روشنی کی آلودگی: تاریکی ہمارے لیے کیسے فائدہ مند ہے؟

ویب ڈیسک

روشنی کی آلودگی۔۔ سننے میں کچھ عجیب سا لگتا ہے لیکن ایسا لگنا اس لیے ہے کیونکہ ہم شاید روشنی کی آلودگی کے منفی اثرات سے واقف نہیں

گزشتہ برس جنوری میں ایک تکنیکی خرابی کے باعث پاکستان کا ایک بڑا حصہ تاریکی میں ڈوب گیا تھا، جسے درست کرنے میں تقریباً بیس گھنٹے لگ گئے تھے۔ اس واقعے کا سوشل میڈیا پر بہت چرچا رہا کیونکہ کراچی اور لاہور جیسے گنجان آباد علاقوں کے رہائشی روشنیوں کی بہتات کے باعث حقیقی آسمان دیکھ ہی نہیں پاتے۔ بہت سے لوگوں نے پہلی بار جانا کہ لائٹ پولوشن بھی آلودگی کی ایک قسم ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف ہم سے رات کا دلکش آسمان چھن گيا ہے بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بھی بن رہی ہے

لائٹ پولوشن یا روشنی کی آلودگی کیا ہے؟

دنیا بھر میں روشنی کی آلودگی ایک ابھرتا ہوا مسئلہ ہے، جس میں سالانہ دو فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ’لائٹ پولوشن‘ سے زمين کے ماحول اور انسانوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں

فضائی، آبی اور دیگر آلودگیوں کی نسبت روشنی کی آلودگی کا آغاز ہوئے ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا۔ 1879 میں تھامس ایڈیسن نے بلب ایجاد کیا، تو اس سے پہلے مصنوعی روشنیوں کا واحد ذریعہ آگ تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں اور ایکو سسٹم پر لائٹ پولوشن کے اثرات ابھی تک اتنے گہرے نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں تو بہت سے لوگ اس سے آشنا بھی نہیں

جرمن ریسرچ سینٹر فار جیوسائنس ان پوٹسڈم سے وابستہ کرسٹوفر کائبا کا کہنا ہے ”مصنوعی روشنی کا آغاز ہمارے ماحول میں انسانوں کی جانب سے سب سے بڑی ڈرامائی طبعی تبدیلیوں میں سے ایک تھا“

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکزیٹر کے پروفیسر کیون گیسٹن کہتے ہیں ”انسان خود پر خلاف معمول روشنیاں طاری کر رہے ہیں“

رات کے وقت ساحلی علاقوں اور مکڑی کے جالوں کی طرح پھیلی شہروں کی روشنیاں دیکھنے میں خوبصورت دکھائی دیتی ہیں، لیکن منصوعی روشنیوں کے انسانی صحت اور ماحول پر غیرارادی طور پر نتائج بھی مرتب ہو رہے ہیں

ہمارے ارد گرد موجود تمام مصنوعی روشنیاں لائٹ پولوشن کا سبب بن رہی ہیں۔ ان میں گھروں، تفریحی مقامات، شاپنگ مالز، ہوٹلز اور اسٹریٹ لائٹس وغیرہ سب شامل ہیں۔ اسمارٹ فونز سے خارج ہونے والی روشنیاں بھی لائٹ پولوشن میں حصہ دار ہیں، جن سے سب سے زیادہ انسانی صحت متاثر ہوتی ہے

توانائی کے بحران کا شکریہ!

روس یوکرین جنگ کے تناظر میں اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیدا شدہ بحران کی وجہ سے کہ یورپ کے کئی ممالک نے شہروں میں رات کے وقت مشہور عمارات، تاریخی یادگاروں اور ٹاؤن ہالز، عجائب گھروں اور لائبریریوں جیسی عمارات کی روشنیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف جرمن دارالحکومت برلن میں ہی مثال کے طور پر وکٹری کالم یا فتح کے ستون اور برلن کیتھیڈرل سمیت شہر کی پہچان سمجھی جانے والی تقریباً دو سو عمارات غروب آفتاب کے بعد اب تاریکی میں ہی ڈوبی رہتی ہیں

توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر جرمنی کے سبھی شہروں نے رات کے وقت کافی لائٹیں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ اس فیصلے کی وجہ توانائی کی بچت کرنا ہے، لیکن یہ انسانی صحت، ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی بہتر ہوگا

لائٹیں بند کرنا فضائی آلودگی کے خلاف بھی مددگار

امریکہ میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ڈارک اسکائی ایسوسی ایشن کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں رات کے وقت آؤٹ ڈور جلائی جانے والی لائٹوں میں سے ایک تہائی کا قطعاً کوئی فائدہ ہوتا ہی نہیں

اس تنظیم کے ماہرین کے مطابق توانائی کے موجودہ بحران اور توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں حالیہ بےتحاشا اضافے سے پہلے بھی سچ یہی تھا کہ غیر ضروری لائٹیں بند کر کے سالانہ تقریباً تین بلین یورو (تین بلین ڈالر) کی بچت کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اسی اقدام سے فضائی آلودگی اور زہریلی کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی لاتے ہوئے تحفظ ماحول کی کوششوں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا تھا اور یہ کام اب بھی کیا جا سکتا ہے

بھارتی ریاست اتر پردیش کی رانی لکشمی بائی سینٹرل زرعی یونیورسٹی سے منسلک ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور کے ماہر پون کمار کے مطابق صرف بھارت میں ہی لائٹنگ کا حد سے زیادہ استعمال سالانہ 12 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضا میں اخراج کی وجہ بنتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس زہریلی کاربن گیس کا یہ حجم بھارت ہی میں سال بھر کے دوران فضائی اور سمندری راستوں سے آمد و رفت کے باعث خارج ہونے والے کاربن گیسوں کے مجموعی حجم کے تقریباً نصف کے برابر ہے

روشنیوں سے آلودہ آسمان

آج کی دنیا میں 80 فیصد سے زیادہ انسان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں آسمان غیر ضروری روشنیوں کی وجہ سے آلودہ ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں تو روشنی سے آلودہ آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے والے انسانوں کا تناسب 99 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کے تجربے سے گزرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا

اسی طرح کے حالات کی انتہائی نوعیت کی ایک مثال سنگاپور میں بھی دیکھنے میں آتی ہے، جہاں روشنیوں کی وجہ سے راتیں اتنی منور ہوتی ہیں کہ عام شہریوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کا سامنا کرنے کے لیے باقاعدہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے

ہمیں تاریکی کی ضرورت ہے

رات کے وقت کافی حد تک تاریکی صرف ماحول ہی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت اچھی ہے۔ اب تک کیے جانے والے کئی طبی مطالعاتی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آنکھوں کو پہنچنے والے نقصان اور مصنوعی روشنیوں کے مابین ایک باقاعدہ ربط پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی روشنیوں کا بے خوابی، جسمانی فربہ پن اور کئی واقعات میں ڈپریشن سے تعلق بھی ثابت ہو چکا ہے

طبی ماہرین کے مطابق ان تمام معاملات کا تعلق میلاٹونن نامی ہارمون سے ہے، جو انسانی جسم میں اس وقت خارج ہوتا ہے، جب اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنس کے ماہر کرسٹوفر کِیبا کہتے ہیں ”جب ہمارے جسم میں یہ ہارمون پیدا نہیں ہوتا، اس وجہ سے کہ ہمارا سامنا اپنے گھر، کام کی جگہ یا کھلے آسمان کے نیچے بہت زیادہ روشنی سے رہتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ سارا نظام مسائل کا شکار ہو جاتا ہے، جسے حیاتیاتی کلاک سسٹم کہتے ہیں‘‘

امریکہ میں 2020ء میں مکمل کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج کے مطابق ایسے بچے یا نوجوان جو بہت زیادہ مصنوعی روشنیوں والے علاقوں میں رہتے ہیں، انہیں نیند کم آتی ہے اور جذباتی نوعیت کے مسائل کا سامنا بھی زیادہ رہتا ہے

زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کے مطابق زمین پر انسانی طرز زندگی کے باعث کرہ ارض ہر سال دو فیصد کی شرح سے روشن تر ہوتا جا رہا ہے

پولوشن کے حوالے سے آگاہی پھیلانے والی تنظیم ’انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین آف ڈارک سکائیز‘ کے پاکستان میں سفیر اور ‘کوسمک ٹرائب سوسائٹی‘ کے بانی رایان خان کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کا نظام قدرت کے مخصوص چکر پر چلتا ہے جسے ‘سر کیڈین ردھم‘ کہا جاتا ہے اور جس میں سونے اور جاگنے کے اوقات بھی شامل ہوتے ہیں۔ سوتے وقت ہمارا دماغ ایک ہارمون میلاٹونن خارج کرتا ہے جس کے اخراج کا تعلق اندھیرے سے ہوتا ہے

اگر سوتے وقت دماغ پر روشنی پڑے، جیسے سمارٹ فون ساتھ رکھ کر سونا تو میلاٹونن کا اخراج متاثر ہوگا۔ اس سے نیند میں خلل اور صحت کے دیگر مسائل جیسے سر درد، تھکاوٹ، اعصابی تناؤ، نیند کی کمی کی وجہ سے موٹاپا، ڈپریشن اور کینسر کی کئی اقسام لاحق ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جن میں بریسٹ کینسر سر فہرست ہے

رایان کے مطابق سب سے زیادہ نقصان دہ اسمارٹ فونز کا استعمال ہے، جس سے خارج ہونے والی روشنی بینائی اور مینٹل ہیلتھ کے مسائل کو بڑھا رہی ہے۔ لوگ چڑچڑے، غصیلے اور بد مزاج ہوتے جارہے ہیں اور ان کی برداشت کی صلاحیت دن بدن کم ہو رہی ہے

تاریکی تو جانوروں اور پودوں کو بھی پسند ہے

زمین پر حیاتیاتی اقسام میں سے انسانوں کے علاوہ بھی کئی انواع ایسی ہیں، جنہیں خود کو رات کے وقت مصنوعی روشنی کا عادی بنانے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے

مثلاﹰ کورلز یا مونگے کی چٹانیں اس وجہ سے حسب معمول اپنی افزائش نسل نہیں کر پاتیں۔ ہجرت کرنے والے پرندوں کی اسی وجہ سے سفر کی سمت کا تعین کرنے والی حس متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر اسی بنا پر کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے والے نئے بچے ساحلی علاقوں سے پانی کی طرف جانے کے بجائے مزید خشکی کی طرف جانے لگتے ہیں، جہاں وہ مر جاتے ہیں

رایان کا کہنا ہے ”روشنی کی آلودگی جنگلی حیات کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ ہے۔ اس سے پودوں اور جانوروں کی فزیالوجی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر میں کئی جانور اور پرندے سال میں دو مرتبہ اپنے طے شدہ راستوں سے ہجرت کرتے ہیں۔ مگر ان راستوں پر بڑھتی ہوئی مصنوعی روشنیوں سے یہ بھٹک کر مر جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق صرف امریکا میں ہر برس سو ملین سے ایک بلین ہجرتی پرندے مصنوعی روشنیوں کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں

بہت سے جانور جو رات میں شکار کرتے ہیں وہ جنگلات کی کٹائی اور روشنیوں کی زیادتی کے باعث شکار کرنے سے قاصر ہیں۔ جنگل میں شکار اور شکاری خوراک کے ليے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں جس سے فوڈ چین بنتی ہے۔ لائٹ پولوشن سے یہ فوڈ چین شدید متاثر ہو رہی ہے اور بہت سے جانوروں کے ناپید ہو جانے کا اندیشہ ہے

جہاں تک پودوں کا تعلق ہے تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ شہری علاقوں میں اسٹریٹ لائٹس کے قریب لگائے گئے یا اگے ہوئے پودوں کی افزائش نسل کے لیے پولینیشن یا زیرگی بھی رات کے وقت مصنوعی روشنی کے باعث کم ہوتی ہے اور ان پر پھل بھی کم لگتے ہیں

رات کے وقت مصنوعی روشنی کے اثرات تناور درخت بھی محسوس کرتے ہیں اور قدرتی شبینہ تاریکی میں رہنے والے درختوں کے مقابلے میں ان پر کلیاں جلد آنے لگتی ہیں جبکہ پتے معمول سے کافی زیادہ تاخیر سے جھڑتے ہیں

رنگ بکھیرتی تتلیاں اور ٹمٹماتے جگنو ناپید ہو رہے ہیں

رات کے وقت مصنوعی روشنی حشرات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک سائنسی مطالعے کے مطابق صرف جرمنی میں ہی ہر موسم گرما میں رات کے وقت مصنوعی روشنی کے نتیجے میں ایسے تقریباً ایک سو بلین چھوٹے چھوٹے حشرات مر جاتے ہیں، جن کا تعلق رات کے وقت فعال رہنے والے حشرات کی قسموں سے ہوتا ہے

روشنی کی آلودگی موسمياتی تبديليوں کا سبب

ماہرین کے مطابق لائٹ پولوشن میں دو فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں شہری آبادی بڑھنے کے باعث اگلے چند برسوں میں اس تناسب میں تیزی سے اضافے کا امکان ہے

رایان خان کہتے ہیں ”یہ روشنیاں جو آج کل کے طرز زندگی کا حصہ ہیں، انہیں جلانے کے ليے توانائی درکار ہوتی ہے، جو زیادہ تر فوسل فیول سے حاصل کی جا رہی ہے۔ فوسل فیولز کا بڑھتا ہوا استعمال دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی شرح تیز تر کرنے کا سبب بن رہا ہے“

اس حوالے سے پاکستان میں کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

رایان خان بتاتے ہیں کہ شہری علاقوں میں آبادی بڑھنے کے ساتھ پاکستان میں لائٹ پولوشن میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، جس میں کراچی سر فہرست ہے

رایان ڈارک اسکائی تنظیم کے تحت پاکستان میں اس حوالے سے شعور و آگہی پیدا کر نے کے ليے کئی سالوں سے سر گرم ہیں اور عوامی مقامات پر ایک خصوصی تیار کردہ ‘کاسٹیوم‘ پہنتے ہیں۔ اس مکمل سیاہ کاسٹیوم میں سینسر لگے ہیں، جو رایان کے اسمارٹ فونز سے منسلک ہيں اور روشنی پڑنے پر آواز پیدا کرتے ہيں

رایان بتاتے ہیں کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود وہ جہاں بھی اس کاسٹیوم میں جاتے ہیں لوگ انہیں ’خلائی مخلوق‘ پکارتے ہیں۔ اس کا بنیادی آئیڈیا یہ ہے کہ روشنی کی زیادتی ہمیں محسوس نہیں ہوتی مگر سیٹیوں یا شور کی صورت میں ہمیں احساس ہوگا کہ کس جگہ کتنی روشنی تفاوت میں ہے، جسے کم کرنے کی ضرورت ہے

ان کے مطابق مغربی ممالک کی طرح سب سے پہلے ہمیں ان ڈور اور آؤٹ ڈور لائٹ پالیسی بنانی اور رائج کرنا ہوگی تاکہ گھروں اور عوامی مقامات پر روشنیاں ان حدود کے اندر رہیں۔ رایان اس مقصد کے ليے کافی سرگرم ہیں اور ایک لائٹ امپلی مینٹیشن پالیسی تیار کر چکے ہیں

رایان کہتے ہیں کہ سب سے پہل عوام میں شعور پیدا کرنا ہوگا جس کے ليے وہ ورک شاپس، سیمینارز اور تعلیمی اداروں میں لیکچرز دیتے ہیں۔ رایان کا کہنا ہے کہ ہم سے کہیں زیادہ آنے والی نسل لائٹ پولوشن سے متاثر ہوگی لہذا بچوں کو اس بارے میں سمجھانا اور سکھانا انتہائی ضروری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close