چند روز قبل حمیرا بیگ جب کراچی کی الیکٹرانکس مارکیٹ میں اپنے شوہر کے ساتھ گھر کے لیے ایک مخصوص کمپنی کے خاص سائز کا نیا فریج خریدنے کے لیے گئیں، تو انہیں دکاندار سے پتہ چلا کہ اُن کا مطلوبہ فریج فی الحال الیکٹرانکس مارکیٹ میں شارٹ ہے اور اُن کی دکان پر دستیاب نہیں ہے
حمیرا بتاتی ہیں ”اس کے بعد ہم صدر کے علاقے میں واقع اور کئی دکانوں میں بھی گئے، لیکن ہمیں اپنا مطلوبہ فریج نہیں مل سکا۔“
واضح رہے کہ کراچی میں صدر کے علاقے میں ملک کی الیکٹرانکس کی بڑی مارکیٹ واقع ہے۔ لیکن ہوم اپلائنسز کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ صرف گاہگ بلکہ دکاندار بھی پریشان ہیں
کراچی کی الیکٹرانکس مارکیٹ میں ہوم اپلائنسز کی دکان کے مالک شجاعت اللہ کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ دکان سے ہر روز بہت سارے گاہک صرف اس لیے خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں کیونکہ ان کی مطلوبہ ہوم اپلائنسز مارکیٹ میں شارٹ ہیں اور دستیاب نہیں ہو پا رہیں
شجاعت اللہ بتاتے ہیں ”اس وقت حالات بہت گھمبیر ہیں۔ اول تو ہوم اپلائنسز جیسا کہ فریج، فریزر، اے سی، مائیکرو ویو اون، واشنگ مشین وغیرہ کی سپلائی نہیں ہو رہی تو دوسری جانب ان کی قیمتوں میں گذشتہ چار سے پانچ مہینوں کے دوران 40 سے 70 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔“
شجاعت کے مطابق اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ ماضی قریب میں پیکج کی صورت میں تین، چار ہوم اپلائنسز رعایتی نرخوں میں ڈیڑھ لاکھ روپے تک میں خرید لیتے تھے، اب اول تو انہیں پیکج میں ان کی مطلوبہ مصنوعات مل نہیں پا رہیں اور اگر مل بھی جائیں تو وہی پیکج جو ڈیڑھ لاکھ تک میں مل جاتا تھا، وہ اب ڈھائی لاکھ روپے سے زائد میں ملتا ہے۔ شجاعت کے مطابق یہ پیکج عموماً شادی کے لیے بطور جہیز خریدے جاتے ہیں
الیکٹرانکس کی مصنوعات بنانے والی معروف کمپنی ہائیر کے سربراہ جاوید آفریدی نے گذشتہ دنوں ٹوئٹر پر آگاہ کیا کہ درآمدی پابندیاں اور معاشی عدم استحکام بڑھ رہا ہے، جس کے باعث بدقسمتی سے طلب اور رسد کے درمیان توازن خطرے میں ہے
انہوں نے بتایا ”اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے کچھ گھریلو الیکٹرانکس کی مصنوعات کی محدود فراہمی کے باعث صارفین کے لیے اپنی ضرورت کی چیزوں کو تلاش کرنا انتہائی مشکل ہو سکتا ہے“
کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایسشن کے صدر رضوان عرفان کے مطابق اس وقت ہوم اپلائنسز کی فروخت 30 فیصد تک گری ہوئی ہے، جس کی وجہ ان کی کم سپلائی کے ساتھ ان کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی بیشتر ہوم اپلائنسز پر ’میڈ ان پاکستان‘ کا لیبل بڑے واضح انداز میں چسپاں ہوتا ہے تو پھر ملک میں اُن کی عدم دستیابی کی وجہ کیا ہے؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ اشیا مکمل طور پر ’میڈ اِن پاکستان‘ ہیں تو درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندی، جن میں ایل سیز نہ کھلنا شامل ہے، اِن چیزوں کی پاکستان میں پیداوار اور ان کی مارکیٹ میں فراہمی کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟
پاکستان میں تیار اور فروخت ہونے والی بیشتر ہوم اپلائنسز جیسا کہ ریفریجریٹر، ڈیپ فریرز، واشنگ مشین، اے سی، ٹی وی، واٹر ڈسپنزر، مائیکرو ویو اون وغیرہ پر اکثر ’میڈ ان پاکستان‘ کا لیبل چسپاں ہوتا ہے، جس کا بظاہر یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ یہ چیزیں مقامی سطح پر پاکستان ہی میں تیار کی گئی ہیں
تاہم رضوان عرفان کہتے ہیں کہ بظاہر تو ان پر ’میڈ ان پاکستان‘ کا لیبل ہوتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مصنوعات صرف پاکستان میں اسمبل ہوتی ہیں جبکہ ان میں استعمال ہونے والے زیادہ تر پارٹس باہر سے درآمد ہوتے ہیں
معیشت کے مختلف شعبوں پر کام کرنے والے ریسرچ کے ادارے پاکرا (پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی) کی ہوم اپلائنسز کے شعبے پر ریسرچ کے مطابق اس شعبے میں مقامی طور پر تیار ہونے والی چیزوں کی لوکلائزیشن بہت کم ہے اور یہ 25 فیصد سے زیادہ نہیں، یعنی صرف 25 فیصد تک پارٹس پاکستان میں تیار ہوتے ہیں اور باقی 75 فیصد پارٹس اور خام مال باہر سے درآمد کیا جاتا ہے
پاکرا کی ریسرچر ثانیہ توصیف کے مطابق پاکستان میں ریفریجریٹر کی پیداوار میں لوکلائزیشن 20 سے 25 فیصد ہے، یعنی سادہ الفاظ میں اگر کسی ریفریجریٹر یا فریج پر ’میڈ اِن پاکستان‘ لکھا ہے، تو درحقیقت اس میں استعمال ہونے والے پارٹس کا فقط 20 سے 25 فیصد ہی پاکستان میں تیار ہوا ہوتا ہے جبکہ باقی پرزے باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں
ثنا توصیف کے مطابق اسی طرح اے سی کی تیاری میں بھی لوکلائزیشن 20 سے 25 فیصد، ڈیپ فریرز میں پانچ سے دس فیصد، واٹر ڈسپنسرز میں 20 سے 25 فیصد، ایل ای ڈی ٹی وی میں فقط دو سے پانچ فیصد اور واشنگ مشین میں لوکلائزیشن 20 سے 25 فیصد ہے
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اے سی میں استعمال ہونے والے فین بلیڈرز اور ایویپوریٹرز جبکہ ریفریجریٹر اور ڈیپ فریزرز میں استعمال ہونے والے لگ بھگ تمام اہم پارٹس بیرون ممالک سے درآمد کیے جاتے ہیں
اس ریسرچ کے مطابق ہوم اپلائنسز کے شعبے میں کم لوکلائزیشن اس شعبے کی ایک کمزوری ہے اور ایکسچیینج ریٹ میں ردوبدل اور بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کی وجہ سے اس پر منفی اثر پڑتا ہے
پاکستان میں صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے کام کرنے والے حکومتی ادارے ’پاکستان انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ‘ کے ترجمان عاصم ایاز نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ہوم اپلائنسز کے شعبے میں مقامی سطح پر ان کے پارٹس کی تیاری یعنی لوکلائزیشن صرف 20 سے 30 فیصد تک ہے
ہوم اپلائنسز ’میڈ ان پاکستان‘ کے باوجود درآمدات پر پابندی سے متاثر ہونے کے حوالے سے پاکستان میں الیکٹرانکس مصنوعات تیار کرنے والے صنعتی اداروں کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان الیکٹرانکس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن‘ کے سیکریٹری جنرل تصور حنیف کا کہنا ہے کہ الیکٹرانکس مصنوعات پر لکھا تو ’میڈ ان پاکستان‘ ہوتا ہے، لیکن چونکہ حقیقت میں سو فیصد ایسا نہیں، کیونکہ ان مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے پارٹس یا تو باہر سے درآمد ہوتے ہیں یا پھر ان کی پاکستان میں تیاری کے لیے خام مال باہر سے منگوایا جاتا ہے، اسی لیے جب درآمدات میں مشکلات ہوں گی تو ’میڈ اِن پاکستان‘ ہونے کے دعوے کے باوجود مسائل پیش آئیں گے
انہوں نے اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اے سی، فریج اور فریزرز میں سب سے اہم پرزہ کمپریسر ہوتا ہے، جو باہر سے درآمد کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ پاکستان میں تیار نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ دوسرے ضروری پارٹس بھی باہر سے منگوانے پڑتے ہیں
تصور حنیف نے ہوم اپلائنسز کی سپلائی میں کمی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس شعبے میں پیداوار کا سب سے بڑا مسئلہ ہوم اپلائنسز کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال اور پارٹس کی کمی ہے، جو پاکستان میں درآمدات کی ایل سیز کھولنے میں مشکلات کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے
ان کے مطابق سب سے پہلی رکاوٹ اپریل 2022 میں آئی جب درآمدات پر سٹیٹ بینک کی جانب سے کیش مارجن بڑھانے کا سرکلر آیا
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال دسمبر تک سٹیٹ بینک کی جانب سے کوٹہ فکس کیے جانے کے بعد ہوم اپلائنسز کے شعبے کے لیے کچھ ایل سیز کھلتی رہیں جس کی وجہ سے کچھ نہ کچھ پراڈکشن جاری رہی اور مارکیٹ میں ان کی فراہمی یقینی بنائی گئی تاہم موجودہ سال کے پہلے مہینے یعنی جنوری 2023 میں یہ کوٹہ بھی ختم کر دیا گیا کیونکہ ہوم اپلائنسز کی تیاری میں درکار پارٹس اور خام مال ایل سیز کھولنے کی ترجیحی لسٹ میں شامل نہیں اور اب تک یہ صورتحال برقرار ہے
تصور حنیف کے مطابق اس صورتحال کے باعث ہوم اپلائنسز کی پیداوار 70 سے 80 فیصد تک گِر گئی اور جو تھوڑی بہت پیداوار جاری ہے وہ کمپنیوں کے سٹاک میں موجود پارٹس اور خام مال کی وجہ سے ممکن ہو رہی ہے
اس سوال پر کہ پاکستان گھریلو مصنوعات کی مکمل لوکلائزیشن کیوں نہیں کر پا رہا؟ اس شعبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہوم اپلائنسز انڈسٹری میں کم لوکلائزیشن کی بنیادی وجہ تکنیکی اور مالیاتی مسائل رہے ہیں، جن میں ٹیکنالوجی اور مالیاتی طور پر ان کا پاکستان میں قابلِ عمل نہ ہونا ہے
عاصم ایاز نے اس سلسلے میں بتایا کہ کسی انڈسٹری میں لوکلا ئزیشن کے لیے بڑے حجم پر فروخت کی ضرورت ہوتی ہے تب ہی لوکلائزیشن مالی طور پر قابل عمل ہو پاتی ہے
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بیشتر مصنوعات میں کمپریسر استعمال ہوتے ہیں مگر ایک کمپریسر کی فیکٹری لگانے کے لیے جو سرمایہ درکار ہے اس کی سرمایہ کار کو منافع سمیت واپسی کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر تیار کیے گئے اس کمپریسر کی لوکل مارکیٹ میں زیادہ کھپت ہو تاکہ یہ منصوبہ یا فیکٹری مالی طور پر اپنے پیر پر کھڑی ہو سکے
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی معاشی اور انڈسٹری کی صورتحال اور سرمایہ کاروں کو درپیش مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ واضح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان میں ابھی کمپریسر بنانا اتنا قابل عمل کاروبار کیوں نہیں
’اس کام میں مسائل بہت ہیں کہ کوئی کمپریسر بنانے کی ٹیکنالوجی کو باہر سے پاکستان لائے، اس کی فیکٹری لگائے اور پھر منافع کما سکے۔ اس لیے ہوم اپلائنسز کے زیادہ تر پارٹس کو باہر سے درآمد کرنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہی صورتحال دوسرے اہم پارٹس کے حوالے سے بھی ہے جو باہر سے منگوائے جا رہے ہیں
دوسری جانب تصویر حنیف نے بھی اس بات کی نشاندہی کی کہ کمپریسر کے علاوہ دوسرے پارٹس اور ہوم اپلائنسز کی باڈی بنانے میں استعمال ہونے والا خام مال بھی پاکستان میں نہیں بنتا، اس لیے اسے باہر سے منگوانا مجبوری ہے
ثانیہ توصیف کے مطابق پاکستان میں فی الحال اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں، جس کی بنیاد پر اس سلسلے میں کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھا جا سکے
انہوں نے کہا کہ ہوم اپلائنسز کے شعبے میں حکومتی سطح پر کوئی ایسی گائید لائنز نہیں کہ اس شعبے میں لوکلائزیشن کو ایک خاص عرصے میں حاصل کیا جائے، جس طرح کہ آٹو سیکٹر میں بہرحال کچھ ٹائم لائنز ہیں کہ اتنے برسوں میں اتنی لوکلائزیشن کرنی ہے
ثانیہ کے مطابق ہوم اپلائنسز کے شعبے میں پاکستان میں ’اسمبلنگ‘ ہوتی ہے نا کہ ’مینوفیکچرنگ‘
اس سلسلے میں حکومتی ادارے انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز نے کم لوکلائزیشن کے باوجود ’میڈ ان پاکستان‘ لکھے جانے پر تبصرہ کرنے کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح مارکیٹ کا سائز بڑھ رہا ہے بہت سارے پارٹس میں لوکلائزیشن کی جا سکتی ہے
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ مصنوعات پاکستان میں اسمبل ہوتی ہیں تاہم پھر بھی یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ انھیں مکمل بلٹ اپ (سی بی یو) کی صورت میں پاکستان میں درآمد کیا جائے۔