طالبان نے سابق امریکی فوجی اڈے کو منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مرکز میں تبدیل کر دیا

ویب ڈیسک

منشیات کی لت میں مبتلا محمد عمر، اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے، جب مغربی کابل کے ’پُلِ سوختہ‘ پر طالبان کے سپاہی غیر متوقع طور پر نمودار ہوئے، بتاتے ہیں ”میں ایک پُل کے نیچے اس چکر میں بیٹھا تھا کہ کچھ منشیات حاصل کر سکوں۔ اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ ایک ہاتھ نے مجھے پیچھے سے پکڑ لیا۔ مڑ کے دیکھا تو وہ طالبان تھے۔ وہ ہمیں لے جانے کے لیے آئے تھے“

اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے بہت پہلے سے یہ علاقہ منشیات کے عادی افراد کے لیے ایک بدنامِ زمانہ اڈہ بنا ہوا تھا۔ حالیہ مہینوں میں طالبان نے پورے دارالحکومت میں پلوں، پارکوں اور پہاڑی چوٹیوں سے منشیات کے عادی سینکڑوں شہریوں کو پکڑ لیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کو کابل میں سابق امریکی فوجی اڈے پر لے جایا گیا ہے، جسے عارضی طور پر منشیات کے بحالی مرکز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے

افغانستان کو دنیا میں ’منشیات کی لت میں مبتلا افراد کا دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے۔ بیورو آف انٹرنیشنل نارکوٹکس اینڈ لا انفورسمنٹ جیسے منشیات کی روک تھام والے ادارے کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق چار کروڑ کی آبادی والے ملک افغانستان میں تقریباً پینتیس لاکھ لوگ کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں

پلِ سوختہ کے نیچے سینکڑوں مردوں کو اکثر کُوڑے کے ڈھیروں، سرنجوں، پاخانوں اور کبھی کبھار ان لوگوں کی لاشوں کے درمیان بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو ضرورت سے زیادہ نشے کی خوراک لینے سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان کی پسندیدہ منشیات ہیروئن یا میتھامفیٹامین ہیں

پل کے نیچے بدبو بہت زیادہ ہے، کتے کوڑے کے ڈھیروں میں کھانے کے ٹکڑوں کی تلاش میں دندناتے پھرتے ہیں۔ اور اوپر ٹریفک لگاتار رواں رہتی ہے، سڑکوں پر دکانیں لگی ہیں اور لوگ سامان کی خرید و فروخت میں مشغول ہیں جبکہ مسافر مقامی بس اسٹیشن پر بسیں پکڑنے کے لیے دوڑ بھاگ رہے ہیں

محمد عمر بتاتے ہیں ”میں وہاں اپنے دوستوں سے ملنے جاتا اور کچھ نشہ کرتا۔ مجھے موت کا ڈر نہیں۔ موت بہرحال خدا کے ہاتھ میں ہے“

جب طالبان نے دوبارہ افغانستان کا کنٹرول حاصل کیا تو انہوں نے نشے کے عادی لوگوں کو سڑکوں سے ہٹانے اور انہیں بحالی مرکز منتقل کرنے کے لیے زیادہ جارحانہ مہم شروع کر دی

محمد عمر نے اگرچہ وہاں سے لے جانے مزاحمت کی، لیکن طالبان انہیں درجنوں دیگر افراد کے ساتھ بس میں بھر کر لے گئے

بعد میں طالبان حکومت کی طرف سے جاری کی گئی فوٹیج میں طالبان فوجیوں کی جانب سے نشے کے عادی افراد کے علاقے کو صاف کرتے ہوئے دکھایا گیا، جہاں کئی لوگ زیادہ مقدار میں نشہ آور ادویات لینے سے مر گئے تھے۔ ان کی لاشوں کو سیاہ سرمئی شالوں میں لپیٹ کر لے جایا جا رہا تھا۔ دوسرے جو ابھی بھی زندہ تھے اور زیادہ خوراک کی وجہ سے بے ہوش تھے انہیں سٹریچر پر باہر لے جایا جا رہا تھا

بحالی والے ہسپتال جہاں عمر کو لے جایا گیا تھا، اس میں ایک ہزار بستر ہیں اور اس وقت وہاں تین ہزار مریض ہیں۔ حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ اس ہسپتال میں مَردوں کو تقریباً پینتالیس دنوں تک رکھا جاتا ہے جہاں انھیں رہا کرنے سے پہلے ایک سخت پروگرام سے گزرنا پڑتا ہے

اگرچہ سڑکوں سے اٹھائے جانے والے افراد میں زیادہ تر مرد ہیں، لیکن ان میں کچھ خواتین اور بچے بھی ہیں، جنہیں ان کے لیے مخصوص کیے گئے بحالی مراکز میں لے جایا جاتا ہے

کابل کے مرکز کے کمرے میں موجود باقی نشے کے عادی افراد کی طرح محمد عمر بھی شدید طور پر کمزور ہے۔ حکام نے انہیں جو بھورا لباس فراہم کیا ہے، وہ اس پر ٹنگا ہوا نظر آتا ہے جبکہ ان کا چہرے مرجھایا ہوا ہے

بستر کے ایک کنارے بیٹھے وہ اپنی پرانی زندگی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”ایک دن میں دبئی میں ہوتا تھا، اگلے دن ترکی اور پھر ایران میں۔۔ میں نے کام ایئر کے ساتھ فلائٹ اٹینڈنٹ کے طور پر دنیا کا سفر کیا اور اکثر سابق صدور کی طرح وی آئی پی مہمان ہمارے طیارے میں ہوتے تھے“

کابل کے سقوط کے بعد ان کی نوکری جاتی رہی۔ معاشی مشکلات اور غیر یقینی مستقبل کا سامنا کرتے ہوئے انہیں منشیات کی لت لگ گئی

1990 کی دہائی میں جب طالبان اقتدار میں تھے تو انہوں نے پوست کی کاشت کو ختم کر دیا تھا۔ لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ ان کی بیس سالہ شورش کے دوران منشیات کا کاروبار ان کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھا

اب طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پوست کی تجارت کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ اس پالیسی کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2021 کے مقابلے 2022 میں پوست کی کاشت میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے

دریں اثنا افغانستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، جو بین الاقوامی حمایت میں کمی، سکیورٹی کے چیلنجز، آب و ہوا سے متعلق مسائل اور عالمی غذائی افراط زر کا شکار ہے

بہرحال بحالی مرکز میں آنے کے بعد سے عمر نے ٹھیک ہونے کی ٹھان لی ہے، وہ کہتے ہیں ”میں شادی کرنا چاہتا ہوں، ایک خاندان بنانا چاہتا ہوں اور ایک عام زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ یہ ڈاکٹر بہت مہربان ہیں۔ وہ ہماری مدد کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں“

مرکز کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ابتدائی آپریشن ہے۔ طالبان مزید لوگوں کو پہنچاتے رہتے ہیں اور عملہ ان کے لیے جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

ایک ڈاکٹر نے بتایا ”ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی برادری نے ہمیں چھوڑ دیا اور امداد بند کر دی۔ لیکن ہمارے مسائل دور نہیں ہوئے“

وہ بتاتے ہیں ”اس گروپ میں بہت سے پیشہ ور افراد ہیں۔ سمارٹ، پڑھے لکھے لوگ جو کبھی اچھی زندگی گزارتے تھے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں مشکلات، غربت اور ملازمتوں کی کمی کی وجہ سے وہ راہِ فرار کی تلاش میں تھے“

بحالی کے مرکز میں بھیڑ اور وسائل کی کمی کے باوجود وہاں کے ڈاکٹر نشے کے عادی افراد کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے پرعزم ہیں

وہ کہتے ہیں ”اس بات کا کوئی یقین نہیں ہے کہ یہاں سے جانے کے بعد یہ پھر سے اس کے عادی نہ ہوں۔ لیکن ہمیں کوشش کرتے رہنے کی ضرورت ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں انہیں مستقبل کے لیے امید دلانے کی ضرورت ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں ہے.“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close