کینیڈا: مسجد کے احاطے میں نمازی کو کچلنے کے کوشش، ملزم گرفتار

ویب ڈیسک

غیرمسلم ممالک بالخصوص یورپی ممالک میں اسلاموفوبیا کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں پر قاتلانہ حملے، املاک کو نقصان پہنچانے، قرآن مجید کی بے حرمتی، شعائرِ اسلامی کی توہین اور شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کے اب تک جتنے بھی سوقیانہ واقعات ہو چکے ہیں، وہ اس امر کے غماض ہیں کہ الحادی قوتیں باقاعدہ ایک ایجنڈے کے تحت ایسے واقعات کا ارتکاب اور ان کی سرپرستی کرتی ہیں

ایسے ہی ایک واقعے کے بعد کینیڈا کی پولیس نے گزشتہ روز ایک شخص کو گرفتار کیا ہے، جس نے ایک مسجد کے احاطے میں ایک نمازی کو اپنی گاڑی سے کچلنے کی کوشش کی، انہیں دھمکیاں دیں اور مذہبی طور پر برا بھلا کہا

پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ اونٹاریو صوبے کے مارکہیم شہر میں پیش آیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اٹھائیس سالہ شرن کروناکرن کو بعد میں ٹورنٹو سے گرفتار کر لیا گیا

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ملزم پر ’نفرت پر مبنی واقعے‘ میں گرفتار کر کے فرد جرم عائد کی گئی ہے

کینیڈا کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

پارلیمنٹ کی مقامی رکن اور کینیڈا کی وزیر تجارت میری نیگ نے اس واقعے کی مذمت کی اور اسے نفرت انگیز جرم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کینیڈین سماج میں اسلاموفوبیا کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے

نیگ جو مقامی رکن پارلیمان بھی ہیں، نے اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ”نفرت انگیز جرم کے واقعے اور نسل پرستانہ رویے کے بارے میں سن کر انہیں شدید تکلیف پہنچی ہے“

ٹوئٹر پر اپنے بیان میں نیگ نے مزید کہا کہ مساجد امن اور کمیونٹی کے لیے عبادت کی جگہ ہے اور اپنی عبادت گاہ میں ہر شخص کو محفوظ محسوس کرنا چاہیے

اسلامک سوسائٹی آف مارکم (آئی ایس ایم) نے کہا کہ جمعرات کو ٹورنٹو سے تیس کلومیٹر دور شمال میں واقع شہر مارکم کی مسجد میں ایک شخص داخل ہوا اور بظاہر اس نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی اور نمازیوں کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی۔ تاہم اتوار کو جاری ہونے والے پولیس کے بیان میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا ذکر نہیں کیا گیا

پولیس نے کہا کہ انہوں نے مشتبہ شخص پر دھمکیاں دینے، ہتھیار سے حملہ کرنے اور خطرناک ڈرائیونگ کے الزامات عائد کیے ہیں۔ اسے منگل کے روز نیو مارکیٹ میں اونٹاریو کی اعلیٰ عدالت میں پیش کیا جائے گا

یہ واقعہ رمضان کے مہینے میں اس وقت پیش آیا، جب بڑی تعداد میں لوگ مساجد میں عبادت کے لیے جاتے ہیں۔ حادثے کے وقت بھی ہزاروں مسلمان مارکہیم کی مسجد میں موجود تھے۔ مارکہیم ٹورانٹو سے تقریباً تیس کلومیٹر شمال میں واقع ہے

پولیس نے مزید کہا کہ انہوں نے مشتبہ شخص پر دھمکیاں دینے، ہتھیار سے حملہ کرنے اور خطرناک ڈرائیونگ کے الزامات عائد کیے ہیں۔ ملزم کی اگلی پیشی منگل (11 اپریل) کو نیو مارکیٹ میں اونٹاریو سپیریئر کورٹ آف جسٹس میں ہوگی

کینیڈین مسلمانوں کی قومی کونسل (این سی سی ایم) نے بھی ٹوئٹر پر ایک پوسٹ میں اس واقعے پر "انتہائی تشویش” کا اظہار کیا ہے

این سی سی ایم کا کہنا ہے کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سن 2021 میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے واقعات میں 71فیصد کا اضافہ ہوا۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق سن 2020میں مسلمانوں کے خلاف حملوں کے 84 واقعات درج کرائے گئے تھے جب کہ سن 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 144 ہو گئی

چند روز قبل ریاست نیو جرزی کے شہر ساؤتھ پیٹرسن کی مشہور عمر بن خطاب مسجد میں اتوار کو چاقو بردار شخص نے امام مسجد پر حملہ کر دیا اور متعدد وار کر کے انہیں شدید زخمی کر دیا

مسجد کے ترجمان عبدالحمدان کے مطابق امام مسجد سید النقیب پر حملے کا واقعہ اس وقت پیش آیا، جب وہ نمازِ فجر پڑھا رہے تھے اور وہ جیسے ہی سجدے میں گئے تو حملہ آور نے ان کی پیٹھ پر چاقو کے کئی وار کیے

ترجمان کے مطابق حملہ آور نے فرار ہونے کی کوشش کی جسے نمازیوں نے ناکام بناتے ہوئے اسے پولیس کے حوالے کر دیا۔ جس وقت امام مسجد کو نشانہ بنایا گیا اس وقت لگ بھگ دوسو افراد مسجد میں موجود تھے

اس سے قبل برمنگھم کے علاقے ایجبیسٹن میں مسجد سے گھر جاتے ہوئے ایک مسلمان مرد کو ایک اجنبی شخص نے آگ لگا دی، جس کے نتیجے میں وہ جھلس گئے

ویسٹ مڈلینڈز پولیس کا کہنا ہے کہ وہ لندن کے علاقے ایلنگ میں ہونے والے اسی طرح کے ایک واقعے سے آگاہ ہے اور میٹروپولیٹن پولیس کے ساتھ مل کر یہ معلوم کر رہی ہے کہ کیا دونوں واقعات کا آپس میں کوئی تعلق ہے

میٹ کا کہنا ہے کہ 27 فروری کو سنگاپور روڈ پر ایک 82 سالہ شخص کو اس وقت آگ لگا دی گئی تھی، جب مشتبہ شخص اور متاثرہ فرد، دونوں ویسٹ لندن اسلامک سینٹر سے نکل رہے تھے

مارچ کے مہینے میں مسلم مخالف ڈینش گروپ ’پیٹریوٹرن گار لائیو‘ نے فیس بک پر اسلامو فوبک پیغامات والے بینرز اٹھائے ہوئے حامیوں کی لائیو فوٹیج نشر کی، جب انہوں نے کوپن ہیگن میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے قرآن کا نسخہ اور ترکی کا پرچم نذر آتش کیا

اسلامو فوبیا کا تصور درحقیقت مسلمانوں سے نفرت کی کریہہ شکل ہے۔ جس طرح گزشتہ کچھ عرصہ سے فرانس، ڈنمارک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور دوسرے غیر مسلم ممالک میں بعض فاترالعقل لوگ قرآن مجید کی بے حرمتی اور شانِ رسالت مآب میں گستاخی کا دیدہ دلیرانہ ارتکاب کر رہے ہیں، اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور ہی ختم ہو رہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں خاص طور پر اس صورتحال کو اجاگر کیا تھا۔ اسی تناظر میں پاکستان نے اقوام متحدہ میں بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے قرارداد پیش کی، جس میں اسلامو فوبیا کے بطور فیشن ارتکاب کے سختی سے سدباب کا تقاضا کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرکے ہر سال 16 مارچ کا دن اسلامو فوبیا کے خلاف منانے کا اعلان کیا۔ اگر اس کے بعد بھی شعائر اسلامی کی گستاخی کا ارتکاب ہورہا ہے تو اس امر کا عکاس ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کو الحادی قوتوں کی جانب سے محض رسمی کارروائی سمجھا جا رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور ہی غارت نہیں ہوگا بلکہ عالمی امن پر بھی خطرے کی تلوار مسلسل لٹکتی رہے گی۔ دراصل اقوام متحدہ کو اسلامو فوبیا کے تدارک کے لئے فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close