لکڑی سے عشق کبھی سنا ہے؟ مجھے پرانی لکڑی سے عشق ہے۔۔
کئی چیزیں ہم لوگ زندگی کے بہت مہنگے تجربوں سے سیکھتے ہیں۔ لکڑی کا عشق بھی ایسا ہی ایک تجربہ تھا۔
میں پلاٹ لینا چاہتا تھا۔ پیسے بھر دیے، بعد میں زمین ملی نہ پیسے، لیکن جن دوست کو بھرے، وہ میری طرح پرانی چیزوں کے عاشق تھے، یاری اس لیے باقی رہ گئی۔ تھوڑی بہت ریکوری بھی بعد میں آہستہ آہستہ ہو گئی
فرینڈ شپ میں اپنا معاملہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ جو یار بن گیا، اب وہ مار دے گا تو ختم ہو جائے گی، ورنہ تعلق بہرحال نہیں ٹوٹتا
تو وہ جو صاحب تھے، ان کے پاس میں جاتا، گھنٹوں بیٹھا رہتا
ان کے پاس پرانے دروازے تھے، بڑے بڑے صندوق تھے، خوبصورت منقش برتن تھے، قیمتی فرنیچر تھا، بندوقیں تھیں، خنجر اور نہ جانے کیا کیا کچھ! ان سب چیزوں میں لکڑی بہرحال استعمال ہوتی ہے
ایک مرتبہ وہ پرانے زمانے کی ایک ڈریسنگ ٹیبل لائے۔ اس کا پینٹ جلا کر صاف کروایا۔ اسے ریگ مال لگوایا، ہلکی سی رگڑ اور دلوائی، یوں اس سب کے بعد میز کا اپنا چاند چہرہ نکل آیا
ہم لوگ لکڑی کی مت مارنا جانتے ہیں، اسے سنبھال نہیں سکتے۔ انہوں نے اس ایک میز کو جس طریقے سے اپنی اصل حالت میں بحال کیا، مرحلہ وار وہ سب کچھ دیکھنا ہی میرے لیے عجیب سے خوشبودار مزے کا باعث تھا
خوشبودار مزہ۔۔۔ دیکھیے لکڑی وہ نہیں ہوتی، جو انگریزوں کے زمانے سے بنے فوجی میس یا ریلوے اسٹیشنوں کے فرنیچر میں آپ کو نظر آتی ہے۔ وہ کرافٹس مین شپ ہوتی ہے، مہارت ہوتی ہے، لیکن ہر سال دو سال بعد اس کے اوپر پالش کی تہیں چڑھا چڑھا کر اسے بالکل سڑا دیا گیا ہوتا ہے
کسی بھی سرکاری دفتر میں استعمال ہونے والا پرانا فرنیچر دیکھ لیجے۔ وہ ایک ہی رنگ کا ہوگا۔ سیاہی مائل بھورا۔ یہ رنگ صدیوں کی محنت سے یار لوگ چڑھاتے ہیں میز کرسیوں پر۔ کیوں ایسا کرتے ہیں؟ شاید بجٹ نہیں ہوتا یا پھر وہ لکڑی کو اپنی اصل حالت اور رنگ میں دیکھنا ہی نہیں چاہتے
تو بات خوشبو سے شروع ہوئی تھی۔ آپ کبھی لکڑی کے اوپر سے برسوں پرانی پینٹ اور پالش کی وہ منحوس تہہ اترتے دیکھیں گے تو عین اس لمحے آپ کو ایک خوشبو آئے گی۔ یہ خوشبو لکڑی کے مساموں سے آتی ہے، جنہیں برسوں بعد کھلی ہوا دیکھنے کو ملتی ہے
رہ گیا مزہ تو وہ لکڑی کے دانے کو محسوس کرنے کا ہے۔ اسے انگریزی میں گرین (Grain) کہتے ہیں اور اسی لفظ سے مزہ بھی ٹھیک والا آتا ہے۔ تو ہر لکڑی کا الگ ہی گرَین ہوتا ہے۔ کسی کا ڈیزائن ایسا ہے کہ جیسے سیدھی لہر بہتی چلی جا رہی ہے۔ کہیں بھنور پڑے ہوئے ہیں تو وہ ختم نہیں ہو رہے۔ کہیں ایک ہی تختے پہ تین چار گرہیں آ گئیں تو ان کی الگ بہار ہے۔ پھر اس لکڑی پہ آپ ہاتھ پھیریں تو ہر ایک رگ الگ الگ محسوس ہوتی ہے
یہ جو لکڑی کی رگوں تک پہنچنے، اس کی خوشبو سونگھنے اور اس کے مساموں سے نکلنے والا شکریہ سونگھنے کا معاملہ ہے اسے سیدھی زبان میں آپ ’لکڑی سے عشق‘ کہہ سکتے ہیں اور یہ دریافت عین اس وقت ہوئی، جب لکڑی کی وہ سنگھار میز میں نے رنگ و روغن کی دبیز تہوں سے چھٹکارہ پاتے ہوئے دیکھی
اس سنگھار میز کو ایک مرتبہ تو چھیل چھال کر الف کیا گیا اور پھر اس پہ بغیر رنگ ڈالے وارنش کی باریک سی تہہ چڑھا دی گئی
وہ پہلا دن تھا، جب مجھے ٹھیک سے پتہ چلا کہ ہاں یہ سب کام مجھے دیوانگی کی حد تک پسند ہے
کوئی کامیابی میں نے اس کے بعد حاصل نہیں کی۔ حسنین جمال ہرگز پروفیشنل بڑھئی نہیں بنا۔ کبھی فرنیچر بنوا کے فروخت نہیں کیا۔ اپنے تئیں انٹیریئر ڈیزائنر ہو جانے کی خارش نہیں اٹھی۔ کچھ بھی ایسا کام نہیں کیا الحمدللہ کہ جہاں سے مالی فائدے کا امکان ہو۔۔
ہاں اس کے بعد مجھے سمجھ آیا کہ دادا جان کے کمرے میں وہ جو لکڑی کا بنا ہوا ایک کارنس نما ریک تھا، جس میں بہت ساری طاقیں بنی تھیں، چھوٹی چھوٹی اور سائیڈوں میں دو بڑے پٹ والے خانے تھے، وہ آج تک پرانے گھر میں چھوڑنے کا افسوس مجھے کیوں ہوتا ہے
مجھے یہ بھی علم ہوا کہ ہمارے ابا نے اس والے گھر کا جو دروازہ لگوایا تھا لاؤنج کا، وہ مجھے پہلے ہی دن اتنا زیادہ پسند کیوں آیا تھا۔ اس میں بھی پرانی لکڑی کا ایک رچاؤ تھا، اب بھی ہے، خدا ہمیشہ رکھے
تب، بہت بچپن کا ٹائم تھا، میں پریشان ہوتا تھا کہ دادی کیوں روئی تھیں۔ ان کا یہ تخت کتنا پرانا ہے۔ خود وہ بتاتی ہیں کہ اس کو سو برس سے اوپر ہو گئے، ان کی نانی کا تھا شاید، اور اس کے پائے، پرانے بھاری پائے، لوہے کے جکڑ بند لگا کر موٹے کیلوں سے ٹھوکے ہوئے پائے جب بوسیدہ ہونے لگے تھے اور انہیں حق نواز چاچا نے گھر آ کے تبدیل کیا تھا اور چار نئے سڈول سے پائے ان کی جگہ لگائے تھے تو دادی ہفتوں تک اداس کیوں رہی تھیں
ابھی تازہ کارروائی کیا ہوئی، یہ سنیے۔۔۔
نانا کا ایک صندوق مجھے گڈو ماموں نے چھ سات برس پہلے دیا تھا۔ وہ نانا کی دکان کا کیش باکس (غلہ) تھا شاید۔ ماموں کہتے ہیں کہ ان کی پیدائش (1965) سے پہلے کا ہے اور انہوں نے اسے کبھی استعمال میں نہیں دیکھا، اماں بھی نہیں جانتیں کہ یہ صندوق کب سے ہماری کفالت میں تھا۔ تو اسے میں نے جیسے تیسے دوبارہ سیٹ کروا لیا۔ اب بیٹھا ہوں، اس کی رگوں پہ ہاتھ پھیر رہا ہوں اور اس سے پوچھ رہا ہوں کہ میاں کب سے ادھر ہیں آپ، لایا کون تھا آپ کو؟ مَصرف کیا تھا آپ کا؟
یہ بتاتے ہیں کہ ان کا تالہ کسی پرانے جرمن کارخانے میں بنا تھا۔ وہ کارخانہ (Bleckmann Solingen) اٹھارہویں صدی میں تلواریں بھی بناتا تھا، انیسویں صدی میں کٹلری کا شغل بھی کرتا رہا، تالہ بھی کبھی انہی زمانوں میں بنایا ہوگا!
اس کے علاوہ ابھی تک کچھ نہیں سن سکا میں۔۔ ضرورت بھی کیا ہے۔۔ عشق میں سوال جواب کدھر ہوتے ہیں بابا، شوق کا سودا ہے، جو کر سکتا ہے، کر لیتا ہے۔۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)