امریکا بچوں کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال، والدین کی اجازت سے مشروط کرنے پر غور کرنے لگا۔۔

ویب ڈیسک

دورِ حاضر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹ کی افادیت سے انکار ممکن نہیں، مگر جس طرح ہر چیز کے مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں اور منفی بھی، یہی حال سوشل میڈیا کا بھی ہے۔ جہاں سوشل ویب سائٹس انفرادی اور گروہی سطح پر باہمی رابطوں کا ذریعہ اور اطلاعات اور خبروں کی ترسیل کا مؤثر ترین سیلہ بن کر سامنے آئی ہے، وہیں ان کی وجہ سے معاشروں میں بہت سی اخلاقی اور سماجی خرابیوں نے بھی فروغ پایا ہے اور خاص طور پر بچوں پر اس کے منفی اثرات تباہ کن ہیں، یہی وجہ ہے کہ کئی والدین ان پلیٹ فارمز پر بچوں کی پرائیویسی کے حوالے سے پریشان ہیں

اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے امریکا میں جلد ہی ایسا قانون متعارف کرایا جا رہا ہے، جس کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسا کہ ٹک ٹاک، انسٹاگرام یا دیگر سوشل میڈیا ایپس کو والدین کی اجازت سے مشروط کیا جائے گا

بچوں اور نوعمروں کے ساتھ بڑھتے ہراساں کیے جانے کے واقعات کے پیشِ نظر امریکی قانون ساز سوشل میڈیا سے متعلق ضابطے اور قوانین بنانے پر غور کر رہے ہیں

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی برسوں سے امریکی قانون ساز سماجی پلیٹ فارمز کے حوالے سے خدشات کو دور کرنے کی غرض سے نئی پالیسیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، جس کی مدد سے نوعمر صارفین کو آن لائن ہراسانی جیسے واقعات سے محفوظ رکھا جا سکے

امریکی ریاست ارکنساس اور یوٹاہ کے گورنروں نے حال ہی میں ایک ایسے بل پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں ایسا قانون متعارف کروائیں گی، جس کے تحت کسی بھی پلیٹ فارم پر لاگ اِن ہونے سے قبل عمر کی تصدیق کرنا لازمی ہوگی، جبکہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو اپنے والدین یا کسی سرپرست سے اجازت لینا لازمی ہوگی

ارکنساس اور یوٹاہ کے بعد اب امریکا کی دیگر ریاستوں میں بھی اس حوالے سے قانون سازی کے لیے کام کیا جا رہا ہے

یہ اقدام نو عمر بچوں کے تحفظ کے لیے اٹھایا گیا ہے، جو کئی والدین کے لیے برسوں تک سوشل میڈیا کے بچوں پر منفی اثرات کے حوالے سے فکرمندی کا باعث بنا ہوا ہے

تاہم قانون پر تنقید کرنے والے کچھ صارفین، ڈجیٹل حقوق کے حامی اور بچوں کے تحفظ کے ماہرین اس اقدام پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے اقدام سے نوعمر بچوں اور ان کے والدین کی پرائویسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور والدین پر اضافی بوجھ پڑ سکتا ہے

ناقدین کا کہنا تھا کہ اس قانون کے بعد آن لائن سروسز کو نوجوانوں اور ان کے گھر والوں کی حساس معلومات تک رسائی حاصل ہوگی تاکہ عمر کی تصدیق ہو سکے

ڈجیٹل رائٹس گروپ الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر جیسن کیلی نے سی این این کو بتایا کہ والدین کی بچوں کی پرورش کے حوالے سے حکومتی مداخلت پر فکر مند ہیں، ریاست والدین کو نہیں بتا سکتی کہ بچوں کی پرورش کیسے کی جائے

والدین طویل عرصے سے سوشل میڈیا کے استعمال سے اپنے بچوں کی پرائویسی کے بارے میں فکر مند ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پرائویسی کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ریاستی قانون ساز نئی پالیسی مرتب کریں گے

تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہو سکا کہ قانون پر عملدرآمد کا طریقہ کار کیا ہوگا، یعنی کمپنیاں کیسے تعین کریں گی کہ کسی صارف کی عمر کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close