جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی فراہم کردہ معلومات سائنسدانوں کے لیے گہرے مخمصے کا سبب بن گئی ہے
کیونکہ اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ماہرین فلکیات کو کائنات کی تخلیق اور کہکشاؤں کی ترقی کے بارے میں اپنی فہم کو تبدیل کرنا پڑے گا
تحقیق کے دوران ایک سائنسدان کی طرف سے متنبہ کیا گیا ہے کہ خلائی دوربین جیمزویب ایسی کہکشائیں تلاش کرنے میں مصروف ہے، جن کا وجود نہیں ہونا چاہیے
محققین نے خبردار کیا ہے کہ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کی نئی طاقتور دوربین نے اب تک جو ابتدائی ترین اور سب سے بڑی کہکشائیں دیکھی ہیں، ان میں سے چھ کائنات میں اپنے مقام کے اعتبار سے توقع سے زیادہ بڑی اور پختہ دکھائی دیتی ہیں
نئی دریافتوں کی بنیاد گذشتہ تحقیق پر ہے، جب سائنسدانوں نے بتایا کہ کائنات کے آغاز سے چلی آنے کے باوجود یہ کہکشائیں ہماری اپنی کہکشاں کی طرح پختہ ہیں
اب ایک نئی تحقیق ان نتائج کی تصدیق کے لیے سامنے آئی ہے، جس میں کہکشاؤں کو ’تناؤ کی جانچ‘ کے ذریعے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ کیسے بنتی ہیں
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر سائنسدانوں نے غلطی نہیں کی، تو ہم کائنات کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات سے محروم ہو سکتے ہیں
آسٹن میں یونیورسٹی آف ٹیکسس میں خلافِ معمول کہکشاؤں کا مشاہدہ کرنے والے، نئی تحقیق کے مصف مائک بوئلن کولچن کہتے ہیں ”اگر ان کہکشاؤں والی بات درست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ایسے علاقے میں ہیں، جو پوشیدہ ہے“
ان کا کہنا ہے ”ہمیں کہکشاں کی تشکیل یا تخلیقِ کائنات سے متعلق علم میں تبدیلی کے لیے بہت نئی چیز درکار ہوگی۔ بہت زیادہ انتہا کے امکانات میں سے ایک امکان یہ ہے کہ بگ بینگ کے فوراً بعد کائنات ہماری پیش گوئی کے مقابلے میں تیزی سے پھیل رہی تھی جس کے لیے نئی قوتوں اور ذرات کی ضرورت ہو سکتی تھی“
کاسمولوجی کا موجودہ ماڈل معیاری ہے، جو کائنات کے ارتقاء اور ساخت کو اس کے بڑے پیمانے پر بیان کرتا ہے۔ یہ عمومی اضافیت کے نظریہ پر مبنی ہے، جو کششِ ثقل کے رویے کو بیان کرتا ہے، اور بگ بینگ ماڈل کے اصول، جو کائنات کی ابتدائی تاریخ کو بیان کرتا ہے۔
پروفیسر بوئلن کولچن کی تحقیق (Stress testing ΛCDM with high-redshift galaxy candidates) کے عنوان سے نیچر ایسٹرونومی نامی جریدے میں اس ہفتے شائع ہوئی ہے
اس سے پتہ چلتا ہے کہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی فراہم کردہ معلومات سائنسدانوں کے لیے گہرے مخمصے کا سبب ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شاید تاریک توانائی اور ٹھنڈے تاریک مادّے سے متعلق نظریے میں کائنات کے بارے میں علم کے اس موجودہ معیاری ماڈل کے معاملے میں کچھ غلط ہو سکتا ہے، جو کئی دہائیوں سے کائنات کی تخلیق میں رہنمائی کرتا آ رہا ہے
عام طور پر کہکشائیں اپنی گیس کا تقریباً 10 فیصد ستاروں میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ لیکن نئی دریافت ہونے والی کہکشاؤں کو اپنی تقریباً تمام گیس کو ستاروں میں تبدیل کرنا ہوگا
یہ نظریاتی طور پر ممکن ہے، لیکن یہ اس بات سے دور ہے جس کی سائنسدانوں نے کبھی توقع کی ہوگی
کہکشاؤں کے مزید مشاہدے سے ان کی عمر اور کمیت کو بہتر طور پر واضح ہونا چاہیے۔ اس سے یہ ظاہر ہو سکتا ہے کہ ہمارے مشاہدات غلط ہیں کہ مرکز میں موجود انتہائی بلیک ہولز کہکشاؤں کو گرم کر رہے ہیں، اس لیے وہ حجم سے زیادہ بڑی نظر آتی ہیں یا یہ کہ حقیقت میں وہ وقت کے لحاظ سے توقع سے زیادہ بعد کی ہیں لیکن تصویروں سے متعلق مسائل کی وجہ سے زیادہ قدیم نظر آتی ہیں
لیکن اگر ان کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ماہرین فلکیات کو کائنات اور کہکشاؤں کی ترقی کے بارے میں اپنی فہم کو تبدیل کرنا پڑے گا تاکہ اپنے ماڈل میں غیر معمولی طور پر بڑی اور پختہ کہکشاؤں کے حساب سے تبدیلیاں کر لیں۔