وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جمعرات کے روز بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے ایک ملاقات کی جس میں انہوں نے دو صوبوں میں انتخابات کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ہونے والی لڑائی اور پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات منعقد کروانے کے عدالتی حکم پر حکومت کی پوزیشن واضح کی
بین الاقوامی میڈیا کے صحافیوں سے ملاقات میں اعظم نذیر تارڑ نے حکومت کے مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق پوچھے گئے سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیا، تاہم بعدازاں نیوز ویب سائٹ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”اس معاملے پر حکومت اب کوئی بھی اگلا قدم قومی اسمبلی میں بحث کے بعد ہی اٹھائے گی“
اعظم نذیر تارڑ کی گفتگو کے بعد قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کیا کہ وہ اس پر عمل نہ کرے۔
قرارداد میں سپریم کورٹ سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ بھی کیا
اس سے پہلے بدھ کی رات کو اتحادی جماعتوں کے ایک مشاورتی اجلاس میں بھی بظاہر حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی فوری ردعمل دینے سے اجتناب برتا گیا
اگرچہ اس اجلاس کا کوئی باقاعدہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا تاہم پاکستان کے مقامی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے خبریں چلائی ہیں کہ حکومت نے اسی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کو اسمبلی میں زیر بحث لائے گی
چار اپریل کو سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات منعقد کروانے کے حکم کے بعد حکومت نے قومی اسمبلی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کروانے کا اہم قدم اٹھایا ہے
تاہم اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ایگزیکٹیو نے عدلیہ کے خلاف براہ راست کوئی قدم اٹھانے کے بجائے پارلیمنٹ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ہے
یہاں تک کہ قرارداد کی منظوری کے بعد بھی یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کرے گی یا کوئی اور قدم اٹھائے گی
دوسری طرف مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور چیف آرگنائزر مریم نواز شریف سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کے خلاف دھواں دار تقاریر کر رہے ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ دینے والے تینوں ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا مطالبہ کیا ہے
شہباز شریف کی حکومت کی سپریم کورٹ کے ’ناپسندیدہ ججوں‘ کے خلاف محتاط پیش قدمی اور نواز شریف اور مریم نواز کی شعلہ بیانی سے یہ شائبہ بھی ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن شاید ایک مرتبہ پھر’ گڈ کاپ بیڈ کاپ‘ کھیلنے کے لیے کوشاں ہے
اگرچہ حکومت اپنی امیدیں سپریم کورٹ کے فل بینچ سے وابستہ کیے ہوئے ہے لیکن ابھی تک حکومت کے کسی قانونی مشیر نے روشنی نہیں ڈالی کہ اگر فل کورٹ بن جاتی ہے تو وہ اس کے سامنے کون سے دلائل اور پہلو رکھ کر اپنا دفاع کریں گے
سپریم کورٹ کے فیصلے پر اگر حکومت عمل نہیں کرتی تو قومی اسمبلی کی قرارداد کے باوجود اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں
کچھ عرصہ قبل نون لیگ کے پاس عوام سے مخاطب ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، اب تند و تیز بیانات کی دھول میں سے ایک ’بیانیہ‘ کشید کر لیا گیا ہے
ان عوامل سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ جہاں نواز شریف اور مریم نواز عدلیہ مخالف بیانیہ اپنا کر انتخابات سے پہلے عوام میں اپنی جگہ بنانے کے متلاشی ہیں، وہیں شہباز شریف پارلیمنٹ کے سہارے کے ذریعے اس صورت حال میں نقصان سے بچنے کے لیے کوشاں ہیں
تجزیہ کار نادیہ نقی سمجھتی ہیں کہ حکومت کو اس بات کی امید نہیں ہے کہ نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ ان کے حق میں آئے گا اس لیے وہ اس پر آگے بڑھنے میں تامل سے کام لے رہے ہیں۔
انہوں نے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’اس وقت بظاہر حکومتی اتحاد کے پاس سیاسی اور قانونی راستوں کی کمی ہے
انہوں نے کہا ”حکومتی اتحاد کے لیے بہتر یہی ہے کہ فوری طور پر ایک مذاکراتی کمیٹی تشکیل دیں اور عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر ملک بھر میں عام انتخابات کی تاریخ طے کریں“
تاہم نادیہ نقی کا خیال ہے کہ حکمران جماعتیں اس حد تک سوچ رہی ہیں کہ اگر پورا نظام بھی لپیٹا جاتا ہے یا مارشل لا بھی آتا ہے تو آ جائے کیونکہ اس سے وہ عمران خان کو دوبارہ حکومت میں آنے سے روک سکتے ہیں
پی ٹی آئی کیا کہتی ہے؟
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عوامی سطح پر پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کرے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی پارٹی کی جانب سے قانون کے تحت انتخابی شیڈول میں نوے روز کی مدت سے زیادہ کی ترمیم کے لیے آئینی ترامیم پر غور کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے
اسد قیصر نے مقامی چینل ڈان نیوز ٹی وی کے عادل شاہ زیب کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ”ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ایک ساتھ بیٹھے اور ہم آئینی ترمیم کے لیے بھی تیار ہیں، اگر ایک بار کے لیے (انتخابات) کو نوے روز سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے تو ہم مزید کیا لچک پیش کر سکتے ہیں؟“
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ باضابطہ طور پر (مذاکرات) کے لیے اقدام کرے اور وزیر اعظم اعلان کریں کہ وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، پھر ہم مل بیٹھ کر معاملات طے کریں گے، یہ وقت کی ضرورت ہے کہ سیاسی رہنما بات چیت کریں
اسد قیصر نے ملک اور اس کے شہریوں کو ترجیح دینے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟ آخرکار سیاست کو ملک اور اس کے لوگوں کی بہتری کے لیے ہونا چاہیے۔
سابق اسپیکر نے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ پر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے کا حکومتی فیصلہ غیر آئینی ہوگا اور ایک ایسی حکومت کی نشاندہی کرے گا جو صرف اپنے مفادات پر مرکوز ہے، اس کی مقبولیت کو مزید کم اور اس کی ’سیاسی موت‘ کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے قانون کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے استدلال کیا کہ انتخابات کی تاریخ میں تھوڑا سا اتار چڑھاؤ بھی قانون کے مطابق منظور ہونا ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ انتخابات شفاف اور منصفانہ اور کسی قسم کے اعتراضات سے پاک ہوں۔
تاہم قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر نے جاری سیاسی بحران کو حکومت کی جانب سے تعمیری بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے عزم پر شکوک کا اظہار کیا
اسد قیصر نے موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یقین ہے کہ اقتدار میں رہنے والے واضح طور پر نہیں سوچ رہے، عوام میں پھیلتی ہوئی مایوسی ’خطرناک سطح‘ تک پہنچ رہی ہے اور ملک کے استحکام کے لیے ایک اہم خطرہ ہے
سیاسی تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں؟
موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ نگار سجاد میر کہتے ہیں ”مسلم لیگ (ن) عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنا چاہتی تھی اور اس کے علاوہ ان کے پاس ملکی مسائل کو حل کرنے کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے“
امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سجاد میر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے انتخابات نہ کروا کر غلطی کی اور اب نتیجہ یہ ہے کہ بیچ میدان میں کھڑے ہیں اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ہے
اُن کا کہنا تھا کہ صورتِ حال یہ ہے کہ ریاستی ادارے منقسم ہیں اور سول سوسائٹی بھی تقسیم ہے اور کوئی ابھی ایک صفحے پر نہیں ہے
سجاد میر نے کہا کہ بے یقینی، ابہام، عدم استحکام، سیاسی انتشار کا یہ عالم ہے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کس سمت جانا ہے۔ ان کے بقول جمہوریت کا راستہ گم ہوتا دکھائی دیتا ہے
تجزیہ کار ضیغم خان کے خیالات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) بغیر حکمتِ عملی کے حکومت میں آئی اور اب بھی توجہ صرف یہ ہے کہ عمران خان کو قابو کیا جا سکے“
اُنہوں نے کہا ”پی ٹی آئی کی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی بھی حکومت کی کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی بلکہ عمران خان کو عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کا انتظار کیا جارہا ہے“
وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اندرونی مسائل و خلفشار کا بھی شکار ہے، جس بنا پر انہیں اپنی ساکھ کی بحالی میں مشکلات کا سامنا ہے
ضیغم خان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی توجہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو التوا میں ڈالنے پر مرکوز ہے تاہم ان کی نظر میں مسلم لیگ (ن) کا اصل چیلنج انتخابات نہیں بلکہ پارٹی کی ساکھ بحال کرنا ہے
‘نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے ضیغم خان کہتے ہیں کہ ملک کا سیاسی ماحول اس وقت نواز شریف کی واپسی کے لیے ساز گار نہیں جس کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد کی واپسی کے امکانات دکھائی نہیں دیتے ہیں
انہوں نے کہا کہ ایسے ماحول میں جب حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی کی صورتِ حال ہو تو نواز شریف واپسی کا نہیں سوچیں گے کیوں کہ ان کے مقدمات آخرکار سپریم کورٹ ہی سنے گی
وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی میں اب بہت دیر ہوچکی ہے اور ان کے آنے سے بھی ملکی حالات میں زیادہ تبدیلی آئے گی اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف تیزی سے بڑھے گا۔