جاپانی نوجوانوں میں شادی سے انکار کا بڑھتا رجحان، وجہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

جاپان سفید بالوں والے لوگوں کا ملک بنتا جا رہا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ آبادی کی اکثریت خضاب کا استعمال کرتی ہے، لیکن پھر بھی ضعیف العمری کے اپنے تقاضے اور مظاہر ہوتے ہیں

دو سال قبل کی ایک رپورٹ کے مطابق مردم شماری میں جاپان کی مجموعی قومی آبادی میں گزشتہ پانچ برس کے دوران دس لاکھ افراد کی کمی ہوگئی ہے

جبکہ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ جاپانی نوجوانوں میں شادی سے انکار کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ، تیس اور چالیس برس کے درمیانی عمر کا ہر چوتھا جاپانی نوجوان شادی نہ کرنے پر بضد ہے

تجزیہ کاروں کے مطابق بڑھتا ہوا معاشی دباؤ اور معاشرتی ذمہ داریوں سے آزاد زندگی کی خواہش اس رجحان کے اہم محرکات ہیں

سینتیس سالہ جاپانی نوجوان شو کا کہنا ہے ”میں مطمئن زندگی گزار رہا ہوں۔ میرے پاس روزگار ہے، جس سے میری آرام دہ زندگی کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں۔ میرے دوست ہیں اور میں ان سے باقاعدگی کے ساتھ ملاقات بھی کر سکتا ہوں۔ میرے کئی دیگر مشاغل بھی ہیں اور شوق پورا کرنے کے لیے معقول وقت بھی دستیاب ہے“

شو کی زندگی میں صرف ایک کمی ہے، بس ایک بیوی نہیں ہے، لیکن وہ اس کمی پر قطعی ناخوش نہیں

جاپانی حکومت کی جانب سے رواں ماہ جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شو کا شمار تیس اور چالیس برس کی درمیانی عمر کے ایسے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں ہوتا ہے، جنہوں نے کبھی شادی نہیں کی اور نہ ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں

لیکن معاشرتی لحاظ سے یہ صورت حال تشویشناک ہے کیونکہ جاپان میں آبادی پہلے ہی مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، اور اس رجحان سے اس میں مزید کمی آ رہی ہے

صنف کے بارے میں تازہ حکومتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ عمر کی 25.4 فیصد عورتیں اور 26.5 فیصد مرد شادی کرنے کا کوئی ارداہ نہیں رکھتے

بیس اور تیس برس کی درمیای عمر کے جاپانی نوجوانوں میں بھی یہ شرح زیادہ مختلف نہیں۔ اس عمر کی 14 فیصد لڑکیاں اور 19 فیصد لڑکے بھی شادی نہیں کرنا چاہتے

گزشتہ سال، یعنی سن 2021ع کے دوران جاپان میں صرف پانچ لاکھ چودہ ہزار شادیاں رجسٹر کی گئیں۔ یہ سن 1945ع کے بعد سے اب تک کی سب سے کم سالانہ تعداد ہے

1970ع میں اس سے دوگنا زیادہ شادیاں رجسٹر کی گئی تھیں

سروے میں شامل خواتین کا کہنا ہے کہ وہ شادی سے اس لیے گریز کرتی ہیں کیوں کہ وہ اپنی آزادی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہیں۔ وہ اپنا کیریئر بنانا چاہتی ہیں، اور گھریلو خاتون بن کر گھریلو کام کاج، بچوں کی پرورش اور والدین کی دیکھ بھال جیسے روایتی کام نہیں کرنا چاہتیں

نوجوان مرد بھی نجی آزادیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم بہت سے نوجوان یہ بھی کہتے ہیں کہ روزگار کی بے یقینی اور خاندان کی کفالت کے لیے ناکافی آمدن بھی شادی نہ کرنے کے اسباب ہیں

ٹوکیو کے شمال میں رہنے والے شو کہتے ہیں ”میں خوش ہوں، جو چاہوں کر سکتا ہوں، مجھے کسی اور کے بارے میں نہیں سوچنا پڑتا۔ میں رات دیر تک جاگ کر کمپیوٹر گیمز کھیل سکتا ہوں، فلم دیکھ سکتا ہوں اور دوستوں سے بھی مل سکتا ہوں، مجھے یہی اچھا لگتا ہے‘‘

شو نے مزید کہا ”میرے کچھ دوستوں نے شادیاں کیں، لیکن وہ بدل گئے اور اب میں ان سے زیادہ نہیں ملتا۔ ان کے لیے شاید ٹھیک ہے لیکن مجھے گرل فرینڈ رکھنا یا شادی کرنا ‘مینڈوکوسائی‘ لگتا ہے‘‘

جاپانی زبان میں ’مینڈوکوسائی‘ کا مطلب ‘پریشان کن‘ ہے

جاپان کی سرکاری رپورٹ کے اختتام میں لکھا گیا ہے ”جاپانی خاندان کی تشریح بدل چکی ہے اور اب شادی کو مستحکم زندگی کی ضمانت نہیں سمجھا جا رہا‘‘

جاپان کی صحت، محنت و بہبود سے متعلق وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2021ع میں جاپان میں مجموعی طور پر 811,604 بچے پیدا ہوئے۔ یہ تعداد اس سے پہلے سال کی نسبت تیس ہزار کم ہے

گزشتہ برس کورونا کی وبا کے دوران چودہ لاکھ سے زیادہ اموات ہوئیں اور اس کے ساتھ مسلسل چھٹے برس شرح پیدائش کم رہی۔ یوں مجموعی آبادی توقع سے زیادہ تیزی سے کم ہوئی

یوں تو جاپان میں شرح پیدائش 1970ع سے کم ہو رہی ہے لیکن ماہر نفسیات آیا فیوجی کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران یہ مسئلہ سنگین ہو چکا ہے اور بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت بھی اس رجحان کو بدلنے میں ناکام ہو چکی ہے

ممکنہ وجوہات کے بارے میں فیوجی کا کہنا ہے ”ایک تو یہ ہے کہ دوسرے ممالک کی نسبت جاپان میں تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس وجہ سے بھی اپنے خاندان کی خواہش رکھنے والے نوجوان اسے مالی بوجھ سمجھتے ہیں‘‘

اسی طرح عورتیں بھی شادی کرنے کی بجائے ملازمت کو ترجیح دے رہی ہیں

ان محرکات کے علاوہ فیوجی نے یہ بھی بتایا کہ نوجوان حقیقی زندگی میں لوگوں سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ یوں صنف مخالف سے روابط بھی کم رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے فیوجی کو یہ امید نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں کم ہوتی آبادی کا مسئلہ حل ہو پائے گا

تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر آبادی میں کمی کا یہی تناسب جاری رہا تو اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق 2050ع تک جاپان کی آبادی محض دس کروڑ نفوس تک محدود ہو جائے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1955ع میں اس ملک کی آبادی 9 کروڑ افراد پر مشتمل تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close