سنہ 2020ع میں کورونا وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران سے نمٹنے کے بعد اس وقت دنیا بھر کی ایئرلائنز اپنے کاروبار کو وسعت دے رہی ہیںم پڑوسی ملک بھارت سے لے کر خلیج، یورپ اور امریکہ تک متعدد ایئرلائنز اپنے لیے درجنوں نئے جہاز خرید رہی ہیں، اور بیشتر مقامات پر نئی پروازوں کا آغاز کر رہی ہیں
لیکن پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) توسیع تو رہی ایک طرف، موجودہ آپریشن کو برقرار رکھنے میں بھی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اب تو اس کی انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس کو موجودہ پروازیں چلانے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا
پاکستان کی ناکام ہوتی ہوئی قومی ایئرلائن کی اس تنزلی کی وجہ محض معاشی حالت نہیں ہے بلکہ کچھ دیگر قومی اداروں کی طرف سے کیے گئے فیصلے، بدانتظامی اور حکومت کی نااہلی بھی ہے
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان کا کہنا ہے کہ آنے والے چند مہینوں میں ایئر لائن کو موجودہ پروازیں چلانے میں مشکلات پیش آنے کا امکان ہے، جس کی ایک بڑی وجہ پائلٹس کی عدم دستیابی ہے
انہوں نے بتایا ”پی آئی اے اس وقت ہفتے میں 374 پروازیں چلاتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم یہ تعداد بڑھا کر 500 تک کر دیں، لیکن جو حالات اس وقت ہیں اس سے لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں شاید ہم موجودہ تعداد بھی برقرار نہ رکھ سکیں کیونکہ اس کے لیے درکار پائلٹس پی آئی اے کے پاس موجود نہیں ہیں“
عبداللہ حفیظ کے مطابق اس وقت پی آئی اے کو اپنے آپریشنز چلانے کے لیے 120 نئے پائلٹس کی ضرورت ہے لیکن وہ ان کو بھرتی نہیں کر سکتے کیونکہ سپریم کورٹ نے سنہ 2017 سے نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے ریٹائر ہونے والے اور چھوڑ کر جانے والے پائلٹس کی جگہ نئے پائلٹس نہیں رکھے جا سکتے“
تاہم پائلٹس کی نمائندہ تنظیم پاکستان ایئرلائن پائلٹس ایسوسی ایشن (پالپا) کے عہدیداران کے مطابق پی آئی اے کو پائلٹس کے بحران کا سامنا اس لیے نہیں کہ وہ نئے پائلٹس بھرتی نہیں کر سکتی بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے پائلٹس کو خوش نہیں رکھ پا رہی اور وہ نوکری کے ماحول، کم تنخواہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر پی آئی اے چھوڑ کر دوسری ایئرلائنز میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں
پالپا کے ایک ترجمان نے بتایا ”اس وقت پی آئی اے کے پاس کُل تین سو پائلٹس ہیں، جبکہ ضرورت تقریباً چار سو پائلٹس کی ہے۔ حال ہی میں بیس پائلٹس ایئرلائن چھوڑ کر گئے ہیں جبکہ بیس مزید چھوڑ کر جانے والے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 17-2016 کے بعد سے تنخواہ میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہوا اور اس وقت دیگر مقامی اور غیرملکی ایئرلائنز پی آئی اے سے کہیں زیادہ تنخواہیں دے رہی ہیں، جس کی وجہ سے پائلٹس وہاں کھنچے چلے جا رہے ہیں“
پالپا کے ترجمان کے بقول ”پی آئی اے کے پائلٹس کی تنخواہوں میں 30 سے 39 فیصد کمی ہوئی ہے۔ فلائنگ الاؤنس کے لیے مختص گھنٹوں میں کمی کر دی گئی ہے اور ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے“
ایوی ایشن امور کے ماہر اور سینیئر صحافی طارق ابوالحسن کہتے ہیں کہ اس وقت بھارت اپنے بیرونِ ملک پائلٹس کو دُگنی تنخواہوں پر واپس لا رہا ہے، جس کی وجہ سے خلیج اور دیگر خطوں میں پائلٹس کی مانگ بڑھ گئی ہے اور اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی پائلٹس دھڑا دھڑ خلیج اور دوسرے خطوں میں جا رہے ہیں
طارق ابوالحسن کا کہنا تھا ”پاکستان میں بھی نجی ایئرلائنز پی آئی اے سے دُگنی تنخواہ پر پائلٹ بھرتی کر رہی ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے حالات کافی خراب ہو گئے ہیں اور ہر ماہ ڈیڑھ سو تک پروازیں منسوخ یا ملتوی ہوتی ہیں“
ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان نے کہا ”اس وقت پی آئی اے کو ایک سو بیس نئے پائلٹس اور ایک سو دس کیبن کریو کی تقرری کی ضرورت ہے اور ان کی بھرتیوں کی اجازت کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے تاہم عدالت عظمٰی نے تاحال اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا“