پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سوشل میڈیا کے لیے فوکل پرسن اظہر مشوانی نے لاہور ہائی کورٹ میں انہیں جبری طور پر لاپتہ کیے جانے سے متعلق جمع کرائے گئے بیان میں کہا ہے کہ ان سے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم اور زمان پارک کے حوالے سے کئی کئی گھنٹے تک سوالات کیے گئے
یاد رہے کہ اظہر مشوانی 23 مارچ کو پُراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے تھے، پی ٹی آئی نے اُن کے لاپتہ ہونے کو جبری گمشدگی قرار دیا اور جمعے کو ملک بھر میں احتجاج کی کال دی تھی البتہ اُسی روز اظہر مشوانی 8 دن کے بعد گھر پہنچ گئے تھے
اس سے پہلے اظہر مشوانی کی اہلیہ ماہ نور اظہر نے اپنی ٹوئیٹس میں بتایا تھا کہ اظہر کو دن کے دو بج کر اکاون منٹ پر لاہور سے زمان پارک جاتے ہوئے اٹھایا گیا تھا۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ان کی فون کی لوکیشن پر آخری مرتبہ واٹس ایپ دو بج کر اکاون منٹ آرہا تھا
اظہر مشوانی کی جبری گمشدگی کے بعد سابق وزیراعظم نےایک ٹویٹ میں اظہر کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا ”میں عوام سے کہتا ہوں باہر نکلیں اور پر امن احتجاج کریں۔ ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی جاری ہے اور سب جانتے ہیں پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والی اس فسطائیت کی لہر کے پیچھے کون ہے۔ ہم اس فسطائیت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے، آخری گیند تک لڑیں گے اور ملک پر مسلط کیے گئے چوروں کو ہم کبھی قبول نہیں کریں گے“
لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان کے مطابق اظہر مشوانی 23 مارچ کی دوپہر وہ آن لائن ٹیکسی سروس کے ذریعے زمان پارک جا رہے تھے، جب ٹاؤن شپ کے علاقے میں اکبر چوک کے قریب ان کی گاڑی کو چند گاڑیوں نے روکا اور ان میں سے پنجاب پولیس کی وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم افراد نے انہیں حراست میں لے لیا
بیان کے مطابق اس دوران اظہر مشوانی نے اپنا موبائل گاڑی کی سیٹ کے نیچے پھینک دیا تھا
بیان کے مطابق وہ افراد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور سر پر کالا کپڑا ڈال کر انہیں لے گئے اور کچھ دیر بعد ایک اور گاڑی میں منتقل کیا۔ اظہر مشوانی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہیں گاڑی میں منتقل کرنے کے فوراً بعد نامعلوم افراد نے موبائل فون ڈھونڈنا شروع کر دیا اور نہ ملنے پر دوبارہ ٹیکسی سے جا کر لایا گیا
بیان کے مطابق ”مجھ سے تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم اور زمان پارک کے حوالے سے کئی گھنٹے تک سوالات کیے جاتے رہے“
بیان میں کہا گیا ہے کہ اظہر مشوانی کے اہل خانہ کی جانب سے ان کی موبائل لوکیشن شیئر کیے جانے کے بعد انہیں ایک اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا
بیان کے مطابق تقریباً پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد انہیں راولپنڈی اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ اظہر مشوانی نے عدالت میں جمع کروائے گئے بیان میں کہا ہے ”مجھے ’روزے کی حالت میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک ایک لکڑی کی کرسی پر زنجیروں والی ہتھکڑی سے باندھ کر سوالات کیے گئے اور کمرے اور ملحقہ واش روم میں متعدد کیمرے لگائے گئے تھے“
بیان کے مطابق دوران حراست اظہر مشوانی کا تین بار پولی گراف ٹیسٹ کیا گیا اور منگل کی شام انہیں ایک نئے نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جہاں انہیں سیل میں رکھا گیا ”پولی گراف ٹیسٹ میں مجھ سے بار بار چند مخصوص ٹوئٹر ہینڈلز اور اکاؤنٹ چلانے کے بارے میں پوچھا گیا“
انہوں نے کہا ہے ”پولی گراف ٹیسٹ نے ان کے تمام دعوے جھوٹے ثابت کیے تو کسی ٹیلی کام انڈسٹری کے ماہر کو بلوا کر میرے موبائل کا سارا ڈیٹا چیک کروایا گیا اور سوالات کیے گئے“
یاد رہے کہ اظہر مشوانی نہ صرف عمران خان کے ترجمان ہیں بلکہ پارٹی کی دیگر سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ پی ٹی آئی کی یوتھ وِنگ کے چیئرمین بھی رہے ہیں اور حال ہی میں وزیرِ اعلی پنجاب کے میڈیا کوآرڈینیٹر بھی رہ چکے ہیں
اظہر مشوانی کا اپنے بیان میں کہنا ہے ”دوران تفشیش مجھ سے پوچھا گیا کہ ’تحریک انصاف سوشل میڈیا ٹیم پر کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں، لوگ مفت میں کیسے کام کر لیتے ہیں، عمران خان کو کون کون سے لوگ ملنے آتے ہیں؟“
اظہر مشوانی نے بیان میں کہا ہے ”سوال کیا جاتا تھا کہ زمان پارک کے باہر موجود لوگوں کو کھانا کون دیتا ہے، یوٹیوبرز کو کتنے پیسے دیے جاتے ہیں۔ یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے لوگوں کو ملاقاتوں میں عمران خان کی جانب سے کیا ٹاسک دیے جاتے ہیں؟ تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کو ڈائریکشنز کہاں سے ملتی ہیں، سوشل میڈیا ٹرینڈز کیسے ہوتے ہیں، کتنے فالورز اصلی ہیں۔“
اظہر مشوانی کے بیان میں کہا گیا ہے ”پاکستان میں جاری فاشزم پر میری ٹویٹس پر کافی غصے بھرے سوالات کیے گئے۔ مسلسل میرے خلاف ثبوت گھڑنے کی کوششیں کی گئیں“
اظہر مشوانی نے عدالت کو بیان دیا ہے ”میری ذاتی زندگی سے متعلق، بچپن سے شادی تک سب کچھ بارہا پوچھا گیا، مجھ سے تحریکِ انصاف کی تمام سوشل میڈیا ٹیم کے حوالے سے سوالات کیے گئے“
ان کے مطابق ”جمرات اور جمعے کی درمیانی شب مجھے دوبارہ پہلے والی بلڈنگ میں شفٹ کیا گیا اور پھر وہاں سے سحری کے بعد نکالا گیا اور مختلف سڑکوں پر گھمانے کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا“
ان کے مطابق ”میرا موبائل واپس کر دیا گیا ہے تاہم دیگر سامان اور بٹوہ واپس نہیں کیا گیا ہے“
بیان میں ان کا کہنا ہے ”مجھے رہائی کے بعد پتا چلا کہ ان کے متعدد ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے“
اظہر مشوانی نے عدالت کو بتایا ”مجھے جن لوگوں نے اٹھایا وہ منہ پر ماسک پہنے ہوئے تھے اور اپنا تعلق ایف آئی اے سے بتا رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ مجھے ’ڈی جی ایف آئی اے اور وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ کے احکامات پر اٹھایا گیا اور جب تک وہ نہیں چاہیں گے، مجھے مغوی رکھا جائے گا“
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے ”میں نے ان افراد کو متعدد بار اپنے آپ کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا جس پر مجھے پورے ملک میں مقدمات بھگتنے کی دھمکی دی گئی۔“