اقوام متحدہ کی جانب سے مارچ کے آخر میں آبی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے نوجوانوں کی ٹیم میں بہار خلیل احمد بھی شامل تھیں، جن کا تعلق بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر سے ہے، جو آبی مسائل سے جوجھ رہا ہے
معدنیات کی دولت سے مالامال بلوچستان پس ماندگی کا شکار ہے۔ دیگر کئی بنیادی مسائل کے ساتھ صوبے کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے
آبی کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے بہار خلیل کا کہنا ہے ”میں ان چند پاکستانی نوجوانوں میں سے ایک تھی اور کانفرنس میں موجود واحد بلوچ خاتون تھی، جس نے ملک اور صوبے کی نمائندگی کی“
بہار خلیل اس وقت چین میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں، لیکن وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ اپنے لوگوں کے لیے بھی کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہیں، اسی سلسلے میں انہوں نے پہلے بلوچستان میں (فرائیڈیز فار فیوچر) تحریک میں شمولیت اختیار کی، جسے سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے شروع کیا تھا۔
انہوں نے بتایا ”میں نے بعد میں اقوام متحدہ کے چلڈرن اینڈ یوتھ حلقے میں شمولیت اختیار کی اور دنیا بھر کے دیگر ماحولیاتی کارکنان کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ ہمارا اصل کام اپنے مسائل کو عالمی رہنماؤں کے سامنے اٹھانا تھا تاکہ ہماری آواز سنی جائے“
بہار کہتی ہیں ”مجھے میرے متحرک کردار کی وجہ سے اقوام متحدہ سے ایکریڈیشن لیٹر ملا اور اس لیٹر کے ذریعے میں نے امریکی ویزا کے لیے درخواست دی، مجھے ویزا تو مل گیا لیکن اصل مسئلہ اسپانسر کا تھا، جو ایک بڑا مسئلہ تھا۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں اپنی حکومت سے رابطہ کروں“
انہوں نے بتایا ”شاید میرا امریکہ جانا اور وہاں اقوام متحدہ کی آبی کانفرنس میں شرکت کرنا ممکن نہ ہوتا لیکن امید کی کرن اس وقت بنی جب میرے چچا نے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام سے رابطہ کرکے مسئلہ بیان کیا، جن کا رد عمل مثبت تھا۔ اس کے بعد گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے نہ صرف مجھے اسپانسر کیا بلکہ انتہائی کم وقت میں نیو یارک کے لیے میری فلائٹ بک کروا دی، جس کی میں توقع نہیں کر رہی تھی، لیکن میرا یہ خواب حقیقت بن چکا تھا“
بہار نے بتایا ”میں نے کانفرنس میں بلوچستان کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی جس میں پانی کا مسئلہ، بدانتظامی، اداروں کی کمزوری سے متعلق مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے“
وہ کہتی ہیں ”بلوچستان میں غیر مستحکم سکیورٹی کے حالات، دشوارگزار راستے اور وہاں تک رسائی کی کمی کے باعث پانی کی فراہمی کی غیر یقینی صورتحال اور معیشت کے محدود مواقع موجود ہیں“
بہار کا کہنا ہے ”میں نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ بلوچستان کا 62 فیصد حصہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور پانی کی کمی کی وجہ سے اس کی 58 فیصد زمین پر کاشتکاری نہیں ہوتی، بہت سی آبی بیماریاں اس پانی سے ہوتی ہیں جو تالابوں سے حاصل ہوتا ہے اور اکثر انتہائی کھارا ہو جاتا ہے، بلوچستان کے صرف 25 فیصد باشندوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے“
بہار کہتی ہیں ”جب میں کانفرنس میں گئی اور بلوچستان کے بارے میں بتایا تو بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بلوچستان نام کی کوئی جگہ ہے، مسائل تو دور کی بات ہے، لیکن اس طرح کانفرنسوں میں نوجوان شرکت کریں گے تو دنیا کو علم ہوگا اور جب اقوام متحدہ پانی کے ان مسائل کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرے تو ہمارے مسائل بھی ان کی فہرست میں شامل ہوں“
واضح رہے کہ یہ کانفرنس 22 سے 24 مارچ تک اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں منعقد ہوئی تھی، جس میں ہزاروں حکومتی نمائندوں، سائنسدانوں، ماہرین تعلیم، سول سوسائٹی کے گروپوں، نجی شعبے کے ارکان اور نوجوانوں پر مشتمل وفود نے شرکت کی
اقوام متحدہ کی اس آبی کانفرنس میں بتایا گیا کہ جب آپ زمین کا نقشہ دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس بہت زیادہ پانی ہے۔ پانی زمین کے 72 فیصد حصے پر محیط ہے۔ جبکہ حقیقتاً بدقسمتی سے، ہم اس میں سے زیادہ تر کو پینے کے پانی کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے۔ زمین کا 97 فیصد پانی سمندروں میں نمکین پانی ہے۔ مزید دو فیصد برف کی تہوں اور گلیشیئرز کی صورت میں منجمد ہے۔ اس سے ہر ایک کے پینے کے لیے زمین کا ایک فیصد سے بھی کم پانی رہ جاتا ہے۔ جیسے جیسے زمین کی آبادی بڑھ رہی ہے اور بہت سے ممالک مزید ترقی کر رہے ہیں پانی زیادہ سے زیادہ محدود ہوتا جا رہا ہے
لی جونہوا، انڈر سیکریٹری جنرل برائے اقتصادی اور سماجی امور نے کہا کہ واٹر ایکشن ایجنڈا کے وعدوں میں صلاحیت سے لے کر ڈیٹا اور مانیٹرنگ سسٹم اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے جیسے اقدامات شامل ہیں
انہوں نے کہا: ”2023 کی اقوام متحدہ کی آبی کانفرنس میں، ایک پرعزم عالمی برادری نہ صرف پانی کے مستقبل کے لیے بلکہ دنیا کے مستقبل کے لیے ایک فرق لانے کے لیے اکٹھی ہوئی“