چین کے دورے پر موجود فرانسیسی صدر یورپ اور امریکہ کے خلاف بیان کیوں دے رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

اہم یورپی ملک فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں نے یورپ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ امریکہ پر اپنا انحصار کم سے کم کرے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کو تائیوان کے معاملے پر چین اور امریکہ کے درمیان آنے سے گریز کرنا چاہیے

ایمانویل میکخواں کا یہ تبصرہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب چین اپنی فوجی مشقیں تائیوان سے ملحقہ علاقے میں جاری رکھے ہوئے ہے

تائیوان کے صدر سائی انگ وین اور امریکی ایوان نمائندگان کیون مکارتھی کی بدھ کے روز ہونے والی ملاقات کے بعد چین نے ہفتے کے روز سے اپنی فوجی مشقیں تیز کر دی ہیں

دوسری جانب فرانسیسی صدر کے دورہ چین کو یوکرین کے مسئلے کے خاتمے کے لیے چینی قیادت پر دباؤ ڈالنا بھی قرار دیا جا رہا ہے

صدر ایمانویل میکخواں نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد بیجنگ سے گوانگژو جانے کے دوران اپنے ایک انٹرویو میں کہا ”یورپ اس وقت ان مسائل میں پھنس کر ایک بڑا خطرہ مول لے رہا ہے، جو دراصل ہمارے ہیں ہی نہیں۔ یہی چیز یورپ کو اپنی اسٹریٹیجک خود مختاری کو اپنانے سے روک رہی ہے“

واضح رہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی میکخواں کی اسٹریٹجک خودمختاری کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یورپی ممالک کے ساتھ بات چیت میں چین اکثر فرانس کے صدر کے اس نظریے کا حوالہ دیتا رہا ہے

چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں اور خارجہ پالیسی کے نظریہ سازوں کا ماننا ہے کہ مغربی ممالک کی طاقت ختم ہو رہی ہے اور جوں جوں بحرِ اوقیانوس کے درمیان تعلقات کمزور ہوں گے، یورپی خود مختاری کا تصور مضبوط ہوگا

فرانسیسی صدر نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا ”یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ یورپ خود کو امریکہ کا پیروکار مانتا ہے۔ یورپ کے عوام کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے کہ کیا تائیوان میں کشیدگی بڑھانا ان کے مفاد میں ہے؟ نہیں!“

میکخواں نے کہا ”سب سے بُری بات یہ ہوگی کہ ہم یورپی اس معاملے پر امریکہ کی طرح سوچنا شروع کر دیں اور امریکی ایجنڈے اور اس پر چین کے ردِعمل کو دیکھ کر اقدام کریں۔“

ان کا کہنا تھا ”جہاں یورپی ممالک یوکرین کے بحران کا حل تلاش کرنے سے قاصر ہیں، ایسے میں اگر وہ تائیوان کے معاملے پر یہ کہیں کہ دیکھو اگر آپ نے کچھ غلط کیا تو ہم پہنچ جائیں گے، اور یہ واقعی کشیدگی بڑھانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے“

دوسری جانب میکخواں کے اس انٹرویو پر وسیع ردعمل سامنے آیا ہے

نیٹو میں یورپ کے سابق سفیر ایوو ڈالدر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ”میکخواں یورپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ایسے مسئلے میں الجھنے سے دور رہے جو اس کا اپنا نہیں ہے۔ تاہم انہیں یورپ کے مسائل کے حل کے لیے امریکی فوجی وعدے درست لگتے ہیں۔ یہ اسٹریٹجک ’خودمختاری‘ نہیں ہے۔ یہ اسٹریٹجک بکواس ہے۔“

ماہر سیاسیات ایان بریمر نے لکھا ”یورپ کو چین پر انحصار کم کرنا چاہیے، نہ کہ امریکہ پر۔“

پروفیسر اینڈریس فالڈا لکھتے ہیں ”امریکہ اور چین کے بارے میں میکخواں کے بیانات پریشان کن ہیں۔ وہ ہم جیسے لاکھوں یورپیوں کی بات نہیں کہہ رہے ہیں، جو ’جمہوریت اور انسانی حقوق‘ میں یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں ’چین کو تائیوان پر قبضہ کرنے‘ سے روکنا ہوگا“

شطرنج کے سابق چیمپئن اور انسانی حقوق کے کارکن گیری کاسپوروف نے ٹویٹ کیا ”ہمیشہ کی طرح میکخواں قابلِ رحم ثابت ہوئے ہیں۔ چین کے ڈکٹیٹر سے ملاقات کے بعد وہ اور بھی قابلِ رحم نظر آ رہے ہیں۔۔ سنہ 2014ع میں جب پوتن نے پہلی بار یوکرین پر حملہ کیا تو یورپ اس مسئلے میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ لیکن اب وہ ایک جنگ لڑ رہا ہے۔ الگ تھلگ رہنے کی پالیسی ناکام رہتی ہے۔“

بینجمن ٹیلس نے میکخواں کے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ’جمہوریت‘ کے لیے لڑنا آپ کا کام نہیں ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایک بڑی مطلق العنان طاقت کا اپنے پڑوسی کو دبانا ٹھیک ہے۔ تو پھر ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔۔ آپ یورپ کے لیے نہیں بول رہے ہیں۔ آپ نے ایسا کیا بھی نہیں ہے۔ اگر یہی رویہ جاری رہا تو آپ کے پاس اب ایسا یورپ نہیں ہوگا جو آگے بڑھ کر ’قیادت‘ کرے۔“

کچھ یورپی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ میکخواں فرانس کی معیشت کے بحران کے پیشِ نظر چین کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی وکالت کر رہے ہیں اور وہ یورپی یونین اور چین کے درمیان تعلقات میں ایک نیا باب شروع کرنے کے حق میں ہیں۔ دوسری جانب امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد چین بھی یورپی منڈی میں اپنا حصہ بڑھانے کی کوششوں میں لگا ہے

میکخواں کے ساتھ اپنی گفتگو میں چینی صدر شی جن پنگ نے فرانس کے ساتھ اپنی دوطرفہ تجارت کو مزید بڑھانے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے ایئرو اسپیس، زراعت، موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیاتی تنوع کے مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کو سراہا

دراصل فرانس اور امریکہ کے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ امریکہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے معاملے میں فرانس کے تعاون کو تسلیم کرتا ہے، تاہم حالیہ دنوں میں فرانس اور امریکہ کے سفارتی تعلقات میں بھی تلخی آئی ہے۔ دو سال قبل یہ کشیدگی اس وقت نظر آئی جب آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ 66 بلین ڈالر کی آبدوزوں کا معاہدہ منسوخ کر کے اس کا ٹھیکہ ایک امریکی کمپنی کو دے دیا

اس وقت فرانسیسی صدر میکخواں نے الزام لگایا کہ سابق آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے آبدوزوں کے معاہدے کے حوالے سے ان سے جھوٹ بولا۔ جب صدر میکخواں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسکاٹ موریسن جھوٹ بول رہے ہیں، تو انہوں نے کہا ”مجھے صرف لگتا نہیں بلکہ میں یہ جانتا ہوں۔“

اور اس کی وجہ سے آسٹریلیا اور فرانس کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ فرانس نے آسٹریلیا کے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’پشت پر وار کرنے‘ کے مترادف قرار دیا اور امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیروں کو بھی واپس بلا لیا تھا

فرانس 2 ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے فرانسیسی وزیر خارجہ جین یوس لی دراین نے امریکہ اور آسٹریلیا پر ‘دھوکے، اعتماد کی خلاف ورزی اور توہین کرنے‘ کا الزام لگایا

واضح رہے کہ آکس معاہدے کے تحت، امریکہ آسٹریلیا کو ایٹمی طاقت سے چلنے والی آبدوزیں بنانے کی ٹیکنالوجی فراہم کرنے جا رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close