنے لگا تو کیسا نظر آیا کرے گا۔۔ اندھی آنکھیں، جو کنگنی اور میٹھی دھوپ کو دیکھ نہیں سکیں گی۔۔ اور وہ ان اندھی اور بےنور آنکھوں سے اپنی جاسوسی کہانیوں کے کرداروں کو تصور میں چلتے پھرتے کیسے دیکھا کرے گا۔ اندھیرا ہی اس کی کُل کائنات بن جائے گا۔ اوہ خوہ۔۔۔۔۔۔ یہ جاسوسی کہانیاں، قتل، خون، چاقو، خنجر، ریوالور مجرموں کی ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھا پائی۔ گھتم گتھا ہونے اور ایک دوسرے کو زخمی کرنے کے مناظر۔۔۔۔۔۔
اس کی بیوی کو یوں لگا کہ جیسے کسی نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہے۔ ’تو کیا میرا شوہر جو اندھی اور تاریک دنیا میں رہے گا، وہ اپنی دنیا سے بھی زیادہ تاریک اور گھناؤنی سوسائٹی تخلیق کرے گا؟‘
وہ اس خیال کے تصور سے ہی کانپ گئی ’نہیں ۔۔ نہیں۔۔۔‘ وہ بے ساختہ چیخنے لگی ”مجھے یہ پسند نہیں۔۔ مجھ سے یہ سب کچھ نہیں دیکھا جائے گا۔۔ بس اس سے تو یہی بہتر ہے کہ ہم مرجائیں۔“ وہ اپنی بیوی کی بات سُن کر مسکرا دیا
ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا تھا کہ وہ اندھا ہو چکا ہے یا نہیں۔ ابھی تو اس کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا تھا۔ اچانک ہوا تھا، اس کی بینائی یکدم کمزور پڑ گئی۔ آنکھوں کے کونے سوج گئے۔ یہ صورتِ حال تکلیف دہ تھی۔ کیونکہ آنکھوں کے ڈھیلے شدت سے متاثر ہونے لگے تھے۔ اب اس کی آنکھیں پٹیوں کے پیچھے چھپی تھیں اور۔۔۔۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ دنیا کو دوبارہ دیکھ سکے گا یا نہیں؟
سارا دن وہ ریڈیو سنتا رہتا۔۔ صبح اور شام کے وقت اس کی بیوی اسے اخبار پڑھ کر سنا دیتی اور جب ریڈیو کی نشریات میں وقفہ ہوجاتا تو وہ سوچنے لگتا کہ اگر میں اندھا ہو گیا تو میرا مستقبل کیا ہوگا؟
ایک دو بار وہ بیوی کی باتوں سے اثر لیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے سوچا۔ ‘بہتری اسی میں ہے کہ بقایا عمر اندھیروں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے بجائے خودکشی کرلی جائے۔۔‘ لیکن یہ خیال خود بخود اس کے دل سے نکل جاتا۔ ہاں۔۔۔ جاسوسی کہانیاں لکھنے کے بارے میں وہ واقعی سنجیدہ تھا۔ یہ ایک دلچسپ اور ہیجان انگیز تحریک تھی۔ جس نے اسے انوکھے واقعات سوچنے پر مجبور کر دیا۔۔ وہ کئی دنوں تک جاسوسی کہانیوں کے پلاٹ اور کردار سوچتا رہا لیکن چند دنوں کے بعد یہ تحریک خود بخود ٹھنڈی پڑ گئی۔ اندھے ہوجانے کے احساس نے اس کے اندر جو کھلبلی مچادی تھی وہ بھی اب مدہم پڑتی جا رہی تھی اور پھر اکثر یوں ہوتا کہ اسے اپنے اندھے ہوجانے کے خیال سے کوئی پریشانی نہ ہوتی، بلکہ وہ خاصا مطمث دکھائی دینے لگتا
کھانا وہ ایک بچے کی طرح کھاتا تھا۔ چاول منہ کے اندر جانے سے پہلے گر جاتے۔ میز پر بکھرے رہتے، اس کی بیوی اپنا غصہ ضبط کر کے کڑی نظروں سے اسے دیکھتی رہتی۔ ایک دن وہ ضبط نہ کر سکی اور پھٹ پڑی ”کیا تمہیں ابھی تک کھانا بھی کھانا نہیں آیا۔“
وہ خاموش رہا۔ بھلا وہ اس سوال کا کیا جواب دیتا۔
اسے چند دنوں سے محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کی بیوی اس سے بہت دور ہو چکی ہے۔ ان کے درمیان فاصلہ پڑھ چکا ہے۔ ورنہ وہ سب کچھ جانتے ہوئے اسے اس طرح کیوں ڈانٹتی۔ پٹیاں میری آنکھوں پر بندھی ہیں وہ تو سب کچھ دیکھ سکتی ہے۔
اسے اپنی ی تنہائی کا احساس بڑی شدت سے ہونے لگا۔ بیوی اور اپنے درمیان پیدا ہونے والے خلاء کے احساس نے اس پر اس حد تک غلبہ حاصل کر لیا کہ وہ یہ بھی بھول گیا کہ صحتمند آنکھوں والوں کو بھی کبھی کبھار بے اختیار غصہ آجایا کرتا ہے
اس کی بیوی اس کے سامنے مچھلی رکھتے ہوئے مچھلی کے تمام کانٹے نکال دیتی تھی۔ مچھلی کے کانٹے چنتے ہوئے وہ دکھی ہو جاتی تھی۔ جیسے وہ کسی بالغ مرد اور شوہر کا کھانا نہ رکھ رہی ہو بلکہ کسی تین چار برس کے بچے کی پرورش پر مامور کی گئی ہو۔
ادھر اس کے شوہر کو بھی مچھلی کھاتے ہوئے کوئی لطف نہیں آ رہا تھا۔ اس کے جبڑے میکانکی انداز میں ہلتے چہرہ ہر قسم کے تاثر سے خالی ہوتا۔ ”بھلا کانٹوں کے بغیر مچھلی کھانے کا کیا لطف آسکتا ہے۔“
چاول اور مچھلی میز پر بکھر رہے تھے۔ اس کی بیوی نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ اسے کھاتے دیکھ کر رونے لگی۔ ”یہ تم میز کی کیا حالت کردی ہے“
وہ خاموش رہا۔ اندر ہی اندر وہ غصے کے مارے کھول رہا تھا
اس کی بیوی اسے کلائی سے اور کبھی آستین سے پکڑتی اور گلی میں لے جاتی۔ کسی ٹیکسی والے کو آواز دے کر رکواتی، اسے ٹیکسی میں سوار کرنے کے بعد خود بیٹھتی۔ ڈاکٹر کے مطب کے سامنے ٹیکسی رکواتی، بازو تھام کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی، ڈاکٹر پڑے محتاط انداز میں گفتگو کرتا۔
”آپریشن کامیاب بھی ہوسکتا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔“
اس کی بیوی کے ذہن میں کوئی خیال آجاتا وہ کھڑی ہو جاتی۔ بھول جاتی کہ وہ کہاں بیٹھی ہے۔ ہر روز جب وہ اپنے شوہر کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے تیار کر رہی ہوتی تو سوچنے لگتی ’میں ہلکا سا میک اپ کرلوں۔‘ اس کا دل جواب دیتا ’یہ تو کوئی اچھی بات نہیں۔ جب شوہر دیکھ یہ نہ سکتا ہو تو پھر بناؤ سنگھار اور خوبصورت دکھائی دینے کی کیا تُک ہے‘ پھر وہ دل کی بات ٹال جاتی اور ہلکا سا میک اپ کر لیتی۔ جب باہر نکلتی تو دل سے آواز آتی۔۔ ’میک اپ کس کے لئے کیا گیا ہے۔ دوسرے لوگوں کے لئے؟‘
وہ کانپ جاتی۔۔۔۔۔۔
پہلی بار جب گھر میں پٹی بدلی گئی، تو وہ شوہر سے پوچھنے لگی۔ ”کیا تم مجھے دیکھ رہے ہو؟“
”ایک دھبہ، بڑا سا دھبہ دکھائی دے رہا ہے۔“
اس نے اس کی آنکھوں کے سامنے تین انگلیاں کرتے ہوئے پوچھا، ”کتنی انگلیاں ہیں؟“
”میں نہیں بتا سکتا“
”کوشش تو کرو“ اور وہ مشتعل ہوگئی اور اپنا ہاتھ اس کی آنکھوں کے کچھ اور قریب کر دیا، ”اب بتاؤ“
”میں نہیں بتا سکتا۔۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا“ وہ غصے کی حالت میں بڑبڑاتی ہوئی کھڑی ہو گئی
اس کے شوہر کو یوں لگا جیسے وہ ہار گیا ہے۔ اپنی خجالت اور غصے کو چھپانے کے لیے اس نے نرمی سے کہا ”میرا بستر جلدی سے بچھا دو۔“
”کیا تمہیں نیند آرہی ہے؟“
”بس میں لیٹنا چاہتا ہوں۔“
اس نے اپنے شوہر پر ایک نگاہ ڈالی۔ موٹے تازے صحت مند رخسار، بڑھی ہوئی ڈاڑھی وہ خود بخود مسکرا دی۔ جلدی سے پانی گرم کیا پھر اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اس کی شیو کرنے لگی۔
”ذرا سامنے آؤ“ اس نے اپنی بیوی سے کہا
وہ سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ وہ جھک کر زمین پر کچھ ٹٹولنے لگا۔ جب اس کے ہاتھوں نے بیوی کے پیروں کو چھوا تو وہ بولی، ”یہ کیا کر رہے ہو؟“
وہ ہنسنے لگا ”میں تمہارے قدموں کی چاپ سنتا رہتا ہوں۔ جب تم چلتی ہو تو قدموں کی چاپ بڑی غیر معمولی سی ہوتی ہے۔ میرے ذہن میں خیال آیا تھا کہ تمہارے پاؤں چپٹے ہوں گے۔ ذرا سوچو تو آنکھیں تھیں تو کبھی غور سے دیکھا ہی نہیں کہ تمہارے پاؤں کیسے ہیں۔۔ اب چھو کر پتہ چلا کہ میرا اندازہ درست تھا۔۔ واقعی تمہارے پاؤں چپٹے ہیں۔“
اپنے شوہر کی ان باتوں پر وہ جھنجھلائی۔ کچھ پریشان ہوئی، لیکن خاموش رہی۔ اس کی بیوی کو انوکھے انوکھے حیران کُن لرزا دینے والے خیالات سوجھنے لگے ’یہ میرا مرد ہے۔ میرا شوہر۔ اس کے ساتھ میں نے زندگی کے کتنے برس گزارے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا لیکن اب یہ مجھے اجنبی اجنبی سا کیوں لگتا ہے۔۔۔‘ پھر اس کا وجود پے کنار تاریکیوں میں تیرنے لگتا۔۔ جب وہ ایسی کیفیت میں ہوتی تو سوچنے لگتی ’اگر میں اندھی ہوجاؤں تو۔۔۔۔۔ وہ بھی اندھا میں بھی اندھی۔۔۔۔۔۔ پھر چاروں طرف تاریکی ہوگی۔ ہم دونوں اس تاریکی میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر زندگی بسر کر سکتے ہیں؟ میرے اندر مایوسی کا اتنا زہر کیوں گھل گیا ہے!‘
وہ اپنے آپ کو بھی اندھی محسوس کرنے لگی، ایک ایسی دنیا بسانے لگی، جس میں وہ اور اس کا شوہر رہتے۔ جہاں کوئی دیوار نہ تھی۔ کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ بس تاریکی ہی تاریکی تھی۔ جب صبح ہوئی تو اس کے شوہر نے اس کا ہاتھ نرمی سے
تھام کر کہا ”اب پٹیوں کی ضرورت نہیں رہی، انہیں اُتار دو۔“
”کیوں۔۔۔۔۔۔؟“ وہ حیرت سے بولی
”میں جانتا ہوں کہ میں اندھا ہو گیا ہوں۔“
چند لمحوں کے لئے اس کی بیوی کا پورا وجود تن گیا۔ پھر وہ بے اختیار بولی، ”روشنی اور تاریکی میں زیادہ فرق تو نہیں ہے۔“
وہ اس کی آنکھوں سے پٹی اتارنے لگی۔ جب پٹی اُتر گئی تو وہ بولی ”ایک منٹ کے لئے اپنی آنکھیں تو کھولو۔“
اس نے اپنی بند آنکھیں کھول دیں۔۔ دونوں آنکھیں سفید اور مردہ تھیں۔ وہ ڈر گئی۔
اس کے شوہر نے ساری زندگی اسے کبھی اتنا خوفزدہ نہ کیا تھا، جتنا اس ایک لمحے میں اپنی سفید آنکھیں دکھا کر دہشت زدہ کر دیا تھا
وہ سسکنے لگی تو اس کے شوہر نے اس کی کلائی کو ہولے سے تھام کر کہا، ”سنو! جو کچھ ہوا، ٹھیک ہوا۔۔ اب ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ میں اندھا ہوں اور تم ایک اندھے کی بیوی ہو۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ایک اندھے کے لئے کون سا اچھا اور مناسب کام ہو سکتا ہے، جو وہ کسی دقت کے بغیر کر سکتا ہو۔ دیکھو ہمیں مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ ابھی زندگی کے دامن میں ہمارے لئے ان گنت مسرتیں موجود ہیں۔“
اس کی بیوی نے اپنا چہرہ اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔ وہ بڑی خاموشی سے آنسو بہارہی تھی لیکن ایک بار بھی اسے موت کا خیال نہ آیا۔ اندھاپن اتنا خوفناک نہیں تھا جتنی موت تھی۔۔
وہ اپنی شوہر کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی۔