کوئی اِنج دا جادو دس ڈھولا۔۔ خوشبو کو آواز اور تصویر کی طرح ریکارڈ کرنا ممکن ہو گیا!

ویب ڈیسک

سائنسدانوں نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ایسا کمپیوٹر ماڈل بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، جو خوشبو اور بدبو کو اسی طرح ریکارڈ کر سکے گا، جس طرح تصویروں، وڈیوز اور آوازوں کو ریکارڈ کیا جاتا ہے!

اب تک بو یا خوشبو کو ڈجیٹل شکل میں محفوظ کرنا اور اس کا ریکارڈ رکھنا ایک ناممکن کام سمجھا جاتا رہا ہے، کیونکہ جس طرح انسانی دماغ ہوا میں موجود بو کو محسوس کر کے اس کا تعین کرتا ہے، وہ ایک بہت پیچیدہ اور طویل عمل ہے

بو حقیقت میں ہوا میں تیرتے ہوئے کیمیکل کے مالیکیول ہوتے ہیں۔ وہ ناک کے ذریعے ان اعصاب تک پہنچتے ہیں جو خوشبو یا بدبو کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ اعصاب انہیں برقی لہروں میں تبدیل کر کے دماغ کے اس حصے کو پیغام بھیجتے ہیں، جس کا تعلق سونگھنے کی حس یعنی قوتِ شامہ سے ہوتا ہے

اس سے پہلے کہ ہم حالیہ پیش رفت کے بارے میں مزید بات کریں آئیے انسان، بلی اور کتے کی قوتِ شامہ کے بارے چند بنیادی باتوں کو جان لیں۔ اگر انسان کی قوتِ شامہ کی بات کی جائے تو انسانی جسم میں بو کو محسوس کرنے والے اعصاب کی تعداد تقریباً چار سو ہوتی ہے، جو مختلف نوعیت کی خوشبو یا بدبو کی شناخت کر سکتے ہیں۔ یہ اعصاب آپس میں مل کر کام کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ کروڑوں اقسام کی بو کو الگ الگ پہچان سکتے ہیں۔ جب کہ انسانی دماغ خوشبو اور بدبو کی لگ بھگ پچاس ہزار اقسام کی شناخت اپنی یاداشت میں محفوظ رکھ سکتا ہے

بلی بھی بنیادی طور پر چیزوں کو اس کی بو سے پہچانتی ہے۔ بلی کی ناک میں سونگھنے والے اعصاب بیس کروڑ خوشبوؤں اور بدبوؤں کو شناخت کر سکتے ہیں، جب کہ انسان کے قوت شامہ کی استعداد پانچ کروڑ تک ہے۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کتے کی سونگھنے کی قوت انسانوں کے مقابلے میں ہزار سے دس ہزار گنا تک زیادہ ہے۔ کتوں کی اسی خوبی کے پیش نظر ان سے دنیا بھر میں منشیات اور بارود کا کھوج لگانے اور لوگوں کی تلاش کا کام لیا جاتا ہے۔ اب اس سے بعض امراض کی موجودگی کا پتہ لگانے کا کام بھی لیا جانے لگا ہے۔

جریدے سائنس ٹو ڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بُو کو ڈجیٹل شکل دینے کے پراجیکٹ پر ماہرین کی ایک ٹیم کام کر رہی ہے، جن کا تعلق ’مونل کیمیکل سینسز سینٹر‘ اور ایک اسٹارٹ اپ کمپنی’ اوسمو‘ سے ہے ۔ اس تحقیق میں گوگل کے ڈیپ مائنڈ ٹیم کے ماہرین بھی شامل ہیں، جو اس بارے ریسرچ کر رہے ہیں کہ جب ہوا میں تیرتے ہوئے بو کے مالیکیول ناک میں داخل ہوتے ہیں تو قوتِ شامہ کے اعصاب اسے کس طرح دماغ تک پہنچاتے ہیں

اس تحقیق کے نتیجے میں انہوں نے ایک کمپیوٹر ماڈل تیار کیا ہے، جو انسان کی طرح کام کرتا ہے اور بو کی مختلف اقسام کو اپنی یاداشت میں محفوظ رکھنے، ان کی شدت کا تعین کرنے اور اس کے متعلق بتانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کمپیوٹر ماڈل میں سیکھنے کی اہلیت بھی ہے

اس تحقیق میں شامل جوئل مین لینڈ کہتے ہیں ”یہ کمپیوٹر ماڈل نہ صرف بُو کو شناخت کر سکتا ہے بلکہ نئی خوشبو وغیرہ کی تیاری میں مدد بھی دے سکتا ہے، کیونکہ کیمیکلز کے مالیکیولز جس طرح ترتیب پا کر خوشبو یا بدبو پیدا کرتے ہیں، کمپیوٹر کا لرننگ سسٹم اس ترتیب کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں خوشبو دینے والے نئے مالیکیولز کا نقشہ فراہم کر سکتا ہے، جسے ہم نہ صرف خوشبوسازی کے شعبے میں استعمال کر سکتے ہیں بلکہ ایسی بُو بھی تیار کر سکتے ہیں، جو مچھروں یا دوسرے حشرات الأرض کو انسان سے دور رکھنے میں مدد دے سکے“

مونیل کے سائنسدان جوئل مین لینڈ کے مطابق سائنس جریدے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق صرف ایک پہلا قدم ہے، کیونکہ اس آلے کا استعمال صرف انفرادی کیمیکلز کی بُو کا اندازہ لگانے کے لیے کیا گیا تھا، نہ کہ مرکبات۔ لیکن اضافی تطہیر کے ساتھ، اس آلے کو کھانے، خوشبوؤں اور صفائی کے سامان جیسی مصنوعات میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جو مینوفیکچررز کو زیادہ سے زیادہ بدبو کی اپیل کے لیے ہزاروں کیمیکلز کو محفوظ طریقے سے اسکرین کرنے کے قابل بناتا ہے

یہاں تک کہ اسے ’الیکٹرانک ناک‘ میں بھی لگایا جا سکتا ہے تاکہ لوگوں کے کینسر کی اسکریننگ کی جا سکے، جس سے بیماری کے دھندلے فنگر پرنٹس کا پتہ لگایا جا سکے جو انسانی ناک سے پتہ لگانے کے لیے بہت لطیف ہیں

انہوں نے کہا ”ماڈل کو کبھی بھی اس کی خوشبو نہیں آتی، یہ صرف سالماتی ساخت کو دیکھتا ہے“

مین لینڈ، ایک نیورو سائنس دان جو یونیورسٹی آف پنسلوانیا سے بھی وابستہ ہیں، اس مطالعہ کے ایک سینئر مصنف الیگزینڈر بی ولٹسکو کے ساتھ تھے، جو کیمبرج، ماس پر مبنی ٹیک اسٹارٹ اپ Osmo کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کینسر کے لیے لوگوں کی اسکریننگ کے علاوہ، یہ آلہ سونگھنے کی کمزوری والے لوگوں کے علاج میں بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے، جس سے ان کے ڈاکٹروں کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ تھراپی کے لیے کتنا اچھا ردعمل دیتے ہیں

تجربے کے دوران کمپیوٹر کو تربیت دینے کے لیے اس کے ڈیٹا بیس کو انڈسٹری میں استعمال ہونے والی معروف خوشبوؤں اور بدبوؤں کے پانچ ہزار اقسام کے مالیکیولز کے نقشے اور ان کی خصوصیات کے متعلق معلومات فراہم کیں گئیں۔ اس کمپیوٹر ماڈل کو اس طرح تیار کیا گیا تھا کہ وہ فراہم کردہ بُو کے متعلق بہتر انداز میں بتا سکے

کمپیوٹر پروگرام کی کاررکردگی جانچنے کے لیے خوشبوؤں کے متعلق معلومات رکھنے والے پندرہ افراد کا انتخاب کیا گیا اور ہر ایک کو خوشبوؤں کے چار سو نمونے اور پچپن ایسے الفاظ دیے گئے، جن سے خوشبو کی وضاحت ہو سکتی تھی

ان رضاکاروں سے کہا گیا کہ وہ ہر خوشبو کے لیے دیے گئے الفاظ میں سے ایسے لفظ کا انتخاب کریں، جس سے خوشبو کی مناسب ترین وضاحت ہو سکے۔ اس کے بعد وہی خوشبو اور الفاظ کمپیوٹر کو فراہم کیے گئے

اس تحقیق میں شامل مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ایملی مے ہو نے بتایا کہ کمپیوٹر کے جوابات رضاکاروں کے مقابلے میں زیادہ درست تھے

خوشبو یا بدبو کے سلسلے میں زیادہ تر انسانی ناک پر انحصار کیا جاتا ہے اور ایسے افراد کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جن کی سونگھنے کی حس تیز ہوتی ہے۔ خوشبو یا بُو کو شناخت کرنے کی صلاحیت کا تعلق انسانی ناک میں موجود سونگھنے والے اعصاب کی کارکردگی سے ہوتا ہے

کچھ افراد کے یہ اعصاب زیادہ کام کرتے ہیں، کچھ کے کم اور ایسے لوگ بھی ہیں، جن کے یہ اعصاب کام ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے انہیں نہ خوشبو آتی ہے اور نہ ہی بدبو

اس تحقیق شریک شامل برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ کی کیمسٹری کی پروفیسر جین پارکر کہتی ہیں ”ہم نے برسوں خوشبو پر کام کیا ہے اور ہمارا زیادہ انحصار ناک پر ہی رہا ہے۔ بعض دفعہ کسی چیز کی بُو کو مصنوعی طریقے سے تبدیل کر دیا جاتا ہے یا اسے کوئی خوشبو دے دی جاتی ہے۔ خوراک کے شعبے میں ایسی مثالیں عام ہیں۔“

ماہرین کا کہنا ہے کہ نقلی خوشبو کی شناخت میں انسانی دماغ کو مشکل پیش آ سکتی ہے کیونکہ بُو کو اپنی یاداشت میں محفوظ رکھنے کا اس کا طریقہ مختلف ہے۔ دماغ خوشبو یا بُو کو زیادہ تر اس کے ماخذ یا اصل کی مطابقت سے یاد رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر مکھن کی خوشبو سونگھنے پر انسانی دماغ اپنی یاداشت میں سے مکھن کی تصویر نکال لاتا ہے، چاہے وہ خوشبو نقلی ہی کیوں نہ ہو۔ جب کہ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والا کمپیوٹر ماڈل خوشبو کے مالیکیولز کا نقشہ بناتا ہے اور پھر اس کا موازنہ اپنے ڈیٹا بیس میں موجود نقشے سے کر کے درستگی کے ساتھ بتا دیتا ہے کہ یہ اصل ہے یا نقل

خوشبویات کی دنیا میں اصل اور نقل کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ بعض قیمتی خوشبوؤں کے ایسے نقلی اور سستے برینڈ موجود ہیں، جنہیں سونگھ کر شناخت کرنا بہت دشوار ہے۔ لیکن اب انہیں مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجینس (اے آئی) کے ذریعے آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے

ہارورڈ کے سینٹر فار برین سائنس کے ڈائریکٹر اور نیورو سائنسدان وینکٹیش مورتی، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھے، کہتے ہیں ”مجھے نہیں لگتا کہ یہ کوئی حتمی جواب ہوگا، لیکن یہ ایک اہم پیشرفت ہے۔“

ڈجیٹل فارمیٹ میں خوشبو کو محفوظ کرنے میں کامیابی کے بعد اسے ای میل کے ذریعے منتقل کرنا ممکن ہو جائے گا۔ تاہم ابھی یہ امکان نہیں ہے کہ آپ ای میل یا ٹیکسٹ میسج کھولیں تو خوشبو آنا شروع ہو جائے، کیونکہ خوشبو اصل میں ہوا میں تیرتے ہوئے مالیکولز ہوتے ہیں۔ جن کا ڈجیٹل نقش تو بھیجا جا سکتا ہے لیکن اس سے دوبارہ مالیکولز بنا کر انہیں ہوا میں منتقل کرنے کی ٹیکنالوجی فی الحال موجود نہیں ہے۔

مین لینڈ نے کہا ”کسی دن، یہ ٹول لوگوں کو سوشل میڈیا پر مہک کے ڈیجیٹائزڈ ورژن شیئر کرنے کی بھی اجازت دے سکتا ہے، جیسا کہ وہ تصاویر اور موسیقی کے ساتھ کرتے ہیں۔۔

ہارورڈ کے سائنسدان مورتی نے اتفاق کیا، حالانکہ انہوں نے کہا کہ وصول کنندہ کو اس کے بعد اس ڈیجیٹل ورژن کو حقیقی خوشبو میں تبدیل کرنے کے لیے کسی قسم کے آلے کی ضرورت ہوگی – جس طرح اسمارٹ فون کی اسکرین ڈیجیٹل سگنل کو ایک مرئی تصویر میں تبدیل کرتی ہے۔

لیکن نئے مطالعہ کی بنیاد کے ساتھ، انہوں نے کہا کہ یہ تصور امکانات کی ایک جھلک سے زیادہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close