فائیو اسٹار ہوٹل اور وہ بھی دارالحکومت کا، اس میں کوئی لُٹا پٹا شخص گھسنے کا سوچ سکتا ہے نہ اس کا مینیجر کسی کو یوں گھسنے کی اجازت دے سکتا ہے، لیکن اس کے برعکس موت سے دیوانہ وار بھاگتے ہزاروں لوگ جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی، جب روانڈا کے دارالحکومت کے فائیو اسٹار ہوٹل کے گیٹ پر پہنچے تو مینیجر نے نہ صرف اسے کھول دیا بلکہ محافظ بن کر وہاں کھڑا ہو گیا
یہ تذکرہ ہے پاؤل روسیسبگینا کا، جن کو اپنی اس کوشش میں کئی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، کئی پیاروں کو کھونا پڑا اور پچیس برس کی قید کا فیصلہ سننا پڑا
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کئی ممالک کی کوششوں کی بدولت دو سال بعد ان کی باقی سزا معاف کرکے انہیں پچھلے ہفتے رہا کیا گیا ہے اور 30 مارچ کو وہ امریکہ پہنچے ہیں
مختصر تاریخی پس منظر
نسل کشی کی جڑیں روانڈا کے نوآبادیاتی ماضی میں پیوست ہیں۔ 1916 تک ایک جرمن کالونی، بیلجیئم نے پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد روانڈا کا کنٹرول سنبھال لیا۔ بیلجیئم کی نوآبادیاتی انتظامیہ نے اپنے امتیازی طرز عمل کو جواز فراہم کرنے کے لیے نسل پرستانہ عقائد کا استعمال کرتے ہوئے ہوٹو کے مقابلے میں توتسی کی حمایت کی۔ ان عقائد کا دعویٰ تھا کہ چونکہ توتسیوں کی ہڈیوں کی ساخت مختلف تھی، جس میں پتلی ناک اور اونچی گال کی ہڈیاں شامل تھیں، ان کا تعلق یورپی یا شمالی افریقی نسل سے ہونا چاہیے، ہوٹو کے برعکس، جو چھوٹی تھیں، چوڑی ناک تھیں، اور اس لیے وہ خالص افریقی نسل سے ہونے کے دعویدار تھے۔ بیلجیئم کے لوگوں نے "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کے نوآبادیاتی ماڈل کو استعمال کیا، جس نے انہیں توتسی اشرافیہ کی بالواسطہ حکمرانی پر انحصار کرنے کی اجازت دی۔ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی حکمت عملی کے ایک حصے میں نسلی شناختی کارڈز کا تعارف شامل تھا، جس نے ہوتو اور توتسی کی تفریق کو مضبوط کیا، جس نے پہلے سماجی حیثیت اور دولت کا حوالہ دیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں، نوآبادیات نے نسلی تصادم کو ایک سماجی ڈھانچے میں متعارف کرایا، جہاں پہلے نسلی وجود نہیں تھا۔ بعد میں، نوآبادیاتی تاریخ کے بعد، یہ دشمنی ایک منظم، نسل کشی کے نظریے کی شکل اختیار کر گئی جس نے ہوتو کو توتسیوں کے خلاف کھڑا کیا اور توتسیوں کے خاتمے کا جواز پیش کیا
جب 1950ع کی دہائی میں استعمار کو ختم کرنے کا دباؤ بڑھنا شروع ہوا تو بیلجیئم کے نوآبادیاتی حکام نے اقلیتی توتسی گروپ کے لیے اپنی حمایت ترک کر دی، اور 1959 میں اکثریتی ہوتو آبادی کی طرف سے ’سماجی انقلاب‘ نے پرتشدد بغاوت کو جنم دیا، جس سے بہت سے توتسی ملک سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ جب روانڈا نے 1962 میں بیلجیئم سے آزادی حاصل کی تو ایک ہوتو صدر کو تعینات کیا گیا، اور کئی سالوں تک توتسیوں کے خلاف تشدد عام رہا۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں توتسی مخالف تشدد کی لہروں کے ساتھ، توتسی مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد نے پڑوسی ممالک جیسے تنزانیہ، ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (سابقہ زائر)، کینیا اور خاص طور پر یوگنڈا میں زندگی بسر کی۔ روانڈا کے ان گروہوں نے روانڈا کی حکومت سے اپیل کی کہ وہ 1980 کی دہائی کے دوران انہیں محفوظ واپسی کی اجازت دے، جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا
اس دوران یوگنڈا میں جلاوطن توتسیوں میں سے کچھ نے روانڈا پیٹریاٹک فرنٹ (RPF) کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا۔ 1990 میں، اس گروپ کی مسلح شاخ نے روانڈا پر حملہ کیا اور روانڈا کے حکمرانوں کے لیے بہت مشکل وقت میں روانڈا واپس جانے اور مشترکہ حکمرانی کا حق مانگا۔ 1973 کے بعد سے ایک جماعتی ریاست، روانڈا نے 1980 اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں جمہوری بننا شروع کیا، اور انتہا پسند گروپوں کے زیر اہتمام اخبارات کے ساتھ ایک نیم آزاد پریس نے ایک پروپیگنڈا مشین کا دروازہ کھولا، جس نے نسل کشی کو ہوا دی۔ چونکہ آر پی ایف ایک توتسی باغی گروپ تھا، اس لیے پروپیگنڈہ مشین کا مقصد توتسیوں کو دشمن حملہ آوروں کے طور پر پیش کرنا تھا۔ اس پروپیگنڈے نے 1990 کی دہائی سے پہلے کی دہائیوں کی موجودہ توتسی دشمنی اور تشدد کو مزید ہوا دی۔ آر پی ایف اور روانڈا کی مسلح افواج کے درمیان اس خانہ جنگی نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی، جس کی وجہ سے امن عمل شروع ہوا
نسل کُشی کی تحریک
یہ 1993ع کے اواخر کی بات ہے، جب پاؤل روسیسبگینا ہوٹلنگ کی ٹریننگ کے لیے ملک سے باہر تھے تو اس وقت ٹوٹسی کمیونٹی کے لوگوں پر مشتمل ملیشیا روانڈن پیٹریاٹک فرنٹ (آر پی ایف) کی جانب سے حکومت کو شدید مسائل کا سامنا تھا۔ تاہم انہی دنوں حکومت کے ساتھ فائربندی کا معاہدہ ہوا، جس سے وقتی طور پر خانہ جنگی تھم گئی لیکن اس کے بعد یو این کو ایسی رپورٹس ملیں کہ ٹوٹسی افراد کی نسل کُشی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں
6 اپریل 1994 کو ایک ایسے جہاز کو کیگالی ایئرپورٹ کے قریب نشانہ بنایا گیا، جس میں صدر بھی سوار تھے اس حملے میں ان سمیت تمام افراد مارے گئے۔ اس کا الزام ہوٹو افراد، جو حکومت میں شامل تھے، کی جانب سے ٹوٹسی ملیشیا پر لگایا گیا اس کے بعد ملک میں ٹوٹسی افراد پر حملے شروع ہو گئے، جن کو نسل کُشی کی تحریک بننے میں زیادہ وقت نہیں لگا اور ملک کے طول و عرض میں ان کو تلاش کر کے مارا جانے لگا
’مِکسڈ چلڈرن‘
اگرچہ پاؤل روسیسبگینا کا تعلق ہوٹو کمیونٹی سے تھا تاہم ان کی والدہ ٹوٹسی تھیں جبکہ اہلیہ کا تعلق بھی اسی کمیونٹی سے تھا، اس لیے ان کے بچوں کو ’مکس‘ قرار دیا گیا جو یقیناً ان کے خاندان کے لیے خطرناک بات تھی
جب متشدد واقعات شروع ہوئے تو فوجی اہلکار ان کے گھر پہنچے اور ہوٹل کھولنے کا کہا، جس کو عبوری حکومت اپنے ہیڈکوارٹر کے طور پر بھی استعمال کرتی تھی، انہوں نے اہلکاروں کو رشوت دی کہ ان کے خاندان کو محفوظ طور پر نکالا جائے تاہم ایسا نہیں ہوا۔ بعدازاں ہوٹل پر حملے کے بعد انہوں نے خود اپنی فیملی کو ایک ٹرک کے ذریعے روانہ کیا گیا اور خود یہ کہتے ہوئے ہوٹل میں ہی رک گئے کہ وہ اتنے لوگوں کو خطرے میں چھوڑ کر نہیں جا سکتے
تاہم فورسز نے اس وقت کیگالی ایئرپورٹ پر حملہ کیا، جب ان کے بیوی بچے وہاں پہنچے اور انہیں مجبوراً واپس ہوٹل لوٹنا پڑا
”کیا وہ ہمارے ٹکڑے کریں گے؟ وہ ایسا ہی کرتے ہیں“
ان کی اہلیہ تاتیانہ کی والدہ، بہن بھائی اور کئی بھتیجے، بھتیجیاں حملوں میں ہلاک ہوئے جبکہ والد نے ہوٹو فورس کو اس لیے پیسے دیے کہ ان کو زیادہ دردناک موت نہ مارا جائے
پاؤل روسیسبگینا نے اپنی کتاب ’فار اے روانڈن فیملی، اٹس اے کمپیریٹیولی لکی آؤٹ کم‘ میں بھی اس حوالے سے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”تاتیانہ کے والد کہتے تھے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم مارے جائیں گے، تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیسے، کیا وہ ہمارے ٹکڑے کریں گے؟ وہ ایسا ہی کرتے ہیں“
ان کے مطابق صرف گولی سے مرنے کے لیے آپ کو فوجیوں کو رشوت دینا پڑتی تھی اور یہی تاتیانہ کے والد نے کیا۔
قتل عام کے بعد پاؤل روسیسبگینا کے آٹھ بہن بھائیوں میں سے صرف چار ہی زندہ بچ پائے تھے۔ تقریباً تین ماہ تک جاری رہنے والی اس نسل کُشی میں آٹھ لاکھ افراد کو قتل کیا گیا
ہوٹل میں پھر کیا ہوا؟
پاؤل روسیسبگینا نے پناہ گزینوں کو مختلف کمروں اور ہالز میں بھیج کر گیٹ بند کر دیا اور ٹیلی فون پر ہوٹل کے مالک اور اقوامِ متحدہ سے رابطہ کر کے صورتحال سے آگاہ کیا۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہوٹل مدد اور سکیورٹی بھجوائی گئی۔ اس دوران ملک کے کئی علاقوں میں نسل کُشی کا سلسلہ جاری رہا اور ہوٹل پر حملے بھی کیے گئے، تاہم وہ ڈٹے رہے اور کئی روز تک پناہ گزینوں کو ہوٹل میں رکھنے کے بعد ان تمام ایک ہزار دو سو اڑسٹھ افراد کی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہوئے
پاؤل روسیسبگینا ان واقعات کے بعد روانڈا کی حکومت کے سخت ناقد رہے اور 1996ع میں ملک چھوڑ کر بیلجیئم پہنچے، جبکہ وہاں سے امریکہ منتقل ہوئے اور وہاں بھی وہ روانڈا کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے
ہوٹل روانڈا
2014ع میں ہالی وڈ نے ’ہوٹل روانڈا‘ کے نام سے فلم بنائی جس میں 1994ع میں روانڈا کے حالات اور ہوٹل میں پیش آنے والے واقعات کی منظرکشی کی گئی تھی۔ اس میں ڈان چیڈل نے پاؤل روسیسبگینا جبکہ سوفی اوکینیڈو نے ان کی اہلیہ تاتیانہ کا کردار ادا کیا۔ اس کو پوری دنیا میں بہت سراہا گیا
پاؤل روسیسبگینا جیل میں کیسے پہنچے؟
پاؤل 2020ع میں بیروندی کے لیے امریکہ سے روانہ ہوئے تاہم اس کے بعد وہ یکدم لاپتہ ہو گئے اور کسی کا ان سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا جبکہ چند روز بعد روانڈا کی حکومت کی جانب سے ان کی ہتھکڑیاں لگی تصویر جاری کی گئی۔ ان کی فیملی کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ ان کو اغوا کر کے مرضی کے خلاف روانڈا لے جایا گیا
رونڈا کی حکومت کی جانب سے ان پر مقدمہ چلایا گیا اور 2021ع میں تشدد پسند گروپ کے لیے کام کرنے، قتل اور اغوا کے الزامات کے تحت پچیس برس کی قید سنائی گئی
جس پر کئی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی جبکہ کئی ممالک نے پاؤل کی رہائی کے لیے کوششیں شروع کیں اور پچھلے ہفتے روانڈا کی حکومت کی جانب سے ان کی باقی ماندہ سزا معاف کرنے کا اعلان کیا گیا
قید کے دوران پاؤل کی گرتی صحت کے حوالے سے خبریں بھی سامنے آتی رہیں جبکہ پچھلے برس اکتوبر میں انہوں نے روانڈا کی وزارت انصاف میں اپنا دستخط شدہ خط جمع کرایا، جو اس کی ویب سائٹ پر بھی جاری کیا گیا، اس میں پاؤل نے کہا تھا کہ اگر انہیں رہا کر دیا جائے تو وہ امریکہ میں بغیر کسی قسم کے سیاسی مقاصد کے باقی زندگی گزاریں گے
انہوں نے لکھا ”میں روانڈا کی سیاست سے متعلق سوالات پیچھے چھوڑ جاؤں گا اور ان پر بات نہیں کروں گا“
پچھلے سال امریکہ کے وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے روانڈا کے دوران حکومتی حکام سے ملاقات میں کیس کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ جس کے بعد وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا ”پاؤل کو گھر لانے کے لیے بہت کوشش کی جا رہی ہے۔“