الیکشن التوا کیس میں سپریم کورٹ نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا، جس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ آئین الیکشن کمیشن کو 90 دن سے آگے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ عدالت نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے آٹھ اکتوبر کو الیکشن کروانے کا الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے حکمنامے کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو غیر قانونی حکم جاری کیا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کا 30 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کا شیڈول بحال کر دیا ہے
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب کے منسوخ کردہ الیکشن شیڈول پر عمل درآمد ہوگا جبکہ خیبرپختونخوا کے بارے میں صورتحال دیکھ کر مناسب فورم پر فیصلہ ہوگا
سپریم کورٹ نے حکومت کو 10 اپریل تک فنڈز مہیا کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت، چیف سیکرٹری اور آئی جی 10 اپریل تک الیکشن کی سکیورٹی کا مکمل پلان پیش کریں۔ وفاقی حکومت کو 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیا ہے
پنجاب الیکشن کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی 10 اپریل تک جمع کیے جائیں گے۔ اپیل فائل کرنے کی آخری تاریخ 17 اپریل ہوگی اور اپیلوں پر نظرثانی 18 اپریل تک ہوگی۔ امیدواروں کی حتمی فہرست 19 اریل کو جاری کی جائے گی۔ امیدواروں کو الیکشن نشانات 20 اپریل کو جاری کیے جائیں گے
سپریم کورٹ نے اس ضمن میں وفاقی حکومت کو 10 اپریل تک 20 ارب جاری کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کو فنڈز کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ 11 اپریل کو سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا ہے
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اگر فنڈ مہیا نہیں کیے جاتے تو عدالت خصوصی احکامات جاری کرے گی
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت اور پنجاب کی نگران حکومت الیکشن کمیشن کی معاونت میں ناکام رہتے ہیں تو کمیشن اس بارے میں سپریم کورٹ کو آگاہ کرے
سپریم کورٹ نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ ابتدائی فیصلہ پانچ رکنی بینچ کا تھا جس میں تین ججوں نے فیصلہ دیا جبکہ دو ججوں نے اختلافی نوٹ دیا
آج سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ کے تینوں ارکان نے معمول کے مقدمات کی سماعتیں مکمل کیں۔ چیف جسٹس، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر الگ الگ بنچز میں تھے ۔ تینوں ججز معمول کے مقدمات کی سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنے چیمبرز میں پہنچے
بعد ازاں وزارت دفاع نے سکیورٹی اہلکاروں کی دستیابی سے متعلق رپورٹ چیف جسٹس کو پیش کردی۔تینوں ججز رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد الیکشن سے متعلق فیصلہ تحریر کریں گے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے اندر اور باہر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ اس موقع پر پولیس، رینجرز اور ایف سی کے اہل کار تعینات کیے گئے ہیں جب کہ غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ عام شہریوں کو ان کے کیس سے متعلق کاغذات کی تصدیق کے بعد اندر جانے کی اجازت دی جا رہی ہے
سپریم کورٹ میں وکلا کے بھی مخصوص پاس جاری کرنے کے ساتھ ہی غیر متعلقہ وکلا کے عدالت جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اطراف خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں
واضح رہے کہ برسرِ اقتدار کثیرالجماعتی اتحاد پی ڈی ایم کی بیشتر جماعتیں عندیہ دے چکی تھیں کہ اگر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے انتخابات کے التواء کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تو وہ فیصلہ تسلیم نہیں کریں گی
الیکشن کمیشن کے معطل کیے گئے فیصلے میں کیا تھا؟
سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن کا جو فیصلہ معطل کیا گیا ہے اس میں کہا گیا تھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں، وزارت خزانہ، وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور چیف سیکریٹری پنجاب کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس کی روشنی میں کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ الیکشن کا شفاف، منصفانہ، دیانتداری سے، پرامن اور قانون اور آئین کے مطابق انعقاد ممکن نہیں‘
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے صدر نے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی تھی جس کے بعد الیکشن شیڈول بھی جاری کیا گیا تھا
خیبر پختونخواہ میں انتخابات کے انعقاد کے متعلق الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ ’خیبر پختونخوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی تھی۔ وہاں انتخابات کے لیے پولنگ 8 اکتوبر کو ہو گی۔‘
الیکشن کمیشن نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ’ آٹھ اکتوبر کی تاریخ صوبے کے گورنر کی جانب سے دی گئی ہے۔ الیکشن شیڈول کا اعلان وقت کے مطابق کر دیا جائے گا۔‘
پنجاب، خیبرپختونخوا الیکشن کیس: کب کیا ہوا؟
پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کیے جانے کے فیصلے کے خلاف 25 مارچ کو سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان اور سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی مشتاق غنی کے توسط سے ایک آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
اس آئینی درخواست میں وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا، وزارت پارلیمانی امور، وزارت قانون اور کابینہ کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے آئینی مینڈیٹ اور عدالت کے فیصلے سے انحراف کیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو شیڈول کے مطابق 30 اپریل کو صوبے میں انتخابات کروانے کا حکم دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست 27 مارچ کو سماعت کے لیے منظور کی۔ کیس کی سماعت کے لیے چیف جسٹس نے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا، جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے
جسٹس امین الدین خان نے 30 مارچ کو کیس سننے سے معذرت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے 31 مارچ کو کیس سننے سے معذرت کی۔ اس کے بعد تین رکنی بینچ نے 31 مارچ اور تین اپریل کو پانچویں اور چھٹی سماعت کی۔
عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن کے وکلا اور پنجاب اور خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرلز کے دلائل سنے۔ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ نے عدالتی حکم پر پیش ہو سکیورٹی اور فنڈز سے متعلق جوابات دیے جبکہ عدالت نے حکومتی اتحاد کے وکلا کو عدالتی بائیکاٹ کی وجہ سے سننے سے انکار بھی کیا
سپریم کورٹ میں فاسٹ ٹرائل کی طرز پر آٹھ دنوں میں اس کیس کی چھ سماعتیں ہوئیں، جس کے بعد پیر (تین اپریل) کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ آج کے عدالتی فیصلے کے بعد بھی ملک میں سیاسی کشیدگی میں کمی کا امکان کم ہے.