شمالی مقدونیہ: ایک ویران گاؤں اور اس میں آباد ایک منفرد لائبریری کی کہانی۔۔

ویب ڈیسک

تین پہاڑیوں کے درمیان واقع بابینو گاؤں ایک ایسے خطے میں واقع ہے، جسے غیر معمولی طور پر پینے کے پانی کی دولت سے نوازا گیا ہے۔ صرف دریائے بسرینیکا کے ساتھ ساتھ، تقریباً ہر سو میٹر پر ایک چشمہ ہے، جب تک کہ کرنا ریکا میں اس کا بہاؤ نہ ہو۔ یہاں بلوگن، سیر، گورون اور نصف صدی کے بلوط کے درختوں کا جنگل ہے، سطح سمندر سے 650 سے 700 میٹر بلند، بابینو کی آب و ہوا مثالی ہے۔ اس کا ماہانہ اوسط درجہ حرارت 10 ڈگری سیلسیس ہے، سب سے زیادہ درجہ حرارت 22 اور سب سے کم منفی تین ڈگری سیلسیس ہے

دریائے بسرینیکا کے ساتھ ساتھ ایک مچھلی کا فارم ہے، جہاں مچھلی کی بہت سی خصوصیات چکھائی جا سکتی ہیں، ساتھ ہی کئی روایتی مقدونیائی کھانے بھی۔ خطے کی مقامی آبادی لکڑی کے کام، بُنائی، کڑھائی اور دیگر روایتی مہارتوں میں ماہر ہے۔ ایک غیر معمولی واقعہ یہ ہے کہ مقامی لوگوں کے بڑھاپے میں بھی گھنے بال ہوتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس بالوں کے گرنے کے خلاف ایک پراسرار علاج ہے۔ 750 میٹر کی مثالی اونچائی پر مختلف پھلوں اور دواؤں کے پودوں کے ساتھ پوری ہریالی اور جنگل کی دولت کے ساتھ، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ باشندوں کی اوسط عمر 90 سال تک پہنچ جاتی ہے!

بابینو میں، جیسے کہ پورے اردگرد میں، بہت سی غاریں دستیاب اور ناقابل رسائی ہیں، جن کی بہت کم یا نہ ہونے کے برابر تحقیق کی گئی ہے۔ یہاں کے لوگوں کی صوفیانہ فطرت مقامی کہانیوں کو تخلیق کرتی ہے، جو بالآخر صدیوں پرانی داستانوں تک پہنچ جاتی ہے

گاؤں کا ہر آنے والا یہاں اپنی مختلف ضروریات کو پورا کر سکتا ہے – روشن خیالی کی پیاس۔ یہ مقدونیہ کی اسی سب سے بڑی نجی لائبریری کی بدولت ہے

شمالی مقدونیہ کا یہ دور افتادہ گاؤں بابینو کبھی آباد تھا۔ بھرے پُرے گھر، کھیلتے بچوں کی کلکاریوں سے گونجتی اس کی گلیاں، گلیوں کے نکڑ پر بیٹھے بوڑھوں کی گپ شپ اور قہقہے اس بسے بسائے گاؤں کی پہچان تھے، لیکن اب اس گاؤں کے تقریباً سارے مکین یہاں سے جا چکے ہیں۔۔ پیچھے رہ جانے والے چند ہی لوگوں میں سے سٹیوو سٹیپانوسکی بھی ایک ہیں، جو اب بھی یہیں رہتے ہیں اور ان کا بیس ہزار سے زائد کتابوں کا قابل ذکر مجموعہ اس تقریباً ویران وادی میں اب بھی موجود ہے

اس لائبریری کا آغاز سٹیپانوسکی کے پردادا نے کیا تھا، جنہیں پہلی بار عثمانی فوجیوں نے انیسویں صدی کے آخر میں اپنی کتابوں کا مجموعہ دیا تھا

مقدونیہ کی زبان میں تاریخ کی کتابوں اور ناولوں کے ساتھ ساتھ فارسی، عربی، ترکی اور پرانے یوگوسلاویہ کی اہم زبان سربو کروٹ میں بھی کتابیں اس لائبریری کا حصہ ہیں

اس لائبریری میں پہلی عالمی جنگ کی کوریج کرنے والے ایک صحافی کی کھینچی گئیں اصل تصاویر، قدیم نقشے اور خطے کی متعدد زبانوں کا احاطہ کرنے والی ڈکشنریاں بھی موجود ہے

تہتر سالہ سٹیوو سٹیپانوسکی نے اے ایف پی کو بتایا، ”یہ تعلیم اور روشن خیالی کا گاؤں ہے“

وہ اپنے صدیوں پرانے گھر میں بنی لائبریری میں باقاعدگی سے مہمانوں کو کافی کے کپ کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں

اس لائبریری نے گاؤں والوں کو انتہائی تعلیم یافتہ بنانے میں مدد کی ہے۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ بابینو سے غیر معمولی تعداد میں اساتذہ بنے، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پورے مقدونیہ میں خواندگی پھیلا دی

سٹیپانوسکی کے مطابق ”ایسا کوئی گھر نہیں تھا، جہاں کوئی ٹیچر نہ ہو“

وہ کہتے ہیں نا کہ درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے سو بدقسمتی سے بعینہ اس گاؤں کو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیونکہ 1950ع کی دہائی میں، یوگوسلاوین حکومت نے وادی کے اساتذہ کو ملک گیر خواندگی مہم کے لیے بلا لیا، جس سے یہاں کی زیادہ تر آبادی مؤثر طریقے سے یہاں سے چلی گئی

جنوب مشرقی یورپ کے زیادہ تر علاقوں کی طرح شمالی مقدونیہ بھی کم ہوتی آبادی کے مسئلے سے دوچار ہے

عمر رسیدہ آبادی، کم ہوتی ہوئی شرح پیدائش اور بڑے پیمانے پر نقلِ مکانی جیسے تین مسائل نے یہاں کے بہت سے دیہی علاقوں کو ویران کر دیا ہے

بابینو اس سب سے خاص طور پر متاثر ہوا۔ کبھی اس گاؤں میں آٹھ سو سے زیادہ لوگ بستے تھے، لیکن اب یہاں صرف تین مستقل رہائشی ہیں

اور اب جبکہ سٹیپانوسکی کے بچے بھی بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد یہاں سے جا چکے ہیں، وہ بابینو میں اپنی کتابوں کے ساتھ ہی مقیم رہنے کے لیے پرعزم ہیں

سٹیپانوسکی کی طرف سے ساری زندگی خیال رکھنے پر اب کتابیں بھی ان کا یہ قرض چکا رہی ہیں اور انہیں اس ویران وادی میں تنہا نہیں ہونے دیتیں

ایک دنیا ان کے پاس آتی ہے اور ایک سال میں تین ہزار سے لے کر ساڑھے تین ہزار کے درمیان لوگ لائبریری کا دورہ کرتے ہیں

ان میں سے زیادہ تر کا تعلق قریبی قصبوں اور دیہات یا پڑوسی ممالک سے ہوتا ہے، لیکن اس کے علاوہ برازیل، مصر اور مراکش سے آنے والے مسافروں کے ساتھ کتابوں سے شغف رکھنے والے قاری، ادبی اسکالرز اور محققین بھی لائبریری آتے ہیں

دارالحکومت اسکوپجے کے ایک اسکول میں موسیقی کے پروفیسر گوس سیکولوسکی، جنہوں نے حال ہی میں بابینو کا دورہ کیا تھا، نے اے ایف پی کو بتایا ”مجھے حیرت ہے کہ یہاں ایسے عنوانات مل سکتے ہیں، جو شہر کی لائبریریوں میں بھی نہیں ملتے۔‘

لائبریری روایتی شکل کے ساتھ ایک گھر میں واقع ہے، اس میں ایک کھلا کمرہ ہے۔ سٹیپانوسکی نے یہاں مطالعے اور محافل موسیقی کے لیے ایک چھوٹا ایمفی تھیٹر بھی بنا رکھا ہے، جہاں پروموشنز، شاعری پڑھنا، میوزک کنسرٹ وغیرہ منعقد کیے جاتے ہیں

وہ بتاتے ہیں ”میں لوگوں کو یہاں آ کر بیٹھنے اور تجربہ حاصل کرنے کے لیے ایک پرسکون ماحول پیش کرتا ہوں۔۔ اگر آپ کتابوں کا جادو دریافت کرنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کام یہاں بہترین انداز میں کر سکتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close